میاں کو چھیڑ لیا ہے تو اب چھوڑیں گے نہیں


جاٹوں راجپوتوں میں پنجاب کے اقتدار کی کشمکش پرانی ہے۔ سیاسی طاقت تعداد میں یہ تقریبا برابر ہیں۔ پنجاب میں نواز شریف فیصلہ کن طاقت ہیں۔ گجرات کے چوہدری کبھی ان کے عزیز ترین مضبوط ترین دوست تھے۔ جاٹ زیادہ تر چوہدری فیملی کے پیچھے کھڑے تھے۔ راجپوتوں کی قیادت چوہدری نثار کرتے ہیں۔ چوہدری فیملی نواز شریف کے زیادہ قریب تھی جبکہ چوہدری نثار کا تعلق شہباز شریف کے ساتھ زیادہ تھا۔ اب بھی انہی دونوں کو اک مک سمجھا جاتا ہے۔

جی ٹی روڈ پر جب ہم پنڈی سے لاہور کی جانب بڑھتے ہیں۔ راستے میں قومی اسمبلی کے کئی حلقے ہیں جہاں سے منتخب ممبر اسمبلی راجپوت ہیں۔ راجپوتوں میں بھی آج کل رانا صاحبان کا زور ہے۔ جی ٹی روڈ پر لاہور کے ہر جانب رانا صاحبان چھائے ہوئے ہیں۔ فیصل آباد، ملتان، قصور، شیخوپورہ، پاکپتن کوئی نہ کوئی رانا حکومت فرماتا دکھائی دے جاتا ہے۔

چوہدری فیملی اپنا عروج دیکھ چکی۔ ان کی سیاسی رخصتی کے ساتھ ہی جاٹوں کا پنجاب کی سیاست میں عمل دخل کم ہوا۔ چوہدریوں کے جانے کے ساتھ ہی راجپوت بلکہ رانا حضرات کا عروج آیا۔ اس عروج کے بارے اک مسلم لیگی گرو کا کہنا ہے کہ ”اؤ اسی کجھ تے کرنا سی“ یعنی ہم نے کچھ تو کرنا تھا۔ چوہدری چلے گئے تو کون کھڑا ہوتا پھر ان کے سامنے۔ رانے بھی ڈانگ سوٹے کے سیانے ہوتے ہیں جاٹوں کی طرح۔ یہاں گرو کا باقی ڈائلاگ بھی لکھنا تھا لیکن پوری بات لکھی تو مسئلہ ہو گا۔ کنو کا سیزن ہے وسی بابے کو ابھی اپنے پنڈ جانا ہے۔ اس موسم میں فروٹ کے سیزن میں اپنی برادری اور باقی برادریوں کی ناراضی افورڈ نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے آپ اپنا فوکس جاٹ راجپوت پر ہی رکھیں۔  آپ یہی سن کر خوش ہو لیں کہ سرداروں کے لطیفے اصل میں جاٹوں کے لطیفے ہوتے ہیں۔ رانا صاحبان پر بھی لطائف آسمان سے ہی برستے ہیں۔ آپ بس سننے والے بنیں مزہ ان لطیفوں کا بھی اتنا ہی آتا ہے۔

قصور اور شیخوپورہ دو اضلاع ہیں جہاں کے رانا حضرات کے کہ ایک ایک گھر میں ہی کئی حکومت اور پارلیمانی عہدے ہیں۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد رانا تنویر کو وزیراعظم بنانے پر کافی غور ہوتا رہا تھا پارٹی میں۔ ان کے ایک بھائی ایم این اے ہیں اور بیٹا ضلع ناظم ہے۔ قصور کے رانا اقبال خان سپیکر پنجاب اسمبلی ہیں۔ انہی کی فیملی سے رانا حیات اور رانا اسحق ممبران قومی اسمبلی ہیں۔ ضلع ناظم قصور بھی اسی فیملی سے ہیں اور کئی ناظمین بھی۔

تو ہوا یوں کہ رانا صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ نام ظاہر ہے ان کا بھول ہی گیا ہے۔ ان سے نہایت عالمانہ انگریزی اور ظالمانہ پنجابی سنی۔ پنجابی سن کر لگتا ہی نہیں کہ بھائی نے کبھی سکول کا منہ بھی دیکھا ہے۔
رانا صاحب نے بتایا کہ یار میں سروے کراتا رہتا ہوں۔ جب یہ سروے کمپنیوں کے منڈے کڑیاں فارغ ہوتے ہیں میں انہیں گاڑی دے کر سروے پر بھیج دیتا ہوں۔
سن کر حیرت سی ہوئی کہ رانا صاحب آپ اپنے حلقے کا سائنسی تجزیہ کراتے رہتے ہیں، کمال ہے۔
او نہیں اوئے اپنا تو کراتا رہتا ہوں پر میں تو انہیں بڑی دور دور بھیجتا ہوں کے پی اسلام آباد پنڈی ملتان تک۔
رانا صاحب تو کیا پتہ لگا آپ کو اپنے سروے کرا کے۔
رانا صاحب بولے یار سچی بات ہے بڑا ہی برا حال تھا ہمارا۔ پر اب ہم بچ گئے ہیں، شکر ہے مالک کا ہمارا مخالف کپتان ہے۔ جلسے ولسے کر کے خوش ہو جاتا ہے کہ چل فنکشن ہو گیا۔ اس کی سیاست بس اتنی ہی ہے بندے اکٹھے کرو رولا ڈالو اور گھر جا کر سو جاؤ۔ دوڑ ہماری لگی رہتی سارا دن۔ اپنے اور ووٹروں کے پھڈے روزانہ کی بنیاد پر نپٹانے پڑتے۔ ووٹر کو اک پل چین نہیں نہ وہ ہمیں چین لینے دیتا ہے۔

رانا صاحب سے پوچھا کہ آپ ہیں کس گروپ میں شہباز شریف یا مریم نواز۔
رانا صاحب نے کہا چوہدری نثار کی ہم مانتے ہیں۔ گروپنگ میں ہم شہباز شریف کے ساتھ ہیں۔
رانا صاحب ٹیلیفون کالوں والی بات ٹھیک ہے کہ نامعلوم نمبروں سے فون آتے ہیں۔
او یار فون تو آتے رہتے ہیں ٹیلی فونوں پر کیا ساتھ چھوڑے جاتے ہیں۔

رانا صاحب نے کہا دیکھیں نواز شریف جب نا اہل ہوئے تو لگ رہا تھا ہم پھنس گئے ہیں۔ وہ جی ٹی روڈ پر آ گئے ان کا شو اچھا رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم پھر بھی سیاسی مشکلات کا شکار تھے۔ اب کچھ ہفتوں سے اک تبدیلی آئی ہے۔ میاں صاحب کے جلسوں میں لوگ اب زیادہ چارج دکھنے لگے ہیں۔ ان کی بات سنی جانے لگی ہے۔
رانا صاحب نے کہا آپ نے محسوس نہیں کیا کہ خاموش رہنے کی شہرت رکھنے والے مائی لارڈ بھی بول رہے ہیں۔ بول کر بھی تو بات بن نہیں رہی۔ وہ ہلکی پھلکی بات بھی کرتے ہیں تو اس کی انہیں معذرت کرنی پڑتی ہے۔ یہ سب بڑھتا ہوا پبلک پریشر ہے۔ اب کوئی راستہ نکالنا پڑے گا آپ دیکھیں گے۔

ملاقات کو دو چار دن ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں کیس لگ گیا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کی مدت کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ فیصلہ واضح کر دے گا کہ نا اہلی کتنی مدت کی ہے۔ ایک الیکشن کی، ایک سال کی یا پانچ سال کی۔ خبریں کچھ مزیدار قسم کی آ رہی ہیں۔ پارلیمنٹ کا روٹ لیا جانے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ نون اتحاد برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اب اپنی صفیں سیدھی کر رہی ہے۔ پیر سیالوی کے ساتھ بھی صلح صفائی ہو گئی ہے۔

یہ سب کیسے ممکن ہوا۔ اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ رانا صاحب سے جب پوچھا کہ آپ پارٹی چھوڑیں گے۔ ان کا جواب تھا یار یہ تو ہم نے مشرف دور میں نہیں چھوڑی۔ اب کیوں چھوڑیں گے وہ بھی ایسے وقت جب ہمارے میاں کو چھیڑ لیا ہے ہمارے سیاسی ویری نے۔ ایسے میں میاں ہم سے چھوڑا نہیں جاتا۔
چھوڑا نہیں جاتا والا یہ مائنڈ سیٹ ہی ہے جو مسلم لیگ نون کو بحال کر رہا ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi