انتخابی اصلاحات کو ناکارہ کر کے قرض نادہندگان کا راستہ صاف کر دیا گیا ہے


حالیہ سالوں میں بہت کم ایسی قانون سازی ہوئی ہے جس پر الیکشن ایکٹ 2017 جتنی بحث ہوئی ہو۔ تاہم اس موضوع پر ہونے والی تمام بحث انتخابی اصلاحات جیسے اصل مسئلے سے دور رہی۔ تمام تر عوامی مباحثہ اور احتجاج، سیاسی جماعت کے سربراہ کی اہلیت اور ختم نبوت کی شقوں میں تبدیلی جیسے دو ایشوز کے ارد گرد گھومتا رہا۔ اگرچہ یہ دونوں معاملات برابر کی اہمیت رکھتے ہیں لیکن ان دو شقوں پر ہونی والی بحث نے انتخابی اصلاحات پر کوئی معنی خیز بحث نہیں ہونے دی۔ حالانکہ یہ پاکستان اور اس کی نوخیز جمہوریت کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ایشو ہے۔ یہ فروگزاشت اس حوالے سے بھی حیرت انگیز ہے کہ 2013 کے انتخابات کے بعد انتخابی اصلاحات سب سے اہم ایشو بن کر سامنے آیا تھا اور ایک بڑی عوامی تحریک کے آغاز کا باعث بنا تھا۔

الیکشن ایکٹ 2017 نے انتخابی عمل کی بہتری کے لئے کچھ اصلاحات ضرور متعارف کرائی ہیں تاہم اس نے کچھ ایسی بنیادی شرائط کو ختم کیا ہے جو منتخب نمائندوں کو عوام کے سامنے جواب دہ بنانے کے لئے نہایت اہم ہیں۔ اس ضمن میں شاید سب سے اہم قدم کا تعلق اس حلفیہ بیان سے ہے جو اپنے قرضوں، ٹیکس اور یوٹیلٹی بلز کے حوالے سے پیش کرنا امیدواروں کے لئے لازم تھا۔ 2002، 2008 اور 2013 کے تینوں انتخابات میں امیدواروں کے لئے یہ بیان دینا لازم تھا کہ وہ خود، ان کی بیگمات/شوہر اور ان کی اولاد میں سے کوئی بھی قرض یا ٹیکس نادہندہ نہیں ہے اور انہوں نے اپنے یوٹیلٹی بلز ادا کیے ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ بے ضرر سی شرائط تھیں لیکن یہ اس بات کو یقینی بناتی تھیں کہ امیدوار کی آمدنی اور دولت کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندگی کے لئے ان کی اہلیت سے متعلق اہم معاملات سے عوام کو آگہی مل سکے۔

اگرچہ ان میں سے کچھ شرائط پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے محدود سیاسی ایجنڈےکے حصول کے لئے متعارف کرائی گئی تھیں لیکن غیرارادی طور پر ان سے چند مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے۔ مثال کے طور پر ان کی بدولت نمائندگان کے ٹیکس اور زمین کے بارے میں معلومات عوام کو میسر آئیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ عام لوگ اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں اپنے منتخب نمائندگان کی آمدنی اور ان کے اثاثوں کے متعلق ایک واضح تصور تشکیل دے سکتی تھیں۔ ان کی بدولت عوام کو جواب دہی کے تصور پر مبنی ایک ارتقا پذیر حکومتی نظام کے بارے میں نہایت اہم معلومات مل سکتی تھیں۔ یہ بات درست ہے کہ اپنی پسند کی معلومات اٹھا کر ان کے ذریعے یکطرفہ احتساب کرنے کا خدشہ موجود تھا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان حلف ناموں کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات ہمارے حکمران طبقے کے حقیقی اور شفاف احتساب کے لئے اہم ستون ثابت ہوتیں۔

یہ افسوسناک بات ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 نے الیکشن کمیشن کے ان اختیارات کو سلب کر لیا ہے جن کے ذریعے وہ امیدواروں کی آمدنی، اثاثوں اور قرضوں کے بارے میں حلف ناموں کی جانچ پڑتال کر سکتا تھا۔ سابقہ کاغذات نامزدگی میں تمام امیدواروں کو یہ حلف اٹھانا پڑتا تھا کہ

”میں اپنے علم اور یقین سے حلفاً یہ اقرار صالح کرتا/کرتی ہوں کہ:۔
(1)کسی بنک، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی، یا ہئیت اجتماعیہ کی طرف سے میرے اپنے نام سے یا میری بیوی/شوہر یا میرے کسی زیرکفالت اشخاص میں سے کسی کے نام سے یا کاروباری ادارہ کے نام سے بیشتر میری یا مذکورہ بالا کی ملکیت دو ملین روپے یا اس سے زائد کی قرضہ کی رقم مقررہ تاریخ سے ایک سال سے زائد مدت کے لئے واجب الادا نہیں ہے یا مذکورہ قرضہ معاف نہیں کروایا گیا ہے“

یوٹیلٹی بلز اور فوجداری مقدمات کے حوالے سے بھی اسی قسم کے حلف نامے لازم تھے۔ ان معلومات کو اکٹھا کرنے کے لئے مختلف اداروں کی جانب سے بہت سارا کام پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ان امیدواروں کے اقرار ناموں کی جانچ پڑتال کی صلاحیت بھی پختہ ہو چکی تھی۔ بہتری کی گنجائش یقیناً موجود ہے تاہم، میری عاجزانہ رائے میں، ان تمام عوامی اقرارناموں کو بیک جنبش قلم ختم کر دینا ایک غلط اقدام ہے۔

2013 کے دوران جبکہ میں نادرا چئیرمین کے طور پر کام کر رہا تھا، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ ہم امیدواروں کی جانچ پڑتال کا ایک جدید ترین نظام بنانے کے لئے مطلوبہ تکنیکی امداد مہیا کریں۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین ابراہیم کو ٹیکنالوجی کے ذریعے ان ریٹرننگ آفیسر کو با اختیار بنانے میں بہت دلچسپی تھی جنہیں انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کے رد و قبول کا اختیار حاصل تھا۔ اس موضوع پر کئی مشاورتی اجلاس منعقد ہوئے جن کے نتیجے میں یہ جامع اتفاق رائے پیدا ہوا کہ ایسا نظام بنایا جائے جس کے ذریعے ٹیکس اور قرض نادہندگان، دہری شہریت کے حامل اشخاص اور نیب سے سزا یافتہ افراد، آئین کے آرٹیکل 62، 63 کےتحت کی گئی جانچ پڑتال سے بچ نہ سکیں۔ نادرا سے درخواست کی گئی کہ وہ جانچ پڑتال کا ایسا نظام تشکیل دے جو اس پورے عمل کو آسان کر دے اور بعد ازاں یہ ٹیکنالوجی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ٹرانسفر کر دی جائے۔ اس کے لئے لازم تھا کہ مختلف حکومتی اداروں مثلاً سٹیٹ بنک آف پاکستان، قومی احتساب بیورو، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو اور نادرا میں موجود ڈیٹا بیس کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جائے۔

ہم نے یہ کا م مکمل کر دیا۔ معلومات کا تکنیکی نظام کامیابی سے بنا لیا گیا تاہم جانچ پڑتال کا نظام سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے مفلوج رہا۔ اس بات کے کافی امکانات موجود تھے کہ جانچ پڑتال کے عمل کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر کاغذات نامزدگی رد ہو جائیں گے۔ سسٹم پر عمل نہ کرنے کے لئے یہ بہانہ بنایا گیا کہ اگر جانچ پڑتال کو غیرفعال بنا بھی دیا جائے تب بھی انتخابی قوانین الیکشن کے بعد اعتراضات دائر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ عدالتیں اور الیکشن ٹریبیونلز ایسی درخواستوں کی سماعت کر سکتے ہیں اور الیکشن کے بعد ضروری اقدامات لے سکتے ہیں۔ نادرا، جس نے اس عمل کے لئے بنیادی تکنیکی امداد فراہم کی تھی، کو یقین دلایا گیا کہ ان کی ٹیم کی طرف سے پس منظر میں کیا جانے والا کام ایک بیکار مشق نہیں ہے کیونکہ جانچ پڑتال کا یہ نظام 2018 میں ہونے والے اگلے عام انتخابات میں استعمال کیا جائے گا۔

2018 کے انتخابات سے چند ماہ قبل الیکشن ایکٹ 2017 نے امیدوار کی جانچ پڑتال کی ان تمام دفعات کو بیکار بنا دیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ضمن میں اہم ترین دفعات کو کاغذات نامزدگی سے نکال کر قرض اور ٹیکس نادہندگان کے لئے آزادی سے انتخابات لڑنے کا رستہ کھول دیا گیا ہے۔ کاغذات نامزدگی کی اس ترمیم شدہ شکل کے بعد عام آدمی کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ امیدواروں کے قرض اور ٹیکس کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکے۔ جہاں تک پہلے حصے کا تعلق ہے، سیاسی طبقے نے اسے طاق پر رکھنے کی واضح کوشش کی ہے۔ 1990 کی دہائی میں قرض نادہندگان درحقیقت سیاسی ایشو تھے۔ نوے کی دہائی میں ہر آنے والے حکومت نے ریاست کے ملکیتی بنکوں کے ذریعے ان سیاستدانوں کو قرض دیے جنہوں نے کاروباری آدمیوں کا بھیس بدلا ہوا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے قرضے معاف کرائے گئے۔ دو ماہرین سماجیات، عاصم خواجہ اور عاطف میاں اس موضوع پر اپنی شاندار تحقیق کے ذریعے یہ حقیقت سامنے لائے ہیں کہ نوے اور دو ہزار کی دہائیوں کے دوران سیاسی طور پر جڑی ہوئی فرمز 45 فیصد حکومتی بنکوں سے قرض لیتی تھیں اور ان میں سے سے پچاس فیصد یہ قرض واپس نہیں لوٹاتی تھیں۔ فوائد حاصل کرنے والے ایسے افراد کو عوامی نمائندگی کے لئے قطعی طور پر نا اہل قرار دینا چاہیے۔

تاہم سیاسی مصلحتوں کی قربان گاہ پر ساری سیاسی اشرافیہ، قرض اور ٹیکس کے بارے میں تمام اہم حلفی بیانات کو ختم کرنے کے لئے اکٹھی ہو گئی ہے۔ الیکشن ایکٹ کو کم از کم اس اس حوالے سے رجعت پسندانہ قانون کہا جا سکتا ہےکہ اس میں کاغذات نامزدگی کے ذریعےاپنے معاملات عوام کے سامنے لانے سے روگردانی کی گئی ہے۔ یہ قانون اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ انتخابی اصلاحات سول سوسائٹی کی جانب سے فعال بحث و تمحیص کا تقاضا کرتی ہیں اور اس معاملے کو فقط سیاسی طبقے پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سول سوسائٹی کی طرف سے مناسب دباؤ کے بغیر انتخابی اصلاحات کو زیادہ سے زیادہ اشرافیہ کے مابین ایک سمجھوتے کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اور ایک نکتہ جس پر اراکین پارلیمنٹ اکٹھے ہو گئے ہیں وہ ان کی آمدنی اور اثاثوں کو عوام کے سامنے ظاہر کرنے کے خلاف مزاحمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).