بجلی کا کرنٹ ؛ کتنی طاقت کا جھٹکا کتنا نقصان پہنچاتا ہے؟


آپ نے سنا تو ہوگا کہ بجلی کا جھٹکا یا برقی رو انسان کے لیے خطرناک یا جان لیوا ثابت ہوتی ہیں، مگر ایسا کیوں ہوتا ہے اور کتنی طاقت کا کرنٹ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے؟

ویسے اگر سائنسی لحاظ سے بات کی جائے تو انسانی جلد برقی رو کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے کافی طاقتور ہوتی ہے مگر یہ حفاظتی ڈھال اس وقت کام نہیں کرتی جب وہ حصہ گیلا ہو جس کو بجلی چھو لے۔

مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ بجلی کے جھٹکے کی بھی دو اقسام ہوتی ہیں ؟

یعنی برقی جھٹکا اور برقانسی یا الیکٹروکشن، اور اس کا انحصار کرنٹ کی مقدار، وولٹیج اور جسم کی کرنٹ کے خلاف مزاحمت پر ہوتا ہے۔

ویسے مختلف طاقت کے یہ جھٹکے متاثرہ حصے کے جلنے، سانس گھٹنے اور دل کی حرکت تھم جانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

مگر بجلی کے جھٹکے سے جسمانی دفاع اس وقت متاثر ہوتا ہے جب ہمیں کم از کم 1 ملی ایمپیئر (ایم اے) کے جھٹکے کا سامنا ہو۔

جیسا آپ کو معلوم ہوگا کہ ایمپیئر برقی رو کا یونٹ اور اس کے فلو کا پیچانہ ہوتا ہے یا آسان الفاظ میں اس کی مقدار سے جانا جاتا ہے کہ کتنا کرنٹ اس وقت کسی مقام سے گزر رہا ہے۔

جب اتنی طاقت کا کرنٹ لگتا ہے تو وہ جسم کے اندر الیکٹرونز کو حرکت میں لاتا ہے جس سے ایک ‘کرنٹ’ پیدا ہوتا ہے، یہ حرکت کرنے والے الیکٹرونز متاثرہ فرد کو ٹشوز یا اعصابی نظام کے ذریعے نقصان پہنچاتے ہیں۔

ویسے تو ہمارے جسم میں یہ الیکٹرونز عام حالات میں بھی حرکت میں رہتے ہیں مگر برقی رو کی صورت میں ان کا فلو جسم میں اس طریقے سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوتا ہے جس سے جسم کے اندر تباہی مچتی ہے، جیسے ٹشوز جل جاتے ہیں جبکہ ان اہم برقی سگنلز کے عمل میں مداخلت ہوتی ہے جو اعصاب، نیورونز وغیرہ ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔

جب کرنٹ جسم میں گزر رہا ہوتا ہے تو اسے گوشت کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں حرارت پیدا ہوتی ہے جو اکثر اوقات اعضاء کے جلنے کا باعث بنتی ہے۔

کتنی طاقت کا جھٹکا نقصان پہنچاتا ہے؟

0.5 سے 3 ایم اے سنسناہٹ کا احساس

3 سے 10 ایم اے مسلز میں کھچاﺅ اور درد

10 سے 40 ایم اے مسلز پر کنٹرول ختم ہوجانا اور اس وقت تک بے حس ہوجانا جب تک کرنٹ تھم نہ جائے

30 سے 75 ایم اے نظام تنفس مفلوج ہوجانا

100 سے 200 ایم اے دل کا سکڑنا (موت کا امکان بڑھ جاتا ہے)

200 سے 500 ایم اے دل کا سختی سے بھینچنا

1500 ایم اے سے اوپر ٹشوز اور اعضاءجلنا شروع ہوجاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).