ڈیپ ویب، ڈاکٹر مذکور اور لندن کے مدیر مشکور


کہیں ڈیپ ویب، ڈارک ویب، ماریانا ویب اور اس کے ریڈ رومز کا ذکر ہے تو کہیں بین الاقوامی مافیا کا جو وائلنٹ سیکس یعنی متشدد جنسی عمل پر فلمیں بنا کر فروخت کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ جو آئس برگ کے وسیع نچلے حصے ہیں ان کو کھولنا، دیکھنا جہاں مشکل ہے وہاں ہر ملک میں جرم بھی تو ہے۔ بھائی مجھے سمجھ نہیں آ پا رہی کہ پھر انہیں دیکھے کا کون؟ یا تو مجرم دیکھیں گے یا مجرموں سے نمٹنے والے۔ صحافی بھی اگر تحقیق کی غرض سے دیکھے گا تو قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو پہلے سے مطلع کرے گا بصورت دیگر قانون کی زد میں ائے گا۔

 ہمارے دوست اور کمپیوٹری اعمال کے ماہر عدنان خان کاکڑ کے مطابق یہ ڈارک ویب کوئی اتنا زیادہ وسیع بھی نہیں کہ اسے برف کے تودے کا پانی میں ڈوبا بیشتر حصہ قرار دیا جائے۔ درست کہتے ہوں یا غلط، البتہ یہ طے ہے کہ انٹر نیٹ کے ان خفیہ خانوں کو اگر 98 نہیں تو پچانوے فیصد یوزر تو بالکل نہیں دیکھتے۔

اب آ جاتے ہیں پورن انڈسٹری کی جانب۔ یہ مغرب میں سالہا سال سے ایک عام انڈسٹری ہے۔ یورپ ہی کیوں بنکاک میں اس کے عام شو ہوتے ہیں جو چند سو بھات خرچ کرکے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ البتہ اتنا ہوا کہ انٹرنیٹ شروع ہونے سے اس تک زیادہ لوگوں کو رسائی حاصل ہو گئی پھر موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرنے کی سہولت کے بعد اس سے حظ اٹھانے والوں کی تعداد میں معتدبہ اضافہ ہو گیا۔

انٹرنیٹ پر قابل رسائی پورن ویب سائٹس کی متعدد کیٹیگریز میں ایک کیٹیگری “رف سیکس” یعنی بھدے جنسی اعمال کی ہوتی ہے۔ “وائلنٹ سیکس” یعنی متشدد حتیٰ کہ مار دیے جانے کی حد تک جنسی اعمال، جن سے متعلق ایک اینکر بن چکے ڈاکٹر صاحب نے واویلا مچایا ہے، ان سائٹس پر نہیں ہوتی۔ جیسی بات انہوں نے کی ہے اس سے تو مجھے یہ ہمت نہیں ہو رہی کہ اپنے ڈاکٹر کولیگ سے پوچھوں کہ جناب پیڈوفل (طفل پرست) اور سیڈسٹ (سادیت پسند) میں کوئی فرق ہوتا ہے یا نہیں؟ ہر طفل پرست، جن کی عیاں تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے سادیت پسند نہیں ہوتا مگر ہو سکتا ہے کہ کوئی سادیت پسند یعنی تشدد سے جنسی حظ اٹھانے والا طفل پرست بھی ہو۔

تاہم اس مذموم فعل کے دیکھنے والے دنیا میں اتنے زیادہ نہیں ہیں کہ وہ لاکھوں ڈالر خرچ کریں۔ چلیں اگر پوری دنیا میں کوئی ہزاروں لوگ ایسے ہوں تو کیا وہ سارے قانون شکنی کی جرات رکھتے ہیں؟ ممکن ہے ایسی فلم کبھی کبھار بن بھی جاتی ہو، کیونکہ ابھی تک انٹرنیٹ پر قتل کیے جانے کی دو ایک مثالیں ہی ہیں، تو کیا اس نوع کے شوقین لوگ اسے انٹرنیٹ پر ہی، پیچیدہ اور خطرناک عمل سے گذر کر دیکھیں گے؟ ان کے لیے کہیں آسان اور محفوظ ہوگا کہ وہ پانچ سو، ہزار ڈالر میں اس کی کاپی خرید لیں۔ چلیں سمجھ لیتے ہیں کہ اب ڈی وی ڈی کا دور نہیں رہا تو وہ کیا اپنی جان مال عزت کو داؤ پر لگا کر ایسی فلم دیکھیں گے؟

تو بھائی یہ سارے خفیہ ویب اور بقول آپ کے وائلنٹ سیکس کی انٹر نیٹ پر وڈیوز کا سلسلہ تو کب کا شروع ہو گا۔ 2015 کے بعد بشمول معروف ڈاکٹر موصوف کے کسی کو خیال نہیں آیا کہ اس معاملے کو طشت از بام کرے۔ کئی بچیوں کے قتل اور عجیب انداز میں سپریم کورٹ کی جانب سے 72 گھنٹوں کے الٹی میٹم کی تلوار لٹکائے جانے کے بعد جس طرح ایک سیریل کلر نہ صرف پکڑا گیا بلکہ اس نے اعتراف بھی کر لیے، اسی طرح اس ہی موقع پر یہ خفیہ ویب اور متشدد جنسی حظ کیشی بھی سامنے آ گئے۔ سارے قصے اور سارے ہی ادارے اور لوگ عجیب ہیں، کسی ایک تک محدود نہیں۔

ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں “اگر میں نے ایسی وڈیوز دیکھی ہوں تو جن میں پاکستانی اور قصور کی بچیاں ( نمعلوم انہوں نے کیسے شناخت کیا کہ قصور کی ہیں) دکھ رہی تھیں۔” اس کا جواب یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے ترجمان احمد خان کو نہیں چاہیے تھا کہ آپ کو جناب کہہ کر مخاطب کرتے کیونکہ آپ تو خود قانون شکنی کا اعتراف کر رہے ہیں، وہ بھی ڈارک ویب میں وائلنٹ سیکس دیکھنے جیسے مذموم عمل کا، جس کے لیے آپ نے پہلے سے کسی ادارے کو مطلع نہیں کیا کہ آپ تحقیقی صحافت کے ضمن میں ایسے ویب تک رسائی کرنے والے ہیں۔

یہ صاحب تو خیر ہیں ہی اپنی طرز کے۔ ان سے بھی بڑھ کر کسی صاحب نے لندن اور لاہور سے ماڈریٹ کی جانے والی ایک ویب سائٹ پر اپنی سٹوری چھپوائی جس میں انہوں نے اس گینگ کے ڈانڈے روسی مافیا (وہ دن گئے جب خلیل خان روس میں فاختہ اڑاتے تھے، مافیا کی کوئی شکل سامنے نہیں ہے) کے ساتھ جوڑ دیے۔ روس میں “کام کلوز” کر کے قصور گئے نوجوان “زین” کو دو سالوں میں “امیر کبیر” ہوا بتا کر یہ بھی فرما دیا کہ زینب کے قتل کے فوراً بعد وہ روس لوٹ گیا ہے۔

لندن سے ویب چلانے والے صاحب نے مجھ سے دریافت کیا۔ میں پاکستانی برادری کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کے سبب اتنا ہی بتا سکا کہ اس نام کا کوئی شخص کم از کم ماسکو میں نہیں ہے۔ عام طور پر لوگ بیلاروس اور اب تک یوکرین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو روس سمجھ لیتے ہیں اور روس ہی کہتے ہیں، اگر وہاں کوئی اس نام کا قصوری ہو تو میں کہہ نہیں سکتا البتہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ آپ اپنے انفارمر لکھاری سے کہیں کہ وہ اپنی معلومات ایف آئی اے، آئی ایس آئی اور سپریم کورٹ کے علاوہ اس ضمن میں بنی جے آئی ٹی سے شیئر کرے اور کار خیر میں حصہ ڈالے۔ ویسے وہ بھی تو ڈاکٹر مذکور کی طرح کہہ سکتا ہے کہ صحافی کا کام خبر دینا ہے۔ خبر غلط بھی ہو سکتی ہے۔ پہلے غلط ثابت کریں پھر مجھ سے معذرت کرنے کو کہیں۔ چاہے آپ جیسے دو حضرات اس سے پہلے کتنی ہی سنسی پھیلا کر لوگوں کو ہیجان میں مبتلا کرکے ایک دوسرے سے لڑا دیں۔

اسی لیے شروع سے کہتا رہا کہ سیریل کلر کا عجلت میں فیصلہ کرکے معاملہ تمام نہ کریں، مافیا کے وجود کی نفی یا اثبات کریں، ڈاکٹر صاحب اور دوسرے صاحب کو انعام سے نوازیں یا شرمسار کریں، بعد میں چاہے “قبلہ حافظ عمران ارشد” کو لٹکا دینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).