بلاول بھٹو زرداری کی باتوں میں نئی نسل کے لئے امید کی روشنی


پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سوٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں بھارتی نیوز میڈیا ’انڈیا ٹو ڈے ‘ کو انٹرویو میں جس ہوشمندی اور تحمل سے اشتعال انگیز اور منفی سوالوں کے جواب دیئے، اس کے بعد سوشل میڈیا میں ان کی توصیف کی جارہی ہے۔ تاہم اس انٹرویو کو صرف ایک پارٹی کے رہنما یا ایک پاکستانی لیڈر کی طرف سے بھارت کے منہ زور صحافی کے یک طرفہ اورجارحانہ سوالوں کے جواب میں قومی مؤقف کوپیش کرنے کی کاوش سے زیادہ اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بلاول پاکستان کی سیاست میں نوجوان نسل کے نمائیندے ہیں۔ اگر وہ ہوشمندی سے قومی معاملات کی تفہیم اور بین الاقوامی تناظر میں علاقائی مسائل اور اہم ترین ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور حل کے حوالے سے مثبت رائے کا اظہار کرتے ہیں تو یہ امید باندھنا آسان ہو سکتا ہے کہ ملک کے نوجوان سیاست دان پرانی پیڑھی کے تعصبات، مجبوریوں اور کمزوریوں کو پیچھے چھوڑ کر ملک کے لئے نیا راستہ کھوجنے کا حوصلہ اور فہم رکھتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا بھارتی ٹیلی ویژن کے لئے انٹرویو اس حوالے سے ایک اہم دستاویزی ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے کہ پاکستان کی نئی نسل میں ملک سے محبت کے علاوہ مسائل کو سمجھنے اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ موجود ہے۔ اسی لئے بلاول کی باتوں کو نہ تو پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی صرف ایک سیاسی پارٹی کی حکمت عملی اور پالیسی کی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے دراصل اپنے ہمسایہ ملک کی نئی نسل کے علاوہ اپنے ملک کے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ مستقبل ان کا ہے ، اس لئے انہیں اسے خود ہی سنوارنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔

یوں تو بلاول بھٹو زرداری پر یہ تہمت موجود رہے گی کہ وہ خاندانی سیاست کا تسلسل ہیں جس کی وجہ سے وہ عوام کے حقیقی نمائیندے ہونے کی بجائے بھٹو خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ان کے اسی تعلق اور رشتہ کی وجہ سے ہی 2007 میں بے نظیر بھٹو کی اچانک شہادت کے بعد انہیں محض اٹھارہ برس کی عمر میں پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ ابھی برطانیہ میں اپنی تعلیم مکمل کررہے تھے اور پاکستان کی سیاست یا معاشرت اور لوگوں کے بارے میں ان کی معلومات بہت کم تھیں۔ ان کے والد آصف علی زرداری نے بلاول کو چیئرمین بنا کر خود معاون چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ وہ اب تک اس اختیار کو یوں استعمال کررہے ہیں کہ بعض اوقات لگتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو محض بھٹو خاندان سے تعلق کی وجہ سے چیئرمین کہا جارہا ہے اور آصف زرداری درحقیقت پارٹی کے معاملات اپنے طریقے سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ مخالفین اس صورت حال کو بلاول بھٹو زرداری کی صلاحیتوں اور قیادت پر سوالیہ نشان کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان مسائل سے بلاول، ان کی بہنوں اور والد کو اپنے طور پر نمٹنا ہے۔ کیونکہ بھٹو کی عوام دوستی اور بے نظیر کی سیاسی بصیرت کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری بہر حال بلاول پر عائد ہوتی ہے۔ بلاول اس ذمہ داری کو یہ کہنے کے باوجود تسلیم بھی کرتے ہیں کہ سیاست نے انہیں چنا ہے ، انہوں نے سیاست کو نہیں چنا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آج دیئے گئے انٹرویو میں بھی انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ اپنی والدہ کے سیاسی مشن کو آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ ایک نوجوان لیڈر کو جب اپنی اس ذمہ داری اور اس کی اہمیت کا احساس ہو تو یہ توقع کی جانی چاہئے کہ وہ پارٹی اور خاندان کے معاملات سے احسن طریقے سے نمٹیں گے اور ان مقاصد کے لئے کام کریں گے جو ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پیش نظر رہے۔ یعنی ملک میں روشن خیالی کی بنیاد پر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے کام جاری رکھنا جس میں عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور جمہوری عمل کو بار بار فوجی مداخلت سے تاراج نہ کیا جائے۔

سیاست میں جانشینی کا معاملہ صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ برصغیر کے بیشتر ممالک اس چیلنج کا سامنا کررہے ہیں۔ تاہم پاکستان کی حد تک یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر سیاسی خاندانوں کی نئی نسلیں قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پرانی نسل کے اچھے کام کو آگے بڑھانے کا قصد کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہیں ، جو ان کے سینئیرز سے سرزد ہوتی رہی ہیں تو اس سے ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کے علاوہ اس میں شائستگی اور مہذب لب و لہجہ کا اضافہ کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ اس طرح سیاست زاتی جاہ پرستی اور مفاد کے حصول کا ذریعہ نہیں رہے گی بلکہ اسے قومی اہداف کے حصول کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ یوں ملک کی سیاست میں جمہوریت مستحکم اور منفی رویے محدود ہو سکیں گے۔ بلاول بھٹو زراداری کا بھارتی میڈیا کے ساتھ انٹرویو اس حوالے سے بھی ایک اہم دستاویزی شہادت کے طور پر سامنے آیا ہے کہ ملک کے نوجوان گالی گلوچ اور الزام تراشی کو شعار بنانے کی بجائے اصولوں پر بات کرنے اور ان کے حصول کے لئے حکمت عملی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بلاول نے بھارتی صحافی راہول کنول کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے اس کا اظہار بھی کیا ہے اور سیاسی مخالفین کی نکتہ چینی اور دشنام طرازی کے حوالے سے براہ راست سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ ملکی سیاست میں ہونے والے ڈائیلاگ پر کسی عالمی میڈیا یا فورم پر گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ اس کی بجائے انہوں نے نفرت اور انتہا پسندی سے پاک ایک ایسے معاشرے کے قیام کے لئے کام کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے جس میں سب کو باہمی احترام کے ساتھ زندہ رہنے کا حق حاصل ہو۔

اسی طرح بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کی اندرونی سیاست پر براہ راست گفتگو کرنے اور لیڈروں کی مقبولیت یا نعرے بازی پر بات کرنے کی بجائے یہ اصول سامنے لانے کی کوشش کی ہے کہ عقیدہ اور نسلی تعلق کے حوالے سے تقسیم پیدا کرنے کی کوششیں کسی بھی ملک کے لئے سود مند نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پے درپے کامیابیوں کو بھارت کی راست گوئی کا ثبوت سمجھنے کی بجائے انہوں نے مودی حکومت کی کمزوریوں اور ناقص حکمت عملی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اصل مقصد اہداف کا حصول ہونا چاہئے، انتخخاب جیتنا بجائے خود کوئی بڑا مقصد نہیں ہو سکتا۔ بلاول کی یہ باتیں ان کی زیرکی کے علاوہ اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ پاکستان کی نئی نسل ذاتیات اور الزام تراشی کی سیاست کو مسترد کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ دونوں ملکوں کی نئی نسل کو پرانی عداوت کو ختم کرنے کے لئے پل بنانے اور مواصلت شروع کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔

نوجوان لیڈر کے طور پر انہوں نے صرف نئی نسل کے رول کے حوالے سے ہی گفتگو نہیں کی بلکہ یہ روشنی بھی دکھائی ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں کی نئی نسل اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار بھی ہے۔ تاہم انہوں نے بھارتی صحافی پر واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے امریکہ ہو یا بھارت، انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈائیلاگ ہی آگے بڑھنے اور انتہا پسندی ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔ پاکستان کو دھمکا کر یا اس سے مطالبے کرنے کی بجائے ، اس کا مؤقف سننے اور مناسب فورم پر اپنی بات کہہ کر ہی معاملات سے احسن طریقے سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اس بھارتی پروپیگنڈے کا بھی مناسب جواب دیا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت برائے نام ہے اور اصل اختیار فوج کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ معاملات ریاستوں کے درمیان ہوتے ہیں، کسی ایک ملک کی فوج دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ نہیں کرتی۔ پاکستان کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے اور ہر پاکستانی لیڈر اور سیاسی جماعت اپنی فوج کی پشت پر ہے۔ انہوں نے بھارتی صحافی کے اس مؤقف کو بھی مسترد کیا کہ پاک فوج بھارت کے ساتھ چھیڑ خانی کرتی ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ دراصل بھارت مسلسل پاکستان کے ساتھ چھیڑ خانی کرتا ہے اور اس کے خلاف اشتعال انگیزی اختیار کئے ہوئے ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دسمبر 2015 میں ضرور پاکستان آئے تھے لیکن اس کے بعد خیر سگالی کے اس جذبہ کو عملی اقدامات کی شکل دینے سے مسلسل گریز کیا گیا ہے۔ اس طرح پاکستانی سیاست دانوں پر واضح ہو گیا کہ مودی نے اس دورہ کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے لئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے نہایت دانشمندی سے یہ واضح کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی قیادت جب تک میڈیا کی نگاہوں سے ایک دوسرے ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو دیکھتی رہے گی، اس وقت تک علاقے میں امن اور مسائل کے حل کے لئے کام کا آغاز نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کی نوجوان نسل کے نمائیندے کے طور پر بلاول بھٹو زرداری کی باتیں پاکستان اور بھارت کے سب لوگوں کے لئے امید کا پیغام ہیں۔ لیکن پاکستان کی نئی نسل اور عوام بطور خاص امید کرسکتے ہیں کہ اگر اس مزاج اور تحمل و بردباری سے بات کرنے والے نوجوان لیڈر آگے آئیں اور قومی معاملات طے کرنے لگیں تو ملک کی ترقی کا راستہ آسان ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali