نسرین انجم بھٹی: کونج کو بچھڑے دو برس ہو گئے


وہ محبت بانٹنے آئی تھی اور چلی گئی۔ نفرت سے کوسوں دور اور پریت لہر میں گندھی ہوئی نسرین انجم بھٹی کو پنجاب سے عشق کرنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ وہ گونگا پنجاب جس کی زبان کی ترویج کے لئے اس نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی نا صرف گونگا ہی رہا بلکہ سننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو گیا۔

المیہ دیکھئے گڑھی شاہو کی یہ شاہزادی لاہور میں دفن ہونا چاہتی تھی جہاں کے ریڈیو سے لے کر علمی و ادبی اور سیاسی و نظریاتی حلقوں میں اس نے اپنی زندگی دان کر دی تھی لیکن پورے لاہور میں اسے کوئی سنبھالنے والا نہیں تھا سو اس کے دو بوڑھے بہن بھائی اسے کراچی لے روانہ ہوئے جہاں بیت السکون ہسپتال میں اسے چار و ناچار اپنی آخری سانسیں دینا پڑیں۔

آج نسرین انجم بھٹی کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے ہیں لیکن ان دو برسوں کے دوران ریڈیو پاکستان اور لاہور کو اپنی زندگی دینے والی کے حوالے سے کوئی پروگرام نشر نہیں ہو سکا نا کسی ادبی صفحے، پنجابی اخبار اور میگزین کو توفیق ہوئی کہ اس کی خدمات کے صلہ میں کوئی ورق کالا کر دیتے۔ زندہ دلان لاہور نے اس کی بیماری کے دوران جس سخاوت کا مظاہرہ کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اتنے بھرے بھرائے لاہور میں سرجی میڈ، انمول اور سی ایم ایچ ہسپتال میں بے یار و مددگار نسرین کو کوئی پوچھنے نہیں گیا۔ البتہ زبانی جمع خرچ اس کے علاج کی لاگت سے زیادہ کیا گیا۔ اس کی معنوی اولاد بھی سوشل میڈیا اور ایک دوسرے کو فون کرنے کی حد تک محدود پائی گئی۔ سو کالڈ پنجابی وچار دھارے جیل روڈ اور چائے خانوں میں لمبی لمبی بحثیں ہانک رہے تھے لیکن اس کی وہیل چیئر کو دھکیلنے کے لئے دو ہاتھ دستیاب نہیں تھے۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی طرف چودھری منظور احمد گلدستہ لے کر عیادت کے لئے تو گئے لیکن کیا چیئرمین کو خبر ہے کہ نسرین کون تھی؟ کیا نسرین کو “میں بھٹو ساگر سندھ دا میری راول جنج چڑھی” یہ نظم لکھنے کی سزا نہیں دی گئی؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اسی جرم کی پاداش میں اسے پرائیڈ آف پرفارمنس سے محروم رکھا گیا؟ پنجاب کی اشرافیہ کو یہ نظم کیسے ہضم ہو سکتی تھی۔ جبر کے تیرہ برس بھی اس کا قلم خاموش نہ رہ سکا۔ وہ سیاسی معتوب بھی رہی لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے اور عمل کے ساتھ جڑی رہی۔ اس کی موت پر ایک سرکاری پریس ریلیز کے ذریعے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے بھی اظہار تعزیت کیا لیکن ایک سرکاری کال اس کے علاج کے لئے نہ کی جا سکی۔

آپ میری بات سے اختلاف کریں لیکن روئے ارض پر اس وقت چار پنجاب ہیں جن کے تمام زندہ شاعر مل کر بھی نسرین جیسی ایک سطر نہیں کہہ سکتے۔ شاعرات کا نام اس لئے نہیں لیا کہ نسرین کے پاؤں کی گرد تک پہنچنے والی بھی کوئی اس وقت موجود نہیں۔ نسرین کے بعد کسی پنجابی شاعرہ کو پیدا ہونے کے لئے سو سال انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ وہ شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیم یافتہ ، ڈرامہ نگار، میوزک پروڈیوسر، براڈکاسٹر، مترجم، دانشور، سیاسی و سماجی کارکن اور نظریاتی ادب کے حلقوں میں پلی بڑھی تھی۔

اٹھارویں صدی کے ممتاز ہندوستانی مصور نین سکھ سے قلمی نام ادھار لینے والے خالد محمود ایڈووکیٹ نے اپنی حالیہ کتاب میں نسرین انجم بھٹی کے حوالے سے جو ہرزہ سرائی کی ہے وہ انتہائی سطحی اور قابل مذمت ہے۔

اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے پنجابی کہانی کار ایڈمن افسر کے طفیل کانفرنس ہال میں داخل ہونے سے پہلے نسرین انجم بھٹی کا ایک پورٹریٹ آویزاں کر دیا گیا ہے اور وہ وقت بھی دور نہیں جب اس کی خدمات کو سراہا جائے گا۔ اردو اور پنجابی کے طلباءایم فل اور پی ایچ ڈی کے تھیسز میں نسرین انجم بھٹی کو مزید دریافت کریں گے۔ حال ہی میں کینیڈا کے ایک پنجابی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے احمد سلیم نے کہا کہ احمد راہی اور سارا شگفتہ اس عہد کے بڑے شاعر تھے۔ ہمیں ان کی رائے سے کوئی اختلاف نہیں لیکن ان سے التماس ہے کہ وہ سارا شگفتہ کی کتاب ”لکن میٹی“ میں چھپی ہوئی نسرین انجم بھٹی کی نظم ”کونج اپنی چھاں لے کے اُڈ گئی“ کے بارے میں کوئی وضاحت فرما دیں کہ یہ نظم انہوں نے کتاب میں کیسے شامل کر لی۔ کیونکہ یہ نظم نومبر 1980ءمیں ڈاکٹر مبارک احمد کے گھر میں سارا شگفتہ کے اعزاز میں رکھی گئی ایک تقریب میں نسرین انجم بھٹی نے پڑھی تھی۔ مبارک احمد نے یہ نظم 27جون 1983ءکو ٹیپ ریکارڈر سے سن کر لکھی اور نسرین انجم بھٹی کو دی۔ یہ نظم ”نیل کرائیاں نیلکاں“ میں شامل نہیں ہو سکی تھی۔ نئے قارئین کے لئے مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔

نسرین انجم بھٹی بنیامین بھٹی کے گھر 26جنوری1948ءکو کوئٹہ میں پیدا ہوئیں۔ 1968ءمیں لاہور کالج فار وویمن سے فائن آرٹس میں بیچلر ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج پنجاب سے 1969ءمیں ایم اے اردو کیا۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1994ءمیں ایم اے پنجابی کیا جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے 2001ءمیں وویمن اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویشن ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1991 ءمیں بیگم نصرت بھٹو نے ان کو جمہوریت ایوارڈ دیا۔ بیگم شہناز وزیر علی نے 1993ء میں قومی ادبی ایوارڈ دیا۔ شاعری میں شاہ حسین، استاد عشق لہر، امیر خسرو ایوارڈز جبکہ 2010ء میں مسعود کھدر پوش ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ادبی خدمات کے پیش نظر پنجابی کانفرنس پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ، بھارت نے ان کو کلچرل ایوارڈ جبکہ 2006ء میں جالندھر میں ہنس راج مہیلا مہا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ پاکستان میں قومی ثقافتی ایوارڈ اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی طرف سے مزاحمتی شاعری کے حوالے سے سراہا گیا۔ 2009ء میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی طرف سے بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی پر دستاویزی فلم کے لئے اسکرپٹ لکھا۔ سید ممتاز عالم کی طرف سے بینظیر میڈل دیا گیا جبکہ حکومت پاکستان نے 2011ء میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ پنجابی شعری مجموعے ”نیل کرائیاں نیلکاں“، ”اٹھے پہر تراہ“ اور ”شاملاٹ“ شائع ہوئے جبکہ اردو میں ” بن باس“ کے نام سے کتاب شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے بے شمار اہم ناول اور کتابوں کے انگریزی، اردو، سندھی اور پنجابی میں تراجم کئے۔

کیا ہی اچھا ہو اگر گڑھی شاہو لاہور میں دولتالہ ہاﺅس کے قریب ایک سڑک کا نام ”نسرین انجم بھٹی“ سے منسوب کیا جائے۔ ریڈیو پاکستان لاہور ان کے پروگرامز اور انٹرویوز کو کتابی شکل میں شائع کرے۔وہ تھی، وہ ہے اور وہ رہے گی لیکن اس کے ساتھ نا انصافی، تعصب اور ظلم روا رکھنے والے تاریخ کے کسی کونے کھدرے میں نظر نہیں آئیں گے کیوں کہ ظالموں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھنا اور مظلوم کو تاریخ نے امر کر دینا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).