لون وولف یا گرگِ باراں دیدہ؟


 زینب کے قتل کو دو ہفتے سے زیادہ گزر گئے۔ ‘مبینہ قاتل پکڑا بھی گیا اور زینب بی بی کے علاوہ بھی سات سے زائد ریپ اور قتل کی وارداتوں کا اقبال بھی کر لیا۔ عوام نے سرِ عام پھانسی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ وزیرِ اعلیٰ نے پولیس والوں کو خوب تگڑا اانعام بھی دے دیا اور ان کے لئے ایک ایسے وقت میں تالیاں بھی بجوا دیں جب کہ سب ابھی اتنے ملول تھے کہ یہ شور سماعت پہ بین کی صورت گراں گزرا۔

یہ کچھ ایسا ہی عمل تھا جیسا کسی عزیز کی ناگہانی موت کا انتظام سنبھالنے والے رشتے دار کے لیے تالیاں بجا دی جائیں۔ یقیناً کوئی بھی اپنے پیاروں کی موت پہ ڈھول کھڑ تالیں نہیں بجاتا۔ اس کے بعد اچانک حاجی امین صاحب کا مائیک بند کر دیا گیا۔ سب کچھ اتنی سرعت سے اور آ نکھوں کے سامنے ہو رہا تھا کہ دماغ خواہ مخواہ ہی کسی سازشی تھیوری کی طرف جا رہا تھا۔اس کے ساتھ ہی معلوم ہوا کہ جن بچیوں کے قتل کا اعتراف عمران علی نے کیا ہے ان میں سے ایک کے ‘مبینہ قاتل‘ مدثر کو مبینہ ’پولیس مقابلے‘ میں مار دیا گیا ہے۔اس خبر نے توہمات کے شعلوں کو مزید ہوا دی۔ عمران علی کا کہنا ہے کہ یہ سب جنات کی کارستانی ہے۔ عمران علی، نعت خواں ہے اور یہ بات ہم سب کے لئے مزید تکلیف کا باعث ہے۔ اس سے پہلے قاری صاحبان کے بارے میں اس قسم کے بیسیوں آن دی ریکارڈ اور آ ف دی ریکارڈ واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

ایسی صورت حال میں جب نقیب اللہ محسود کا واقعہ بھی بالکل تازہ تھا اور پولیس کے محکمے پہ اعتماد بری طرح متزلزل تھا، ریاست کے چوتھے ستون یعنی صحافت کے ایک بڑے نام نے جانے کیوں بغیر تحقیق کے کچھ الزامات لگانے شروع کر دیے۔ اس وقت جو ماحول بنا ہوا تھا، اس میں ان صاحب کے بات بڑے آرام سے قبول کر لی گئی۔ ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ آخر یہ ڈارک ویب کیا بلا ہے اور اس پہ موجود ویڈیوز کا تعلق کس کس شخص سے ہے۔

پڑوسی ملک میں پیش آنے والے ‘رادھا ریپ’ کیس کے بعد یہ بات تسلیم کر لینا بھی کوئی مشکل کام نہ تھا۔ قصور ہی سے 300 بچوں کی مبینہ ‘فحش ویڈیوز‘ کا سکینڈل بھی نکلا تھا۔ اس لیے ان صاحب کی بات پہ یقین کر لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ساتھ کے ساتھ ان کا یہ کہنا کہ ایک اعلیٰ شخصیت کا نام پرچی پہ لکھ کے عدالت کو دے چکا ہوں۔

ذہن چکرایا ہوا ہی تھا کہ خدایا یہ ہو کیا رہا ہے کہ چند ہی گھنٹوں کے اندر وہ صاحب بھی لگے لاتیاں پوتیاں لگانے اوراتے بتے بنانے۔ اسی دوران سٹیٹ بنک کا اعلان سامنے آ گیا کہ عمران علی کا کوئی اکاؤنٹ کہیں موجود نہیں۔ صحافی صاحب بھی عمران علی کی طرح کسی جن کے زیر سایہ عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگے اور اصل معاملہ کہیں پیچھے رہ گیا۔ حسبِ توقع سب ادھر ادھر کی ہانکنے میں مصروف ہو گئے۔

اصل معاملہ اپنی جگہ آ ج بھی موجود ہے۔ جس محکمے نے بلا تحقیق اسی جرم میں پہلے بھی ایک شخص کو مار ڈالا، کیا دوبارہ اسی محکمے کے ‘مبینہ مجرم’ کو جو پہلے بھی شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا تھا، ‘ملزم’ تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ جبکہ اس کے اعترافِ جرم میں جن بچیوں کا نام شامل ہے ان میں سے دو کے کیس ‘مبینہ’ طور پہ حل بھی ہو چکے ہیں۔ جھوٹ کس وقت پہ کون بول رہا تھا؟

پولیس کے مطابق یہ سیریل کلر ہے اور وہ اسے انگریزی اصطلاح کے مطابق ’تنہا بھیڑیا‘ یا ‘لون وولف‘ بیان کر رہے ہیں۔ کچھ صحافی چلا رہے ہیں کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق یہ اجتماعی زیادتی کا کیس ہے۔

عمران علی کا نعت خوانی کے لیے کارڈ

ملزم نعت خوانی کے محفلوں میں نعتیں پڑھتا تھا

سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، اس کا فیصلہ کرنے کے لئے عدالت موجود ہے۔ پولیس نے اپنی بساط کے مطابق اپنا کام کر دیا ہے۔ عدالت اپنا کام کر رہی ہے اور جس طرح جنازوں کے دوران، جیب کترے، ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہیں، بہت سے جیب کتر ے بھی اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔

ہمیں بطور معاشرہ ایک بات کا تو احساس ہوا کہ ہمارے بچے غیر محفوظ ہیں اور یہ ایک مصدقہ امر ہے کہ بچے اکثر جاننے والوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ واقعہ صرف قصور میں پیش نہیں آیا۔ پورے ملک میں اس قسم کے حادثات روزانہ کی بنیادوں پہ ہوتے ہیں۔ مردان کی عاصمہ بی بی کا سانحہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔

اس سے دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ معاشرے میں بے تحاشا جنسی گھٹن ہے، جس کا ایک واضح ثبوت کم سن بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ بچے چونکہ ایسے اشخاص کے لیے آ سان شکار ہوتے ہیں اس لیے وہ ان کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔

بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اس معاشرتی بگاڑ کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔

‘لون وولف’ کے ذکر پہ یو نہی ایک مثال یاد آئی کہ سردی کے موسم میں جب کھانے کو کچھ نہیں رہ جاتا تو سارے بھیڑیے دائرے کی صورت میں بیٹھ جاتے ہیں جس کی نظر چوک جائے دوسرے اس کو پھاڑ کھاتے ہیں۔ ہوتے ہوتے آ خر میں جو بھیڑیا بچتا ہے اسے ‘گرگِ باراں دیدہ’ کہا جاتا ہے۔

ڈر یہ ہے کہ کہیں ان وارداتوں کے پیچھے ‘لون وولف‘ کی جگہ کوئی ‘گرگِ باراں دیدہ‘ ہی نہ نکل آئے، اور آپ کو بخوبی اندازہ ہو چکا ہو گا کہ مثالیں اور علامتیں خلا میں معلق نہیں ہوتیں۔ ان کے پیچھے صدیوں کی حکمت اور دانش پنہاں ہوتی ہے اور اس دانش کو رد کرنے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).