لختن کے مولی صاب کا سانپ


سانپ کے نام سے اسے خوف آتا تھا۔ یہ بات ہے جب کی جب لختن نے اسے بتایا تھا کہ مولوی صاحب نے سانپ پال رکھا ہے۔ اس خبر سے وہ ایک دم حیران رہ گئی۔

مگر تمہیں کس نے بتایا۔ اس نے لختُن سے پوچھا؟

 خود مولی صاحب نے ! اس نے اس کے کان میں منہ لے جا کر کہا۔ دیکھو گی؟

اور اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ہاں۔ !

تو دوپہری میں چپکے سے میرے ساتھ چلنا۔ لختن نے سرگوشی کی۔

کہاں؟ اس نے حیرت سے پوچھا!

ارے وہیں میاں کے احاطے سے ہو کر پکے پوکھرے کی طرف سے چڑی ماروں والے راستے پر کچی مہجد (مسجد) کے ساتھ والی مولی صاحب کی کوٹھری میں۔ مگر اماں بی سے نہ کہنا نہیں تو قیامت آ جائے گی۔

 کاٹے گا تو نہیں۔ ؟اس نے اپنے خدشے کا اظہار کیاتو لختن ہنس پڑی۔ پالتو جنّور کاٹے تھوڑی نا۔

کتنا بڑا ہے؟اس نے پھر سوال کیاتو لختن اینٹھ گئی۔ ابھی میں نے دیکھا تھوڑی ہے۔

لختن اس کی ہم عمر تو نہ تھی مگر اس سے دوستی ہوگئی تھی۔ وہ دس گیارہ برس کی تھی مگر قد کاٹھ میں اس سے انگل بھر ہی نکلتی ہوئی تھی۔ اس کا نام تو تھا لخت النساءمگر لختن ہی پکاری جاتی تھی۔ وہ کوئی بات جھوٹ نہیں کہتی تھی۔ وہ بتاتی تھی کہ تمہاری نانی اماں اس لئے اسارے میں سوتی ہیں کہ اندر دالان کے ایک حصے میں جنات رہتے ہیں۔ مگر ماموں جان کو تو اس نے اندر کے حصے میںساری ساری رات اپنی میز کرسی پر بیٹھے دیکھا تھا۔ مگر لختن کہتی تھی تمہارے ماموں بہت نمازی ہیںاس لئے وہ انہیں پریشان نہیں کرتے۔ اس نے پوچھا تھا کہ جنات ہوتے کیسے ہیں تو لختن ہی نے بتایا تھا کہ اتنے بڑے کہ جب وہ چھت پر بیٹھے ہوں تو ٹانگیں زمین تک آتی ہیں۔ اور خوداس نے دوتین بار پچھواڑے کی چھت پر ایک جنات کو پاﺅں لٹکائے بیٹھے دیکھا ہے۔

ایک بار نائن اس کی امی کو بتارہی تھی کہ بٹیاوہ زمانہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جب حکیم صاحب کا عروج تھا۔ گھر کا یہ حصہ جو اب ڈھے گیاہے اور خالی زینہ بچا ہے یہ اوپر کی منزل بڑی ہی شاندار تھی۔ حکیم جی نے پکا بنوایا تھا۔ حالانکہ دو ایک بزرگوں نے دبی زبان سے کہا بھی کہ بیٹاہمارے خاندان میں پکا گھر چھجتا نہیں ہے۔ بڑی دولت کمائی اور مافی کی جاگیریں ملیں۔ مگر گھر کچا ہی رکھا۔ سید تھے اور طبیعت کے فقیر۔ کہہ گئے تھے کہ ہماری پیڑھی میں پکا گھر راس نہیں آتا۔ مگر بہنی تمہارے پھوپھا ابا مانے جانے حکیم ،نئے زمانے کی ہوا لگی تھی دہلی سے حکمت سیکھ کے آئے تھے۔ ان باتوں پر یقین نہ رکھتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملکہ وکٹوریہ کا سکہ چلتا تھا۔ اور اس پورے محلے میں یہ واحد پکا مکان تھا جو انہوں نے بنواڈالا۔ اور پکا بنوانا غضب ہوگیا۔ اثر تھا اس زمین پر۔ کہتے ہیں حکیم جی کے ہاتھ میں خدا نے وہ شفا رکھی تھی کہ ایک سے ایک بانجھ عورت ان کی ایک پڑیا سے صاحب اولاد ہوگئی۔ بلکہ اس بستی سے بانجھ پن ایسا دور ہوا کہ بقول شخصے اس علاقے کی عورت کو شوہر گھور کر بھی دیکھ لیتا تو حمل ٹہر جاتا تھا۔ مگر نہ ہوئی اولاد تو حکیم صاحب کے۔ حکیمن پھوپھی بیچاری بانجھ ہی رہیں۔ اوربن ماں کے بھتیجا بھتیجی کو چھاتی پیٹ لگاکے پالا پوسا۔ مگر بچوں کو وصیت کرگئی تھیں کہ اس حصے کو” ان” کی آمد و رفت کے لئے رہنے دینا اور ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنا ورنہ نربنس کردیتے ہیں۔

اسے خیال آیا کہ کچھ دن پہلے اس لمبے چوڑے کمرے کے اس کونے سے یہ موٹا سانپ نکلا تھا جب اماں اناج کی کوٹھی کا منہ کھول کر گیہوں تلوانے جارہی تھیں۔ یہ لمبا سانپ اور سِروار نے چیخ کے کہا تھا ارے لاٹھی لاﺅ تب اماں آڑے آگئیں تھیں۔ نا بھیا “انہیں “نہ چھونا۔ تب تک وہ موٹا کالا سانپ سر سراتا ہوادوسری طرف جاکے حکیم صاحب والے حصے میں جو اب ڈھے بِلا گیا تھاغائب ہوگیا۔ اور کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ گیا کہاں کیونکہ جدھر وہ گیا تھا کوئی بل نہ تھا اور پھر اتنے بڑے سانپ کے لئے بل بھی تو اتنا ہی بڑا ہونا چاہئے تھا۔ بس اس دن اماںنے کوئی دعا پڑھ کر حصار کھینچا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ” وہ” اپنے علاقے میں رہیں ہیں اور ہم اپنے میں نہ ہم انہیں چھیڑیں نہ وہ ہمیں چھیڑیں۔

اس کمرے کے داہنے حصے میں بڑے بڑے گھڑوں میں اناج بھرا ہوا تھا۔ اور ایک مٹی کی کوٹھی چھت تک اونچی جس میں سال بھر کا گیہوں بھر کر اسے منہ بند کرکے بھوسے اورمٹی سے لیپ کے سیل کردیا جاتا تھا۔ اور ادھر صرف اماں اناج نکالنے جاتی تھیں۔ کسی اور کے جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ یا گرمیوں کی دوپہر میں اماں اسے وہاں لے کر لیٹتی تھیں کہ باہر واہی تواہی پھرنا شریفوں کا شیوہ نہیں۔

اسے ویسے تو جنات سے ڈر لگتا تھا مگر اس کا دل چاہتا تھا کہ جب وہ اس کے گھر ہی میں رہتے ہیں تو ایک بار تو انہیں دیکھ ہی لے۔ پیچھے والادالان بہت بڑا اور لمبائی میں یہاں سے وہاں تک تھا۔ اس کی چھت میں موٹی موٹی کالی بَلِیّاں تھیں جن پر چھت رکی ہوئی تھی۔ کہتے تھے اصلی ساکھو کی بلیاں تھیں اورساکھو(ٹیک )کے بارے میں نانا صاحب کہتے تھے کہ سو سال کھڑا، سوسال پڑا اور سو سال گڑا۔ تو وہ گرمیوں میں دوپہر کو دالان کے پیچھے والے کمرے میں اماں کے پہلو میں لیٹ کر دیر تک ان بَلّیُوں کو دیکھتی رہتی تھی۔ اور ان کے خانوں کو گنتی رہتی تھی۔ ان میں کوئی بھی پراسراریت نہیں تھی۔ اس نے کبھی بھی کوئی جنات نہیں دیکھا۔ املی کے پیڑ پر ضرور چڑیل دیکھی تھی۔ اور سب بچوں نے دیکھی تھی اور سب ہی ڈر کر بھاگے تھے کاہے سے کہ وہ بالکل ننگ دھڑنگ منمنا رہی تھی۔

ویسے اماں تو بہت ہی نڈر قسم کی خاتون تھیں انہیں کسی سے بھی ڈر نہیں لگتا تھا۔ چاندنی رات میں اس کی انگلی پکڑ کے راجہ کے اونچوا پر جو ویران مسجد تھی خیر وہ مسجد کیا تھی مسجد کے نا م ایک چبوترا اور چبوترے کے سامنے دیوار میں بڑی سی کائی لگی محراب کے نشان ہی باقی رہ گئے تھے اور یہ بڑی بڑی گھاس اگی ہوئی تھی اماں وہاں بھی چراغ جلانے جاتی تھیں اور طاق میںچنبیلی کے پھول اور ایک دَ ©ونا رکھ آتی تھیں۔ اسے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ یہاں جہاں یہ بڑی بڑی گھاس اگی ہے اور کوئی آنے جانے والا نہیں وہ کس کے لئے ملیدے رکھ کر آتی ہیں۔ مگر اماں کہتی تھیں ہمارے رزق میں ان کا بھی حصہ ہے۔ وہ کم ہی کسی ایسی شئے کانام لیتی تھیں جس کا نام لیتے ہی وہ شئے آن کھڑی ہو۔

 اماں کھانے پر ہڈی چبانے سے منع کرتی تھیں۔ نلی ضرور اس کے ہی لئے ہوتی تھی جس کا گودا وہ سڑپ کرکے کھینچ لیتی تھی یا اماں جھاڑ کر اسے دیتی تھیں۔ اگر اجازت تھی توصرف چبنی ہڈی چبانے کی ، باقی ہڈی تو ایک طرف ڈال دی جاتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ ہڈی قوم جنات کا حصہ ہے۔ نہ جانے کیوں ہر چیز میں اماں کسی نہ کسی کا حصہ لگا دیتی تھیں۔

 اسے یاد ہے کہ رات کے سناٹے میں جب سب سو جاتے تو نانا کے گھر کے پچھواڑے ضامن ماموں کا گھر تھا اسی کے احاطے میں دیوار کے ساتھ ایک یہ لمبی قبر تھی مانو دو آدمیوں کے برابر۔ اس قبر پر ہمیشہ گیندے کے پھول پڑے رہتے تھے مگر اس نے کبھی کسی کو وہاں اماں کے علاوہ نہیں دیکھا۔ سفید چاندنی رات میں سر سے پاﺅں تک لمبی سفید چادر اوڑھ کروہ اس کی انگلی پکڑے پکڑے شہید مرد کی قبر پر جاتی تھیںموتیا کے چار پھول اور بتاشے دونے میں رکھ کر شمع روشن کرتیںاور فاتحہ پڑھ کر آجاتی تھیں۔

اس بستی میںکئی شہید مرد تھے۔ اور کہا جاتا ہے کہ جن کی یہ قبریں ہیں ان کی نیک ارواح اس علاقے کی حفاظت پر مامور ہیں۔ اور ان کی بدولت ہندو مسلمان سب ایسی یگانگت سے رہتے آئے کہ جہاں ایک کا پسینہ بہادوسرا اپنا خون بہانے کو تیار۔ دنیا کہتی ہے بٹوارے کے بعد یہ ہوا وہ ہوا۔ مگر اس بستی میں سب گلے میں گلا ڈال کر رہے۔ کسی نے کسی کی طرف ٹیڑھی نظر سے نہ دیکھا۔ سچ پوچھو تو بٹوارے کی خبر ہی جیسے ادھر نہیں آئی۔ دیوالی، دسہرا ،ہولی ،عید ،بقرعید، محرم سب تیج تہوارمل جل کر مناتے۔ اتر اور دکھن محلے تو میر صاحبوں کے تھے مگر ان محلوں کے بیچ میں قصائن محلہ اور چکوا منڈی اور کبڑیوں کا محلہ اور تیلیوں کا محلہ اور مندر بھی پڑتا تھا۔ اور ان سب کی جان بڑکی مسجد تھی جس کا مینار اتنا اونچاتھا کہ دیکھنے والوں کی ٹوپی گرجاتی تھی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ قطب مینار کے بعد سب سے بڑا مینا ریہی ہے۔ جو یہ بات کہتے تھے ان میں سے کسی نے نہ تو اس بستی سے باہر کبھی قدم رکھا تھا اور نا ہی قطب مینار دیکھا تھامگریہ روایت ان سے منشی جی نے بیان کی تھی اور منشی جی حکیم جی کے ساتھ ہی دلّی گئے تھے۔ وہ خود دیکھ چکے تھے اس لئے اس بات میں شک شبہے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔

اسے پھر سانپ کا خیال آیا۔ ایک بار اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ ابو جان کے گھر کی چھت پر ایک موٹا سانپ لٹک رہا ہے اور جو آتا ہے اسے کھا جاتا ہے اور جب اس نے صبح ہی صبح اماںکو خواب بتایا تو اماں نے کہا سانپ دیکھنا اچھا ہوتا ہے۔ دولت آتی ہے۔ اب تمہیں بہت سے پیسے ملیں گے۔ اس نے سوچا کہ ان پیسوں کا وہ کیا کرے گی۔ تب اسے خیال آیا کہ دلدار کے ہوٹل میں رکھی ہوئی لم چوس اور انگریزی مٹھائی جو سنگترے کی پھانکوں جیسی ہوتی ہے اس کی پوری برنی خریدلے گی۔ انرجی بسکٹ بھی اسے بہت پسند تھا مگر وہ جب بیمار ہوتی اور ساگودانہ کھانے سے انکا ر کردیتی یا قے کردیتی تو انرجی بسکٹ سے اس کی تواضع کی جاتی۔ اسے حسرت رہی کہ کبھی صحت کے عالم میں بھی اسے کوئی دن رات صرف انرجی بسکٹ ہی کھلائے۔ بیماری میں جب اسے کچھ اچھا نہ لگتا تھا تو زبردستی اور لاڈ پیار کے ساتھ اسے انرجی بسکٹ کھلائے جاتے تھے۔

دوسرے دن وہ لختن کا انتظار کرتی رہی کہ وہ آئے تووہ دونوں مل کرمیاں کے احاطے سے ہوکر پکے پوکھرے کی طرف سے چڑی ماروں والے راستے پر کچی مہجد(مسجد) کی طرف سے مولی صاحب کی کوٹھری میں ان کے پالتو سانپ کو دیکھنے جائیں۔ مگر لختن اس روز نہیں آئی۔ اسے بڑی بے چینی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ کسی کو یہ بات بتائے مگر لختن اسے پھر سانپ دکھانے نہ لے جاتی۔ اور اسے ایک کہانی یاد آئی پتہ نہیں کس نے سنائی تھی کہ سانپ جب سو سال کا ہوجاتا ہے تو جو روپ چاہے دھار سکتا ہے۔ تو ایک بار ایک ناگ نے آدمی کا روپ دھار لیا۔ اور بن بیٹھا سادھو اللہ والی۔ اب لوگ آئیں اور اس کے پاﺅں چوم چوم کے جائیں اور وہ ٹہرا اژدہا تو اس تاک میں کہ کسے چٹ کرے۔ اور اس نے نائن کو اماں سے یہ کہتے سنا تھا کہ مرد ذات ہوتی ہے سانپ بٹیا سانپ!موقع ملتے ہی ڈس لے۔

وہ سارا وقت اسی ادھیڑ بن میں رہی کہ لختن کیوں نہیں آئی۔ اور کہیں جو مولی صاحب وہی والا ناگ ہوں اور آدمی کے روپ میںلختن کو دکھائی پڑے ہوں اور وہ جائے تو وہ اسے بھچھ کھائیں۔ یہ سوچ کر اس کا دل بہت ڈرا۔ اور اس نے ارادہ کیا کہ مولی صاحب کے یہاں جانے سے اسے روکے گی۔ مگر مولی صاحب اگر خود ناگ ہوتے تو کچی مسجد کے دروازے پر لختن اپنے سوکھے کے مریض بھائی چھٹکے کو پھونک چھڑوانے کیوں جایا کرتی۔ اسے خیال آیا کہ سپیرا بھی تو سانپ لے کر آتا ہے آخر وہ اس سانپ کو اپنے گھر میں ہی تو رکھتا ہوگا نا۔ پھر اسے سپیرے والے سانپ کا خیال آیا۔

رات کو اماں کہانی سنانے لیٹیں تو اس نے ان سے فرمائش کی کہ سانپ کی کہانی سنائیں۔

اماں نے کہا نہیں بچہ سانپ کی کہانی نہیں سنتے۔ کاہے سے کہ سانپ وہ شئے ہے کہ جب تم اس کا نام لیتے ہو تو وہ تم سے صرف چالیس قدم دور ہوتا ہے۔ اور چالیس قدم کسے کہتے ہیں اس نے اماں سے پوچھا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا یہی کوئی دس پانچ ہاتھ تو سانپ کا نام نہیں لیا کرتے بیٹا۔

 اور جو کوئی سانپ پال لے تو؟ اس نے اماں سے راز داری سے پوچھا۔

 تو وہ سپیرا کہلائے گا سپیرا۔

مگر مولی صاحب تو سپیرے نہیں ہیںاس نے اماں سے کہا۔

تو مولوی صاحب کے پاس سانپ تھوڑی ہوتے ہیںتسبیح ہوتی ہے۔ اماں نے وضاحت کی۔

 اس کا جی چاہا کہ وہ اماں کو بتا دے کہ لختن کے مولی صاحب نے سانپ پالے ہوئے ہیں۔ مگر اسے خیال آگیا کہ لختن نے منع کیا تھاسو وہ چپ ہورہی۔ اور اماں نے اسے بتا یاکہ ایک بار کسی نے ناگ اور ناگن کا ایک جوڑا دیکھا ترنت لاٹھی اٹھا اس کا سر کچل دیا مگر ناگن بچ نکلی پھر کیا تھا بھیا ہوا یہ کہ اس کی آنکھوںمیں مارنے والے کی تصویر اتر آئی اور وہ لگی اس کا پیچھا کرنے اب اس آدمی کو نہ دن چین نہ رات۔ پلنگ پر لیٹا ہے تو نیچے کوئی شئے سرسرا رہی ہے اٹھ کے دیکھا تو یہ کالی ناگن اور وہ آدمی بھی جانتا تھا کہ اس سے چوک ہوگئی ہے تو لاٹھی ساتھ رکھ کر سوتا تھا۔ اور سانپ نے حضرت سلیمان کے آگے قسم کھائی تھی کہ پلنگ پر نہیں چڑھے گا تو بھیا اب وہ آدمی پلنگ پر اور ناگن پلنگ کے نیچے۔ آخر کب تک بچتا۔ ایک دن رات کو پلنگ سے اترا کہ رفع حاجت کو جائے تو وہیں کھڈیوں کے آس پاس ناگن منڈلاتی تھی۔ اب جو وہ اسے نظر آیا تو ناگن کی آنکھوں میں تو تصویر اتری ہوئی تھی اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ اس آدمی کو بھچھ کھایا۔ تو بات یہ ہے کہ اگر جانور کو بلاوجہ نہ چھیڑو یا گزند نہ پہنچاﺅ تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاتا۔

اماں یہ بھی بتاتی تھیں کہ سانپ جب کینچلی بدلتا ہے تو رات کو وہیں من اگلتا ہے۔ سانپ کا من ایک بہت بڑا ہیرا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ایک آدمی اس تاک میں لگ گیا کہ جیسے ہی سانپ من اگلے تیسے ہی وہ اس کا من چرالے۔ حالانکہ یہ کام ہوتا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ فوراً ہی سانپ من واپس نگل جاتا ہے۔ بس جب وہ اگلتا ہے تو اندھیری سے اندھیری رات میں بھی ایسی چکاچوند ہوتی ہے کہ کسی نے سو ہنڈے جلا دئیے ہوں تو بس ہوا یہ کہ وہ آدمی من چرانے کی غرض سے چھپ کر بیٹھا رہا۔ اور سانپ جب کینچلی بدل چکا اور اس نے من اگلا تو فوراً اس آدمی نے من پر کپڑا ڈال دیا۔ اب سانپ تو اندھا ہوگیا۔ اور اس نے لاکھ کوشش کی کہ واپس اپنا من نگل لے مگر اس پر تو کمبل پڑا تھا بس سانپ نے وہیں سر پٹخ پٹخ کے جان دے دی اور وہ آدمی مالا مال ہوگیا۔

مگر سانپ بے چارہ مر کیوں گیا۔ اس نے پریشان ہوکر پوچھا۔ ؟

ارے سانپ کم بخت بے چارہ تھوڑی ہوتا ہے۔ جو سچ پوچھو تو حضرت آدم کو جنت سے اسی بد ذات نے نکلوایا۔ اماں نے ٹھنڈا سانس لے کر کہا۔

جنت سے نکلوایا۔ ؟ حیرت کے مارے وہ اچھل پڑی۔ مگر کیوں ؟

ارے بیٹا یہ موذی اماں حوا کے پاس پہنچا اور لگا انہیں پلجھانے کہ یہ جو گندم کا پیڑ ہے اس میں سے کھالو اور وہ تو تھا شجر ممنوعہ، عورت ذات  تم جانوں عقل کی کمزور تو ہوتی ہی ہے۔ بس اماں حوا بہکائے میں آگئیں اور لگیں ضد کرنے باوا آدم سے کہ یہ پھل کھالو اور وہ بھولے بھالے  گندم کھابیٹھے۔ بس گندم کا کھانا تھا کہ مصیبت کے دن شروع۔

مگر وہ بھولے بھالے کیوں تھے۔ اس نے حیرت سے پوچھا۔

اس لئے کہ عورت کے بہکائے میں آگئے۔ اماں نے اداسی سے کہا۔

مصیبت کا دن کیا ہوتا ہے؟ اس نے تشویش سے پوچھا

مطلب یہ کہ سزا ملی!اماں نے وضاحت کی۔

تو سزا کس کو ملی۔ اس نے پھر سوال کیا؟

سزا تو بیٹا دونوں کو ملی۔ اماں نے اسے تھپکتے ہوئے کہا۔

مگر دونوں کو کیوں ؟غلطی تو ایک سے ہوئی تھی۔

ہاں بیٹا دنیا کا دستور یہی ہے۔ غلطی ایک کرے مگر بھگتیں دونوں۔

اسے بڑی حیرت ہوئی کہ سانپ نے اماں حوا کو جنت سے نکلوادیا۔

مگر سانپ جنت میں پہنچا کیسے۔ ؟ اس نے پھر حیرت سے پوچھا۔

ارے وہ تو شیطان تھا سانپ کے روپ میں اپنے کو ڈھالا اور کسی بل سے اندر گھس گیا۔

 جب وہ بل سے گھس رہا تھا تو اللہ میاں کو پتہ کیوں نہیں چلا۔ ؟

اللہ میاں کو سب پتہ تھا مگر آزمائش منظور تھی۔ اماں نے وضاحت کی۔

تووہاں آدم اور حوا جنت میں کیا کرتے تھے۔ ؟ اس نے اماں پر سوالوں کی بوچھاڑ کردی تھی۔

ارے کرتے کیا بس گھومتے پھرتے جنت کے پھل پھلیری کھاتے اور مزے میں خوش رہتے تھے۔ پھراماں نے گہرا سانس لیا۔

تو مصیبت کیسے آئی؟۔ وہ تشویش میں مبتلا تھی۔

ارے مصیبت ایسے آئی کہ ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ اب جو اپنے آپ کو دیکھا تو شرمائے کہ وہ تو ننگے ہیں۔

تو جنت میں ان کی آنکھیں بند تھیں کیا؟اس نے آنکھیں پھاڑ کر اماں سے سوال کیا۔

ہاں بھئی جنت میں ان کی آنکھیں بند تھیں۔ اماں نے رسان سے کہا۔

تو پھر جنت میں مزہ کیسا جب آنکھیں ہی بند تھیں۔ ؟ اس کی تشویش بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ پھر تو اچھا کیا نا سانپ نے ان کی آنکھیں کھلوادیں۔ اس نے خوش ہوکر کہا۔ !

مگر آنکھ والوں ہی کو تو سارے دکھ جھیلنے پڑتے ہیں۔ اماں نے اداس ہوکر کروٹ لے لی۔

تو کیا جنت میں کسی کے پاس آنکھ نہیں ہوگی۔ اس نے پریشان ہوکر کہا۔

اماں نے جو بھی جواب دیا اس سے اس کی تسلی نہیں ہوئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اماں حوا نے ایسی کیا بری بات کی جو سزا ملی اور انہیں ابتک برا بھلا کیوں کہا جاتا ہے۔ گندم تو اس کے گھر میں بھی اناج کی کوٹھی میں بھرا ہوا تھا۔ کوٹھی میں بھرنے سے پہلے جب فصل گھر میں آتی تھی تو نائن دھوبن سب اپنا اپنا حصہ لینے آتی تھیں خوشی خوشی۔ اور مٹی کی اونچی سی کوٹھی میں بند کرنے سے پہلے اماں آنگن میں دری بچھواکر گیہوں پھیلوا دیتی تھیں۔ اسے دھوپ میں پھیلے ہوئے گندم کے دانے ایکدم ریشمی اور سنہرے سنہرے بہت بھلے لگتے تھے۔ اور اماں تول کر پسوانے کو بھیجتی تھیں پھر چکی میں پس کر آتا تھا تو آنگن میں پلنگ پر چادربچھاکر ترنت پھیلا دیا جاتا تھا۔ تاکہ چکی کی گرمی نکل جائے ورنہ ویسے ہی برتن میں رکھ دیا جاتا توکہتے تھے آٹا بَر جاتا۔ بَرے ہوئے آٹے میں ست باقی نہیں رہتا۔ اورروٹی پکاﺅ تو پھٹ پھٹ جاتی ہے۔ گندم کا لیس ختم ہو جاتا ہے۔

اس نے سوچا جو گندم اتنی ہی بری چیز ہوتی اور اسے کھانا گناہ ہوتاتو اماں اتنے جتن سے کیوں چھان پھٹک کر پسواتیں۔ اور مزے مزے کی روٹی بناتیںاور اس پر مکھن چپڑ کے اسے کھلاتیں۔ اور روغنی روٹی کا ملیدہ بناکرنذر دلاتیں۔ اور دس بیبیوں کی کہانی میں بھی تواس نیک بخت نے اسی روغنی روٹی کے دس لڈوبناکر دس بیبیوں کی نیاز دلائی تھی اور اس کی خطا معاف ہوگئی تھی۔ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا۔ کبھی یہی گندم کھا نے پر سزا ملتی ہے اور کبھی اسی گندم کے کھانے پرخطا معاف ہوجاتی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی۔ !

وہ صبح سوکر اٹھی تو اسے پہلا خیال اماں حّوا والے سانپ کا آیا۔ پھر لختن یاد آئی۔ وہ دوپہر تک لختن کا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہیں آئی۔ اسے بے چینی سی ہونے لگی۔ لختن کا مکان اماں کے گھر سے دور تھا۔ اس نے وہاں جانے کا ارادہ کیا۔ مگر پھر ڈر لگا۔ اول تو اسے راستہ بھی پتہ نہیں تھا پھر اماں سے پوچھے بغیر وہ کہیں نہیں جا سکتی تھی۔

ایک بار اس نے دل کڑا کرکے میاں کے احاطے سے ہوکر پکے پوکھرے کی طرف سے چڑی ماروں والے راستے پر کچی مہجد(مسجد) کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ مگرپھر اسے خیال آیا کہ اس نے تو مولی (مولوی)صاحب کو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا صرف لختن سے ان کا نام سنا تھا۔ پھر وہ انہیں پہچانے گی کیسے اور جو کسی سے پوچھ پاچھ کر چلی بھی جائے تو وہ اسے سانپ دکھائیں گے کیوں۔ اسی ادھڑ بن میں وہ دن بھی گزر گیا۔ اور لختن نہیں آئی۔

اس نے ایک بار خواب میں دیکھا کہ مولی صاحب بستر پر لمبے لمبے لیٹے ہیں اور چادر سر سے پیر تک تانے ہیں جیسا کہ لختن بتاتی تھی کہ چادر کے اندر سانپ ان کے ساتھ سوتا ہے۔ اس وقت بھی سانپ ان کے ساتھ سو رہا ہے اور لختن جھانک جھانک کر ہنس رہی ہے۔ اور تب ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے اب ڈر لگنے لگا تھا اور لختن پر غصہ بھی آتا تھا کہ اتنے دن ہوگئے اور آئی بھی نہیں۔ پھر کئی دن گزرگئے اور لختن نہیں آئی۔ وہ نائن کے ساتھ ہی آتی تھی اس کا باپ بھی پیشے سے نائی تھا۔ بیوی مر گئی تھی۔ خاندانی ہنر سکھانے کو نائن کے ساتھ لگا دیا تھا۔ نائن نے اسے ایک چھوٹی سی نہّنی پکڑادی تھی مگر کام میں اس کا جی نہ لگتا تھا۔ یوں جمعے کے جمعے وہ نائن کے ساتھ آجایا کرتی تھی۔ اور نہّنی سے ناخن کاٹنے کے بجائے کھیلا کرتی تھی۔

لختن سے پہلے اسے نائن بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ آتے ہی ہانک لگاتی تھی کہ جلدی سر میں تیل ڈلواﺅ۔ وہ پان کھاتے ہوئے بڑے زور زور سے بولتی تھی ،ہمار بٹیا کی چٹیا اتنی لانبی ہوجائے گی۔ وہ اس کا سر کھلی سے دھلاتی تھی۔ اور جاڑے کے دنوں میں جب سرسوں تازہ تازہ ہوتی تو کھلی میں بہت تیزی ہوتی تھی۔ اور اس کی آنکھوں میں بہت لگتی تھی۔ اماں لائف بوائے صابن سے اس کا سر دھلاتی تھیں ،مگر نائن کبھی کبھار ہی سہی لیکن کھلی سے ہی سر دھلاتی تھی۔ پھر بال سلجھانے میں اور بھی درد ہوتا تھا۔ لیکن وہی نائن ،پہلے جس کا آنااسے اچھا نہیں لگتا تھا اب جب سے لختن اس کے ساتھ آنے لگی تھی وہ اس کا انتظار کرتی تھی۔

گئے جمعہ نائن نہیں آئی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نائن ناغہ کرے آندھی آئے طوفان آئے مگر نائن میر صاحبو کے گھر سر مینجھنے، تیل ملنے اور ناخن کاٹنے وقت پر پہنچتی تھی۔ اسی نے بتایا تھا کہ “بہنی تہار اماں کے بال اتّت اتّت لمبے تھے کہ بیٹھ کے دھونا مصیبت تھا۔ بس وے پلنگ پر لیٹ جاتیں اور ہم بیسن اورکھّلی لگائے کے نیچے بالٹیوں پانی سے دھووت رہن اور اتنے گھنے بال کہ کنگھی نہ دھنستی، سوائے تھکری کے کسی چیزسے بال نہ سلجھتے ،اور جب بڑکے بھیا پیدا بھئے تو بہنی کو پاکی ناپاکی کا وہم ہوگیا۔ اب بالٹیوں پانی سے غسل کرتیں اور یہ ہمرا جگرا تھا کہ لوٹے پر لوٹا دیت جاتے، جب تک وے نا نہ کرتیں۔ تّبھے تو آج تک اس گھر ما ہماری ججمانی ہے۔ ہمرے لگائے رشتے کا میرو میاں آنکھ بند کرکے بھروسہ کرت رہے۔ اور گھر گھر نیوتا ہم ہی دے جات رہن۔ بس پاﺅ بھر ہلدی چھوٹی چھوٹی گانٹھ کرکے تھال ما،لال ٹول کے خان پوش سے ڈھک کے سب خاندان برادری ما بانٹنے نکلت رہن۔ اور جو نہ آوے وہ ہلدی کی گانٹھ لوٹائے دےتا۔ اور جو گانٹھ رکھ لیتا او سمجھو کہ نیوتا قَبول کیا۔ “

نائن ایک جمعہ ناغے کے بعد آئی تو اماں نے دروازے ہی سے اس کے لتّے لئے مگر اندر آتے آتے جو اس کی صورت دیکھی تو ہکا بکا رہ گئیں۔ نائن نے کھسر پھسر ان سے کیا کہا وہ سن نہ سکی مگر جب نائن اماں سے دیر تک کانا پھوسی کرتی رہی تو اس سے رہا نہ گیا۔ اس نے نائن سے ایک ہی سوال کیا کہ لختن کب آئے گی؟

 اور نائن نے اس کے گال تھپک کر پیار سے جواب دیا۔ بٹیا تمہار لختن اب نا آئے گی، کاہے سے کی وے پردے بیٹھ گئی ہے۔

اوراس سے پہلے کہ وہ کوئی اورسوال کرتی، نائن نے اپنی کرتی کی بغلی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اماں سے مخاطب ہوکر کہا ،دیکھو بہنی اصلی سینگ کی کنگھی لائے ہیں ہم اپنی منی بٹیا کے لئے۔ اور کنگھی کا نام سنتے ہی وہ ایک دم اچھلی اور اس سے پہلے کہ نائن اس کے قریب آتی اس نے تخت پررکھے اماں کے پاندان کے اوپر سے پلنگ پر چھلانگ لگاتے ہوئے اعلان کیا۔ مجھے کھلی سے بال نہیں دھلوانے۔ چٹیا نہیں بندھوانی۔ بھاگو یہاں سے۔ ۔ جاﺅ اپنی لختن کے پاس۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).