اربوں کا مالک غریب آدمی اور خبر کی سنسنی خیز دنیا


اسلام دین حق ہے۔ اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ہمارے ہاں ایک عمومی سوچ پائی جاتی ہے کہ اسلام بس عبادات کا نام ہے اور بس۔ جبکہ حقیقت میں عبادات تو اس کا ایک جزو ہے۔ جبکہ جو اصل چیز اسلام کوسب ادیان پہ ممتاز کرتی ہے وہ اس کی معاشرت ہے اس کی اخلاقیات ہے۔ سید الانبیاء صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں اپنی سنت کے ذریعے بتایا کہ آپ کیسے ایک اچھے باپ، اچھے شوہر، اچھے دوست، اچھے تاجر، اچھے ہمسائے، اچھے ملازم، اچھے حکمران، اچھے سپہ سالار، اچھے استاد وغیرہ وغیرہ بن سکتے ہیں۔ غرض یہ وہ دین ہے جس کی بنیاد اچھائی پہ رکھی گئی ہے۔ اس کے اردگرد کی تمام علامات مثبت اور اچھائی پہ مبنی ہے۔ جیسا کہ اسلام یعنی سلامتی والا، محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم مطلب جس کی سب سے زیادہ تعریف کی جائے، آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا امن سے نکلا، عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ مطلب اللہ کا بندہ، حلیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مطلب حلم سے نکلا ہے وغیرہ۔

اسی طرح ارشاد باری تعالٰی ہے کہ تم بہترین امت ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد مثبت ہے اور اسی لیے یہ ہر چیز کا مثبت پہلو دیکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام مایوسی کی تعلیم نہیں دیتا۔ وہ روشنی کا راستہ دیکھاتا ہے۔ اسی لیے مذکورہ بالا آیت میں نیکی کے حکم کی بات یعنی مثبت بات پہلے کی گئی۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے قرآن میں جہاں بھی جنت اور جہنم کا ذکر کیا پہلے جنت کی بات کی۔ کیونکہ دین کی اصل ہے ہی وہ رجائیت جس کو انگریزی میں optimism کہا جاتا ہے۔ اسلام قنوطیت یعنی pessimism کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

ذیل میں اسلامی تاریخ کے چند واقعات ہیں جو ہمیں یہ ترغیب دیتے ہیں کہ اپنی معاشرت میں ہمیشہ مثبت رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دور سے آگ کا الاؤ دیکھا تو قریب جا کے فرمایا ”اے روشنی والو“ یہ نہیں کہا ”اے آگ والو“ کیونکہ وہ منفی فقرہ ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو غلط وضو کرتے دیکھا تو حضرات حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کوئی ایک بھائی بھی ساتھ وضو کررہے تھے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حسن یا حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ٹوکا کے فرمایا ”تم غلط وضو کررہے ہو دوبارہ وضو کرو“ وہ شخص بھی ان کو وضو کرتے دیکھنے لگا تو اسے اندازہ ہوا کہ حقیقت میں تو اس کا اپنا وضو غلط تھا۔ یہ تھا ہمارے آقا صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلیم دینے اور غلطی کی تصحیح کرنے کا مثبت طریقہ۔ اسی طرح کسی نے حضرت امام غزالی رحمت اللہ علیہ سے پوچھا کہ جو نماز ترک کردے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ تو فرمایا اس کو اپنے ساتھ نماز کے لیے مسجد لے کر جاؤ۔ یہ اور اس جیسی بے تحاشا مثالیں ہیں جو ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ برائی کو اچھائی سے ہی ختم کیا جاتا ہے۔ اور زندگی میں ایک اچھا انسان وہی ہے جو برے سے برے حالات میں بھی مثبت سوچ اور رویہ رکھتا ہو

لیکن بدقسمتی سے ہم نے وہ تمام تعلیمات اور سنتیں پس پشت ڈال دی ہیں۔ جس کی ایک مثال پچھلے دنوں مملکت خداد پاکستان میں ہمارے سامنے ہے۔ قصور میں ننھی بچی زینب کے واقعہ نے پوری قوم کو ہلا کے رکھ دیا۔ اس واقعے میں ملوث شخص کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پہ زرد صحافت کے وہ وہ باب رقم کیے گیے ہیں کہ الامان الامان۔ ایک ٹی وی اینکر نے تو زرد صحافت کی ایک ایسی مثال قائم کی کہ پورے پاکستان کا ریاست کے اس چوتھے ستون سے اعتبار اٹھتا نظر آرہا ہے۔ غیر ذمہ داری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ لیکن موصوف تمام حدود کو پھلانگتے چلے گئے۔ یعنی ایک عام آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ جس بندے کے 37 بنک اکاؤنٹ کیا 3 بنک اکاؤنٹ بھی ہوں اور ان میں اربوں روپے کیا صرف 1 لاکھ بھی ہو تو اکاؤنٹ ہولڈر کی مالی حالت اتنی دگرگوں نہ ہوتی۔ اور اگر کوئی گینگ ہوتا تو مجرم عمران علی اب تک زندہ نہ ہوتا۔ پھر بنک اکاؤنٹ کی تصدیق کے لیے کونسا راکٹ سائنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ بنکنگ سسٹم میں شناختی کارڈ نمبر ڈال کے کمپیوٹر کے بٹن کے ایک کلک سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا تھا۔ لیکن حضرت کے پاس ایسی کونسی مصدقہ اطلاعات تھیں جن کے زعم میں اس نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا کے ایک ہیجان برپا کردیا۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان مسلم ملک ہے۔ اسلام ہمارا قومی مذہب ہے۔ دین ہمیں مثبت رویے اور سوچ کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن اس واقعے کو دیکھا جائے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا۔ کہ اتنے نازک واقعے کے حوالے سے کسی بھی خبر کی پوری ذمہ داری سے چھان بین کی جاتی۔ اس کے ایسے شواہد اکٹھے کیے جاتے جو ناقابل تردید ہوتے۔ پھر متعلقہ اداروں کو تمام شواہد دیے جاتے تاکہ وہ تفتیش کرتے اور اگر وہ اپنا فرض ادا نہ کرتے تو ٹی وی شو کرنے کے بجائے خاموشی سے عدالت کو یہ دیے دیے جاتے۔ آگے اگر عدالت سمجھتی کہ اس کو میڈیا پہ نشر ہونا چاہیے تو نشر کردیا جاتا ورنہ وہ کیس کا حصہ بن جاتے۔ کیونکہ اس کا مقصد انصاف کا حصول ہے ناکہ ذاتی شہرت حاصل کرنا اور اپنے مخالفین کے خلاف کوئی ذاتی مقاصد حاصل کرنا ہے۔ اس لیے بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اچھائی کو پھیلائیں اور برائی کو دبائیں۔ کیونکہ برائی کی تشہیر جتنی کم ہوگی وہ اتنا ہی کمزور ہوگی۔ اور معاشرے پہ اپنے برے اثرات مرتب کرنے میں ناکام ہوگی۔ اور ایک اچھے مسلمان اور انسان کی یہی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے لیے آسانیوں کا باعث بنتا ہے۔ اور مشکلات کو دور کرتا ہے

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya