ماسکو میں تھیٹر کی ایک شام


الیکساندر تنہیلیوچ نام کا ایک نوجوان تھوڑے عرصے کے لیے ہمارے ساتھ ریڈیو روس کے ہندی سیکشن میں کام کرتا رہا تھا۔ پچھلے دنوں ریڈیو کے سابق اہلکاروں کی ایک محفل میں اس نے بتایا کہ وہ اداکار بن رہا ہے۔ جب پوچھا کہ تمہاری اداکاری کہاں دیکھی جا سکتی ہے تو اس نے ریڈیو کے اپنے سبھی رفقائے کار کو بلانے کا وعدہ کیا تھا۔ چند روز پہلے اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے مطلع کیا اور کہا کہ اگر اپنے نام دے دیں تو داخلہ بلا معاوضہ ہوگا۔

ماسکو میں گی ٹیس کے نام سے معروف انسٹیٹیوٹ ہے۔ اس مخفف نام سے مراد گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ فار تھیٹریکل آرٹس ہے۔ ڈرامہ اس کے “تعلیمی تھیٹر ہاؤس” میں تھا۔ سوویت عہد کے نامور ادیب ماکسم گورکی کا کھیل “میشانے” کھیلا جانا تھا۔ میشانے اب تقریبا” متروک لفظ ہے جس کے معنی کم ظرف یا چھوٹے لوگ ہے۔ یہ عنوان طنزیہ طور پر دیا گیا ہے۔ کھیل میں دکھایا گیا ہے کہ ہم جنہیں چھوٹے یا کم ظرف لوگ سمجھتے ہیں، ان کی خواہشات بھی ویسی ہی ہوتی ہیں جیسے انہیں ایسا سمجھنے والوں کی اگرچہ وہ بڑی خواہشات نہیں ہوتیں۔

یہ تعلیمی تھیٹر چھوٹا سے تھیٹر ہے جس میں دو سو کے قریب نشستیں ہیں۔ سادہ ہال ہے۔ ٹکٹ بہت مناسب ہے یعنی ڈیڑھ سو روبل جبکہ بہت مجہز تھیٹرز کی ٹکٹ ہزاروں میں ہوتی ہے۔ کھیل طالبعلم خود ہی منظم کرتے ہیں۔ ان کا لباس خاص نہیں ہوتا۔ جو کپڑے پہنے ہوتے ہیں وہی چل جاتے ہیں۔ انہوں نے مکالمہ ادا کرنے اور اداکاری کرنے کا فن دکھانا ہوتا ہے۔ سین بدلنے کے دوران ایسی لائٹس میں جن میں ان کے چہرے شناخت نہ ہو سکیں اور سب کے کپڑے یک رنگ ہو جائیں، وہ خود ہی بڑے سبھاؤ سے سادہ سیٹ بدل رہے ہوتے ہیں۔ ناظرین کی نشستیں کیونکہ ایک ہی سطح پر ہیں اس لیے وہ اداکاری کے دوران کبھی کرسیوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کبھی ایک ہی سیدھ میں دھری میزوں پر چڑھ کر چلنے لگتے ہیں۔ اس تھیٹر کو دیکھنے کے لیے کچھ بڑی عمر کے افراد کے علاوہ باقی سب نوجوان لڑکے لڑکیاں آتے ہیں۔

اس کھیل میں ایک گھر کے آلام دکھائے گئے ہیں۔ گھر جس کا سربراہ باپ سخت گیر شخص ہے۔ گھر کی مالکہ ماں مترنم لہجے میں بات کرنے والی ، بچوں سے پیار کرنے والی، شوہر سے دبنے والی، شوہر اور بچوں سے ڈر کر اپنی کہی بات سے مکرنے یا اسے بدل دینے والی ہے۔ گھر کی بیٹی ذہین مگر دکھی لڑکی ہے۔ گھر کا بیٹا جذباتی مگر ماں باپ سے دبنے والا ہے۔ لے پالک بیٹا ہنسوڑ اور کھلے دل کا ہے۔ جس لڑکی سے گھر کا بیٹا شادی کرنے کا خواہشمند ہے وہ طرار اور آزاد سوچ کی حامل ہے۔ لڑکی کا باپ رشتہ دار ہے مگر خاصا بوڑھا ہونے کے سبب کپڑوں کے معاملے میں بے نیاز ہے۔ ایک شراب کا رسیا شخص ہے جو باپ کا دوست ہے، یہ شخص خود کو روس کا واحد بچ رہنے والا ارسٹوکریٹ سمجھتا ہے اور مغربی لہجے میں بات کرتا ہے۔ یہ کردار ہمارے سابق ہمکار الیکساندر نے کیا۔

کھیل میں باپ کے سخت گیر رویے کے سبب بیٹی زہر پی کر اپنی جان لینے کی کوشش کرتی ہے۔ گھر کا بیٹا بالآخر پہلے ماں کے سامنے پھر ایک حد تک رہتے ہوئے باپ کے سامنے بھی زبان کھولنے لگتا ہے۔ لے پالک بیٹا یکسر باغی ہو جاتا ہے اور دعوٰی کرتا ہے کہ دس برس اس گھر کی خدمت کرتے ہوئے وہ بھی اس گھر کا مالک بن چکا ہے۔ باپ اس دعوے پر بہت جھلاتا ہے۔ ماں کوشش کرتی ہے کہ باپ کو باور کرائے کہ لے پالک بیٹا مذاق کر رہا تھا۔ باپ اس کی منہ زوری کا بدلہ اپنے بیٹے کی منگیتر کے باپ کو اس کے نامناسب ملبوس کا بہانہ بنا کر بے عزت کرکے گھر سے نکال دیتا ہے۔ بالآخر لے پالک بیٹا، گھر چھوڑ جاتا ہے۔ بیٹا بھی منگیتر کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ آخر میں باپ شرابی دوست سے کہتا ہے، تم کیوں بیٹھے ہو تم بھی چلے جاؤ۔ وہ اپنا غصہ اس شرابی پر نکالنا چاہتا ہے مگر شرابی اسے لمحے بھر میں چپ کرا کے چلا جاتا ہے۔ بیٹی کو کہتا ہے تم بھی نکل جاؤ وہ باپ سے پیار کرتی ہے، نہیں جاتی مگر جب باپ طعن و تشنیع کی انتہا کر دیتا ہے تو وہ بھی باپ سے زبردستی اپنا ہاتھ چھڑا لیتی ہے پر جاتی نہیں۔ باپ ماں سے بدتمیزی کی حد تک جسمانی محبت کا اظہار کرکے اپنی خفت پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ وہ سب سہہ کر بالآخر اپنے بچوں کے حق میں آواز بلند کر لیتی ہے کہ آخر میرا بھی کچھ کہنے کا حق ہے۔

کھیل بہت اچھی طرح کھیلا گیا۔ میک اپ نہیں تھا۔ آواز کے اتار چڑھاؤ اور آواز تبدیل کیے جانے، حرکات و سکتات سے ذہنی کیفیتوں کا اظہار کیا گیا۔ بوڑھے شخص کا کردار ادا کرنے والے نے کمال فن دکھایا۔ بیٹی نے خوب اداکاری کی۔ چہرے کے تاثرات دینے میں ماہر تھی۔ بیٹے اور لے پالک نے بھی اپنے اپنے کردار کے ساتھ انصاف کیا۔ شرابی کا کردار گرچہ سپاٹ تھا مگر اس سپاٹ پن کو برقرار رکھنا اور کبھی کبھار پورے ماحول پر بے نیاز رہ کر طنز کر دینا بھی مشکل کام تھا جو الیکسانڈر نے سرانجام دیا۔ ماں نے آواز تبدیل کرکے اور ناظرین کے سامنے اپنے جسم کے تمام حصوں کے ساتھ خاوند کی دست درازی سہہ کر باکمال اداکارہ ہونے کا ثبوت دیا۔

اس کھیل میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور آج کی مناسبت سے موزوں لفظ ڈالے گئے۔ کہیں کہیں انگریزی کے لفظ بھی استعمال کیے گئے جو ظاہر ہے کہ اوریجنل کھیل میں نہیں تھے۔ اداکاروں نے اتنے طویل طویل مکالمے بغیر کسی پرامپٹر کے یاد رکھے جو بہت مشکل ہوتا ہے۔

کم از کم میں نے تو اس کھیل میں اداکاری کے میدان میں ان طالبان علم کو بہت اچھے نمبروں سے کامیاب قرار دے دیا۔ کھڑے ہو کر دادا دینے والے ناظرین کی تالیاں بھی یہی کہہ رہی تھیں۔ جس نوجوان نے باپ کا کردار ادا کیا، 27 جنوری اس کی سالگرہ تھی۔ پورے طائفے نے پھولوں کا ایک چھوٹا سا گلدستہ پیش کرکے اور اپنی مادری زبان روسی میں “یوم پیدائش مبارک” کہہ کر اسے سراہا اور وہ خوش ہو کر شرماتے ہوئے مسکرا رہا تھا، اس کے گال بغیر میک اپ کے سرخ ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).