ڈاکٹر شاہد مسعود روسٹرم سنبھالتے ہیں


ڈاکٹر شاہد مسعود کو طلب کرنے سے پہلے جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دیے کہ کورٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ثبوت پر چلنا ہوتا ہے، اور ثبوت وہ ہیں جنہیں قانون مانے گا۔ کچھ معاملات عوامی تاثرات پیدا کرتے ہیں، وہ ثبوت لائیں جو قانونی طور پر قابل قبول ہوں۔ ڈاکٹر صاحب روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں ان کے پروگرام اور سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی میڈیا ٹاک کو پراجیکڑ پر چلانے کی ہدایت کی۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب روسٹرم پر کھڑے تھے اور پراجیکٹر پر چلنے والی اپنی پریس کانفرنس دیکھنے کی بجائے ججز کو دیکھتے رہے۔ معزز جج صاحبان البتہ نوٹس لیتے ہوئے دکھائی دئیے۔ جسٹس منظور ملک ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر مسکرائے اور پانی پینے میں مصروف ہو گئے۔ پراجیکٹر پر ڈاکٹر صاحب سولہ لاکھ پاونڈز کی ٹرانزیکشنز اور مجرم علی عمران کے درجنوں اکاوئنٹس کےد عوے کو دہرا رہے تھے۔

شاہد مسعود کا کلِپ ختم ہوتے ہوئے چیف جسٹس صاحب ان سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ جو باتیں آپ نے کیں ان کے ثبوت بھی آپ ہی کو دینا ہوں گے۔ آپ نے جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے احکامات پر بنی۔ آپ کا انٹرویو اس رات بارہ بجے سنا ، صبح ساڑھے آٹھ بجے آفس آیا، نو بجے نوٹ بنوایا اور سمن جاری کیا۔ اینگزائٹی تھی کہ اگر آپ کی باتیں سچ ہیں تو ایسے میں واقعی ملزم قتل ہو جائے گا۔ آپ برملا اپنے ڈسکورس پر قائم رہے اور اسے دہراتے رہے۔ آپ کے پاس ان باتوں کے کیا ثبوت ہیں؟

شاہد مسعود صاحب نے جواب دینے کی بجائے عدالت سے ہی سوال پوچھ ڈالا کہ پہلے یہ بتائیں ان کے پاس کتنا وقت ہے؟ چیف جسٹس صاحب نے جواب دیا، رات آٹھ بجے تک وقت ہے۔ لیکن آپ کو اپنی گفتگو میں ‘ریلی ونٹ’ رہنا پڑے گا۔ یہ معاملہ خاصا ‘ناول’ ہے۔ واضح نہیں کہ کیا کرنا ہے۔

شاہد مسعود گویا ہوئے کہ جناب! اگر میں ڈی ٹریک ہوجاوں تو روک دیجئے گا۔ مائی نیم اِز شاہد مسعود ، دو ہزار ایک میں پاکستان کے پرائیویٹ میڈیا سے میرے کیرئر کا آغاز ہوا جب میں لندن میں تھا۔ اس سے پہلے میں سندھ میڈیکل کالج سے گریجویٹ ہوا، فیلو شپ کیلئے باہر چلا گیا، میڈیا میں پہلا تعارف مظہر عباس سے ہوا۔ مظہر عباس صاحب کا نام ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگو میں مجموعی طور پر چار بار استعمال کیا۔ لیکن مظہر صاحب کی جانب سے کسی موقع پر بھی انہیں تائید وصول نہ ہوسکی۔ پھر فرمایا کہ نائن الیون کے بعد اے آر وائی چینل کا آغاز ہوا اور میں اس کا پہلا ڈائریکٹر نیوز تھا۔ اور یوں پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کا آغاز ہوا۔ یہ میری کوالیفیشکن ہے جج صاحب! اپنی تعلیمی قابلیت کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ انٹرنیشنل ریلیشن اور سکیورٹی سٹڈیز میں بھی ڈپلومے رکھتے ہیں۔ افتحارچوہدری صاحب کے دور کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے کہ ان کے دور میں میں نے رات کے بارہ بجے ایک اہم بیپر (ٹی وی پر رپورٹ کرنا) دیا۔ (اس بیپر میں ڈاکٹر صاحب نے خبر دی تھی کہ سرکار سپریم کورٹ کے بحال ہونے والے ججز کو فارغ کرنے جا رہی ہے)۔

اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے مائیک آن کیا اور ریمارکس دئیے کہ ڈاکٹر صاحب بعد میں پتہ چلا کہ جو خبر آپ دے رہے ہیں ویسی تو کوئی بات تھی ہی نہیں۔ میں خود ان ججز میں شامل تھا۔ آپ کا بیپر رات بارہ بجے نہیں سوا دس بجے کے قریب نشر ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب جوابا بولے کہ جی خبر غلط تھی لیکن اس کے اثرات ضرورت آنے والے وقت میں ظاہر ہوتے رہے۔

زینب قتل کیس پر دوبارہ بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میں بیرون ملک تھا، چا ر پانچ روز پہلے واپس آیا، وہاں بیرون ملک شام، لبنان، اور ایسے کئی ممالک میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت ‘ڈیپ ویب’ کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اے ٹی ایم سے پیسے نکالیں تو فوری نوٹس آجا تا ہے، چائینز ہیکر اگر کسی اکاونٹ سے پیسے نکالیں تو نوٹس نہیں آتا، کیونکہ یہ لوگ ڈیپ ویب کے ذریعے ہیکنگ کرتے ہیں۔ جے آئی ٹی کو علم ہی نہیں تھا میں کہاں ہوں، نوٹس کہاں بھیجنا ہے، مجھے کسی نے کال نہیں کی، پرسوں شام البتہ مجھے پہلا نوٹس ملا۔ (ڈاکٹر صاحب کے بیان میں ربط کوشش کے باوجود بھی نہ مل سکا۔ قارئین سے معذرت کہ ایسا نہیں کہ ہم ایڈیٹنگ کے ذریعے تحریر کو دانستہ بے ربط بنا رہے ہیں بلکہ خدا گواہ ہے کہ قبلہ ڈاکٹر صاحب کے تمام تر بیانات ایسے ہی تھے جیسے رپورٹ ہو رہے ہیں) اسی گفتگو میں ڈاکٹر صاحب ڈیپ ویب سے کراچی، لینڈ مافیا اور راو انوار تک جا پہنچے اور پھر قصور واقعے کی جے آئی ٹی میں شامل ڈی پی او قصور اور ڈی پی او شیخوپورہ اور دیگر اعلی ترین شخصیات پر خوب گرجے برسے۔ پھر انہوں نے دعوی کیا کہ ڈیپ ویب پر مختلف ہیش ٹیگ کیساتھ کیسے بچوں کی ویڈیوز تلاش کی جاتی ہیں، دعوی کیا کہ زینب کی کلائیاں کاٹی گئیں۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈاکٹر صاحب کو روکا اور استفسار کیا کہ آپ نے جو کہا آپ اس پر قائم ہیں؟

شاہد مسعود نے کہا کہ جی بالکل۔ ساتھ ہی انہوں نے قصور کے قصبے حسین خان والا میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا حوالہ دیا۔ پوچھا کہ ملزم نے بچی کو کہاں رکھا؟ وہ جگہ کیوں نہیں بتائی جا رہی؟ چیف جسٹس نے قبلہ ڈاکٹر صاحب کو ہدایت کی کہ آپ اپنا ڈسکورس جسٹی فائی کریں۔ آپ کی دلیل مفروضہ ہے، جو باتیں آپ کر رہے ہیں یہ انوسٹی گیشن کے معاملات ہیں۔ آپ فی الحال اپنی باتوں کو ثابت کریں۔ اس سے پہلے کہ شاہد مسعود مزید کچھ بولتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا۔ کیا ملزم کے نام پر یہ اکاوئنٹس ہیں؟ شاہد مسعود نے کہا کہ مجھے پانچ منٹ دئیے جائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے دوبارہ سوال اٹھایا کہ ملزم کے دستیاب ڈیٹا میں ایسا کچھ نہیں۔ شاہد مسعود نے جواب دیا کہ میں بلنٹ بات کروں گا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ لوگ (ادارے، جے آئی ٹی) کور اپ کر رہے ہیں، یہ لوگ اس گینگ کا تحفظ کر رہے ہیں جنہیں انہوں نے پالا ہے۔ ڈی این اے یا پوسٹمارٹم ڈاکٹرز نہیں بلکہ خاکروب کیا کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے شاہد مسعود کو روک کر تنبیہ کی کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں اس سے پراسکیوشن کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے؟ آپ صحافی ہیں اور پھر بھی ایسے تبصرے کر رہے ہیں؟ آپ کو ہوش ہے؟ آپ صرف اپنے الزامات کی حد تک بات کریں۔ اگر آپ کو جے آئی ٹی پر اعتبار نہیں تو میں نئی جے آئی ٹی بنا دوں گا۔ یہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں یہ معاملے سے کیسے ریلیونٹ ہے؟ شاہد مسعود نے کہا کہ بحثیت ڈاکٹر میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ پوسٹمارٹم اور ڈی این اے خاکروب کرتے ہیں ڈاکٹر محض دستخط کیا کرتے ہیں۔ اس موقع پر شاہد مسعود نے دوبارہ مظہر عباس کو مخاطب کیا کہ شاید وہ ان کے ہاں میں ہاں ملائیں۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ کمرہ عدالت میں شاید اسی کارن مسکراہٹوں کے تبادلے بھی ہوئے۔ چیف جسٹس نے شاہد مسعود کو دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مائی ڈیئر برادر ! اپنے بیانات کی سچائی میں کچھ کہیں۔۔!

 شاہد مسعود پھر گویا ہوئے اور کہا کہ علی عمران وہ ملزم ہے ہی نہیں جس نے یہ گھناونا کھیل کھیلا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اکاوئنٹس کی بات کریں۔ آپ یہ سب کیسے ثابت کریں گے؟ شاہد مسعود نے ہاتھ جوڑ کر کہا یہ وہ شخص ہے ہی نہیں، اگر میری بات غلط ہے تو مجھے جیل میں ڈال دیں یا پھر میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ چیف جسٹس فورٍاً مخاطب ہوئے اور کہا کہ: جانے نہیں دوں گا۔ یہ میاں ثاقب نثار ہے، میرا کام کرنے کا اپنا انداز ہے، میرا مقصد صرف مفاد عامہ کے لئے کام کرنا ہے۔ جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں آپ کو ثبوت دینا پڑیں گے۔ تقریبا قہقہ بلند کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا میں بھاگ جاوں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا جائے گا۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب نا جانے کس ترنگ میں تھے، کہا میں راو انوار ہوں۔ اس موقع پر چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ نان سیریس ہونے سے گریز کریں۔ پھر شاہد مسعود نے قدرے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے جے آئی ٹی پر اعتبار ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے دوبارہ ریمارکس دئیے کہ کیس انتہائی سادہ ہے، آپ نے الزام لگایا، آپ ثابت کریں۔ آپ کے تبصرے نے ‘پینک’ پیدا کی۔ شاہد مسعود نے کہا آپ جے آئی ٹی بنا دیں جس پر چیف جسٹس فوری طور پر مخاطب ہوئے اور کہا کہ اس کیس میں ، پہلے سے قائم جے آئی ٹی ختم کر رہا ہوں، ہم جے آئی ٹی بنار ہے ہیں، جوڈیشل کمیشن نہیں بنے گا۔ وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلی کسی کے کہنے پر اب جوڈیشل کمیشن نہیں بنے گا۔ جوڈیشل کمیشن کا مطلب ہے کھوہ کھاتا۔ سلیم شہزاد کا معاملے ہی دیکھ لیں۔ اس موقع پر انہوں نے حامد میر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ بھی پیش ہوئے تھے ناں کمیشن میں میر صاحب! آئی ایس آئی شامل تھی یا امریکی، آپ نے خود کہا کچھ واضح نہیں۔ جے آئی ٹی بنے گی۔ تحقیقات جے آئی ٹی ہی کرے گی، شاہد مسعود صاحب آپ کے لئے ہم انتہائی اچھی شہرت کے حامل شخص کا انتخاب کر رہے ہیں، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن صاحب آپ کی جے آئی ٹی کی سربراہی کریں گے۔ دو نام مزید ایک دو روز میں فائنل کر لیں گے۔ اس موقع پر سرکاری وکیل نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے انتہائی سنجیدہ لہجے میں سوال پوچھا کہ بتائیں و ہ سینتیس اکاوئنٹس کہاں ہیں؟ جواب میں شاہد مسعود نے کہا کہ و ہ اکاوئنٹس جن کی چھان بین سٹیٹ بنک کر رہا ہے، ایسا سٹیٹ بنک جس نے اسحاق ڈار کو صادق اور امین قرار دے رکھا تھا۔ چیف جسٹس صاحب! یہ لوگ مجھے پھانسی لگا دیں گے۔ چیف جسٹس صاحب نے شاہد مسعود کو یقین دلایا کہ تسلی رکھیں آپ کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر آپ کی بات درست ثابت ہوگئی تو یہی عدالت آپ کو ایمانداری اور سچائی کا سرٹیکفیکٹ جاری کرے گی اور اگر آپ کی باتیں غلط ثابت ہوئیں تو آپ سوچ نہیں سکتے کہ پینک پھیلانے والے شخص کیساتھ پھر کیا ہوگا۔ قارئین ! عزت ماب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پونے تین گھنٹے تک جاری اس سماعت میں پانچ چھے بار یہی ریمارکس دہرائے۔

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami