گیارہ برس سات ماہ تیرہ دن اور اس دوران فقط دو ملاقاتیں۔ دونوں ملاقاتیں نرم گرم جذبات کے ساتھ شروع ہوئیں اور ان گنت غلط فہمیوں پر اختتام پذیر ہوئیں۔ خدشہ تھا کہ شاید اب کمینہ کمینی سے کبھی نہ مل پائے۔ ربط کا آخری خفیہ ذریعہ بھی کمینی بلاک کر چکی تھی۔ آخری ملاقات ہوئے بھی تو تین برس بیت چکے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ ”نیچر ہیز اِٹس اُون وے“ ۔ ٹرمپ کے دیس میں نواں دن تھا۔ پہلے ہفتے تو ایک دو امریکی دوستوں کے توسط سے ”بریڈ اینڈ بَٹر“ کا انتظام کرلیا لیکن اب ظاہر ہے کہ سیلف ہیلپ اب لازم ہو چکی تھی۔
لہذا اب ہم تھے یا گُوگل سرکار۔ یہ ابتدائی نومبر کی ایک نسبتاً خنک ”جمعراتی“ سرمئی شام تھی جب ہم لائن میں لگ کر چند ”گراسری آئٹمز“ ٹرالی میں ڈالے چیک آوٹ کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس سٹور میں تو خود سے ہی سسٹم پر پے منٹ کرنی ہے۔ آٹو سسٹم طبیعت پر ناگوار گزر رہا تھا، پلٹ کر دائیں جانب نگاہ ڈالی تو ہیڈ فون پہنے ایک خاتون دھڑا دھڑ سودا سلف شاپنگ بیگز میں ڈالنے میں مصروف تھی۔ بہتیرا کہا، ”ایکسکیوز می!
”کین یو ہیلپ می؟“ مجال ہے کانوں پر پہنے کھوپے ہماری آواز اس کی سماعتوں تک پہنچنے دیتے۔ آگے بڑھ کر ہاتھ کے اشارے سے اسے مخاطب کیا۔ وہ پلٹی، ہیڈ فون اتارے، الجھی زلفیں سنوارنے کی کوشش کی۔ ہاتھ میں قریب قریب دو لٹر کا سافٹ ڈرنک جس میں آدھ انچ قطر کا ’پائپ‘ موجود تھا۔ سُڑ سُڑ کرتے ہمیں دیکھتے ہی جیسے اس کی ہچکی بندھ گئی ہو۔ ہم خود بھی تو حواس باختہ ہو چکے تھے۔ اس نے حلق میں معلق گھونٹ نیچے اتارا اور دو لیٹری گلاس نیچے رکھتے ہوئے کہا، ”کمینہ اِن امریکہ؟ تم پھر ٹکر گئے مجھے! اب کیا میرا گھر برباد کرنے آئے ہو؟ وٹ دا ہیل آر یُو ڈوئنگ آوٹ ہیئر؟“
Read more