عدالت اور صحافیوں کا مکالمہ کیسے ہوا؟


ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چیف جسٹس نے پی بی اے کے چئیرمین اور دنیا میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹو میاں عامر محمود کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کی اور استفسار کیا کہ وہ اس مدعے پر عدالت کی کیسے رہنمائی کر سکتے ہیں۔ میاں عامر محمود کا بیان مختصر مگر جامع تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک عام شہری ہونے کے ناطے بچیوں کا باپ ہوں، قصور کی آٹھ بچیوں کو ریاست انصاف نہیں دے سکی۔ ہم نے کچھ لوگوں کو اجازت دی کہ وہ متاثرہ ماں باپ کو بتائیں کہ ان کی مظلوم بچیوں کی فلمیں بھی دنیا بھر میں دیکھی جا رہی ہیں۔ ہم کورٹ روم میں ہنس رہے تھے اور میں زینب کے باپ کو دیکھ رہا تھا۔ زینب کے باپ سے پوچھیں ان پر کیا بیت رہی ہے۔ ایک شخص بغیر ثبوت کے کہہ رہا ہے کہ زینب کی فلمیں چل رہی ہیں۔ حاجی امین صاحب پر کیا بیت رہی ہوگی؟ ہم ایسے لوگوں کو معاشرے کے منہ پر طمانچہ مارنے کی اجازت کیوں دیتے ہیں؟ میاں عامر کے بعد عدالت نے سی پی این کے صدر ضیا شاہد کو روسٹرم پر طلب کیا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اکاوئنٹس والی خبر پر مجھے علم نہیں البتہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ قصور میں بچوں کی ویڈیوز بنانے کا دھندا کیا جاتا ہے، اس معاملے کی تحقیقات کی جانی چاہیں۔ انہوں نے سرگودھا اور چونیاں میں پیش آئے واقعا ت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا چند سو روپوں کے عوض بچوں کی ویڈیو بنا کر بیچی جا رہی ہیں۔ قصور میں بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات میں لوگوں سے سنا کہ مجرموں کو مقامی سیاستدانوں اور پولیس افسران کی پشت پناہی حاصل رہی۔ وزیر قانون نے ٹی وی پر آکر کہہ دیا کہ وہ زمین کا معمولی جھگڑا تھا میڈیا اچھال رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معلومات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ با اثر لوگ اور اراکین اسمبلی آٹھ سال سے ملزمان کو تحٖفظ دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ضیا شاہد کی بات کاٹ کر پوچھا: اکاونٹ والی بات پر آپ کیا کہیں گے؟ ضیا شاہد نے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پھر چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا۔ اس مسئلے پر جے آئی ٹی بننی چاہیے؟ ضیا شاہد نے اثبات میں سر ہلایا اور شکریہ کہہ کر چل دئیے۔

اگلی باری آئی اے رحمان کی تھی۔ روسٹرم پر آتے ہی معز ز چیف جسٹس نے ان سے پوچھا، ہاو آر یو؟ حال احوال دریافت کرنے کے بعد چیف جسٹس نے خواہش کا اظہار کیا کہ کاش وہ تمام صحافی جو کورٹ روم میں موجود ہیں انہیں چائے کا کپ پیش کر سکتے۔ اس پر شکریہ ادا کرتے ہوئے آئی اے رحمان صاحب نے انتہائی اہم جملہ ادا کیا۔ میرے خیال میں یہ جملہ پوری کارروائی کا سب سے اہم جملہ تھا۔ انہوں نے عرض کی کہ جناب چیف جسٹس ! چائے نہیں انصاف چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی صحافی بارے اظہار رائے کرتے ہوئے میں شرماتا ہوں۔ افسوس ہوتا ہے کہ اس واقعے میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہ اگر ثابت ہو جائے کہ یہ بات (شاہد مسعود کا دعوی) سچ ہے تو احترام اور عزت کیساتھ انہیں سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا اگر معاملہ غلط ثابت ہوا تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ سزا کیا ہونی چاہیے؟ اس لئے پوچھ رہے ہیں کہ آج کل تو قانون ٹی وی پر ڈسکس ہوتا ہے۔ آئی اے رحمان نے اس پر تاسف کا اظہار کیا اور اپنا مدعا ختم کرتے ہوئے چل دئیے۔ پھر باری آئی مجیب الرحمان شامی کی۔ چیف جسٹس اور شامی صاحب کے درمیان سلام کا تبادلہ ہوا تو شامی صاحب کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایسے کسی معاملے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ اب اس معاملے کی تحقیقات ہو کر رہنی چاہیں۔ چیف جسٹس نے ہلکے پھلکے انداز میں ریمارکس دئیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم حدود سے تجاوز کر رہے ہوں؟ کورٹ روم میں مسکراہٹیں بکھریں تو شامی صاحب نے جواب دیا کہ جناب چیف جسٹس صاحب اگر بات آپ کی حدود کی ہے تو پھر ‘سکائی اِز دی لِمٹ”۔ اور اس بابت ہمیشہ آپ کی حمایت کی ہے۔ بہتر ہے آپ جے آئی ٹی بنائیں اور تحقیقات کرائیں۔

اس کے بعد چیف جسٹس صاحب دوبارہ مائیک پر مخاطب ہوئے اور ریمارکس دئیے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کا دعوی درست ہے تو انہیں انعام ملے گا بصورت دیگر سزا بھی مثالی ہو گی۔ سزا پر تین آپشن ہو سکتے ہیں۔ ایک: یہ معاملہ اینٹی ٹریرازم کا بھی ہوسکتا ہے۔ دو: توہین عدالت بھی لگ سکتی ہے۔ تین: سیکشن ایک سو ترانوے کے تحت کارروائی۔ ( سیکشن ایک سو بانوے میں ایسی شہادت یا بیان جس سے کارروائی متاثر ہو کا ذکر ہے جب کہ ایک سو ترانوے میں اس کی سزا بابت تفصیلات درج ہیں جو تین سال تک ہو سکتی ہے۔)

پھر باری آئی عارف نظامی صاحب کی، جنہوں نے آتے ہی کہا کہ آپ (عدالت) نے جو اب تک کہہ دیا وہ کافی ہے، میرے لئے آج کا دن باعث شرم ہے۔ سٹوری دینے کے بعد آج بحث ہو رہی ہے کہ خبر غلط ہے یا درست۔ خیال تھا کہ صحافت آزاد ہو کر ترقی کر رہی ہے۔ شاہد مسعود کو پہلے بتانا چاہیے تھا کہ حقائق کیا ہے، ہم آج اس پر جے آئی ٹی بنا رہے ہیں۔ مقام افسوس ہے۔ ایجنڈے سے بالا تر ہو کر صحافت کی جائے تو شرمندگی نہیں اٹھانا پڑتی۔ کوڈ آف ایتھیکس انسان کے اندر ‘بِلٹ اِن” ہوتے ہیں۔ میڈیا ہاوسز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریٹنگ کی دوڑ سے نکل کر ذمہ دارانہ صحافت کو پروان چڑھانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ معزز چیف جسٹس نے اس موقع پر جنگ کے میر شکیل الرحمان کو یاد کیا جو کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ میر شکیل الرحمان کو آنا چاہیے تھا، ہماری ریکوسٹ کو کمانڈ کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ عدالت میں اگلا نام کامران خان صاحب کا پکارا گیا جنہوں نے انتہائی نپی تلی گفتگو کرتے ہوئے معاملے کی سنجیدگی کی جانب مسلسل توجہ مرکوز رکھی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس آج ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ پاکستانی صحافت کو نیا رخ دے۔ افسوس ہے کہ آج ہمارا میڈیا کہاں آن کھڑا ہوا ہے۔ ٹی وی جرنلزم کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس پر سر اٹھانے کی ہمت نہیں رہتی۔ جو جی میں آتا ہے کہہ دیا جاتا ہے، پگڑیاں اچھل رہی ہیں، اس لئے کہ کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔ چیف جسٹس صاحب! آپ کو یاد ہو گا آپ کی تقرری سے پہلے آپ کے بارے کیا کچھ کہا گیا، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے کیا کچھ نہ کہا گیا؟ جب ملک میں چیف جسٹس، چیف آف آرمی سٹاف اور وزیر اعظم تک کی عزت محفوظ نہیں تو عام آدمی کی عزت کیسے بچے گی؟ یہ کیفیت ناقابل بیان ہے۔ آج تو ہم اس مسئلے کے لئے مل بیٹھے ہیں لیکن اس سے پہلے تین سو پینسٹھ دن اور اس سے پہلے کے دن طوفان بدتمیزی برپا رہا۔ قوم ہیجان کی سی کیفیت میں مبتلا ہے۔ کسی عدالت نے ایک یا دو کیسز کے علاوہ کبھی کسی اینکر کی غیر ذمہ داری کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ ہم اپنے ایک ایک حرف کے جوابدہ ہیں اور ہمیں جوابدہ ہونا چاہیے۔ ہم نے کمرہ عدالت میں بیٹھے محسوس کیا کہ کامران خان صاحب کی گزارشات کو پوری عدالت نے انتہائی توجہ سے سنا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اس موقع پر خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے بار بار محترمہ نسیم زہرہ اور عاصمہ شیرازی کا ذکر کیا۔ نسیم زہر ہ نے آتے ہی کہ پاکستانی میڈیا دل اور دماغ پر اثر انداز ہو رہا ہے، امید ہے آپ انصاف کریں گے۔ چیف جسٹس صاحب نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ان کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کا حوالہ دیا جو برسوں پہلے ایاز امیر صاحب کے ہمراہ ہوئی۔ اور کہا کہ نسیم زہرہ صاحبہ! آپ کی صحافت کا آغاز اخبار سے ہوا، مجھے یاد ہے آپ ذمہ دارانہ صحافت کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں، ایسی غلطی جس کا ہم ذکر کررہے ہیں آپ سے نہیں ہو سکتی۔ جس پر نسیم زہرہ نے انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ جناب چیف جسٹس غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے، مجھ سے بھی ہو سکتی ہے۔ میرے بھائی پائلٹ ہیں میں ان سے اکثر سوال کرتی ہوں ہنگامی صورتحال میں کئی ہزار فٹ بلندی پر کس کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہمیشہ پہلی فکر مسافروں کی ہوتی ہے۔ ایسے ہی ہمیں پہلی فکر اپنے ناظرین اور قارئین کی ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سچ کی صورت میں سرٹیفکیٹ دیں گے، جھوٹ کی صورت میں کچھ سزا تو ہونی چاہیے نا! نسیم زہرہ نے مودبانہ طریقے سے گزارش کی کہ مائی لارڈ ہم سے نہ پوچھیئے کہ کیا سزا ہونی چاہیے، سزا قانون میں موجود ہے اسی کے تحت فیصلہ کیجئے۔

عارف حمید بھٹی صاحب کی باری آئی تو انہوں نے اپنی گزارشات کا آغاز انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں کرتے ہوئے کہا کہ کوئی جملہ آگے پیچھے ہو جائے تو مائنڈ نہ کیجے گا۔ آپ نے تین سزاوں کا ذکر کر کے ڈرا دیا، میرا بی پی کم ہو کر رہ گیا۔ یہ شاہد مسعود کی بات نہیں۔ اور پھر یہاں سے بھٹی صاحب جذباتی ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کے مافیا کی خبر گیری بھی کی جائے، ان لوگوں سے حساب مانگا جائے جنہوں نے بلیک منی کو وائٹ کیا، یہ لوگ لینڈ مافیا ہیں۔ معاملہ ڈی ٹریک ہوتے دیکھ کر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پانچ دس منٹ میں اپنی بات مکمل کریں۔ بھٹی صاحب نے مطالبہ کیا کہ آپ نے جن لوگوں کو روسٹرم پر بلایا ان سے ان کے اثاثوں کا حساب مانگیں۔ یہ لوگ سالوں پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں؟ حساب مانگا جائے۔ یہ صحافت نہیں کمرشلزم کر رہے ہیں۔ شاہد مسعود سے پہلے وزیر اعلی پنجاب نے پریس کانفرنس میں جھوٹ کے انبار لگا دئیے۔ معاملہ سینتس اکاونٹس کا نہیں، وہاں قصور میں بے گناہ لوگ پولیس مقابلے میں مار دئیے گئے، پولیس نے چالان تک پیش نہیں کئے۔ صحافیوں کیساتھ زیادتی ہوتی ہے، ویج بورڈ ایوارڈ بیس سال ہو گئے نافذ نہیں ہو رہا۔ اس پر چیف جسٹس نے مظہر عباس صاحب سے استفسار کیا کہ کیا ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل نہیں ہوا؟ بھٹی صاحب نے کہا کہ صحافی کو نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے، لیبر لا کا کہیں نفاذ نہیں ہوتا، پانچ بچوں کا باپ عام صحافی تیس ہزار میں کیسے گزار ا کرے؟ ایک پروگرام کو لے کر نہ بیٹھا جائے، پوری صحافت کو دیکھا جائے کہ کون کس ایجنڈے کا حصہ ہے۔ مجھے ٹاک شو میں کسی کی تذلیل کا حق نہیں لیکن میرا حق ہے کہ آج مجھے یہاں سنا جائے۔ صحافتی مافیا کا بار بار ذکر کرتے ہوئے بھٹی صاحب نے یہ بھی اقرار کیا کہ ان کے پاس مافیا کے خلاف ثبوت تو نہٰں البتہ وہ با خبر ہیں کہ کب کب کس نے کیسے کیسے مال پانی بنایا۔ بھٹی صاحب نے عدالت کی توجہ جڑانوالہ میں ن لیگ کے حالیہ جلسے کی جانب بھی مبذول کرائی کہ اس جلسے میں سابق وزیر اعظم نے کھلے عام عدلیہ کی توہین کی، شاہد مسعود کو نوٹس دیا گیا لیکن نواز شریف کو کون نوٹس دے گا؟ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جب نوٹس لینا ہوگا لیں گے، ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم باخبر ہیں، درست وقت پر درست فیصلے کریں گے۔ بھٹی صاحب نے غالباً یہ تک کہہ دیا کہ سابق وزیر اعظم عدلیہ کہ ماں بہن ایک کر رہے ہیں۔

پھر چوہدری غلام حسین صاحب روسٹرم پر آئے۔ کہا معاشرہ درندوں کے رحم و کرم پر ہے، لوگوں کو بتائیں وہ اپنے بچوں کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑیں؟ شاہد مسعود نے غلط کیا یا صحیح۔ صحافی کو رگڑا نہ دیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ان (شاہد مسعود) کی خبر پر انہیں بلایا، کیونکہ معاملہ ملزم عمران کی زندگی کو لاحق خطرات کا تھا۔ آپ لوگوں نے شاہد مسعود کو جھوٹا ثابت کرنا شروع کر دیا ہے۔

حامد میر صاحب نے کہا کہ آپ نے ہم سب کو یہاں بلا کر بہت اچھا کیا، اصل میں تو شاہد مسعود نے خود اپیل کی کہ نوٹس لیا جائے۔ آپ نے نوٹس لیا، انہوں نے کہا کہ وہ اپنی خبر کی صداقت پر قائم ہیں۔ اگر خبر درست ہے تو آپ بجا طور پر انہیں سرٹیکفیٹ دیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ، غلط ہونے کی صورت میں؟ حامد میر نے کہا کہ ظاہر ہے پھر سزا ملنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ انفرادی نہیں پوری میڈیا انڈسٹری کا ہے، شاہد مسعود دو ہزار ایک میں ڈائریکٹر نیوز بنائے گئے، یہ نہیں دیکھا گیا کہ ان کا بیک گراونڈ صحافت سے ہے یا نہیں، یہی نہیں بلکہ یہاں تو کئی مالکان کا بیک گراونڈ بھی صحافت سے نہیں ہے۔ ہم نے دو ہزار بارہ میں درخواست دی کہ اینکرز اور مالکان کا احتساب کیا جائے اورصحافتی ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے۔یہ کیس اب بھی چل رہا ہے، ڈیڑھ برس پہلے اس کیس کی آخری سماعت ہوئی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ ایڈیشنل رجسٹرار سے چیک کر لیں ہم نے یہ کیس اگلے ہفتے سماعت کے لئے پانچ رکنی بنچ کے سامنے لگا دیا ہے۔

شاہد مسعود بارے گزارشات کرتے ہوئے حامد میر نے کہا آپ نے تین آپشن دیں ، چوتھی آپشن کے طور پر ایک موقع اور دے دیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ، معافی کا دروازہ کھلا ہے، دیکھتے ہیں کس حد تک صدق دل سے انکساری اور عاجزی کیساتھ معافی مانگی جاتی ہے۔ تردید کافی نہیں پھر تو کام ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ معافی کا ایک وقت اور موقع ہوتا ہے۔ پھر بعد میں معافی کا موقع بھی ہاتھ میں نہیں رہتا۔ موقع آج ہے۔ حامد میر نے کہا کہ شاہد مسعود معافی مانگ لیں اگر دروازے کھلے ہیں تو۔ چیف جسٹس نے دوبارہ کہا کہ موقع تو آج ہی ہے پھر۔ اس موقع پر چیف جسٹس اور حامد میر نے شاہد مسعود کے حالیہ پروگراموں میں ‘انہیں نہیں چھوڑوں گا”جیسے جملوں پر از راہ تفنن تبصرہ بھی کیا۔

عاصمہ شیرازی نے اپنی گزارشات میں لفظ کی حرمت کا ذکر کیا، اور کہا کہ ہم خوش قسمت تھے کہ جنہیں ایسے سینئرز کی سرپرستی حاصل رہی جنہو ں نے مبینہ، امکان، شبہ ، ملزم اور مجرم جیسے لفظوں کے مفہوم سمجھاتے ہوئے میدان صحافت میں ہماری تربیت کی۔ بدقسمتی ہے کہ اب اس پیشے میں ایسے لوگ آ گئے ہیں جنہوں نے صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے والا کام کر دکھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ شاہد مسعود پارلیمنٹ ہاوس آتے تو لوگ ان کا ہاتھ چومتے تھے۔ جو بھی ہوا وہ نفسیاتی دہشتگردی کے مترادف ہے جو کسی نہ کسی شکل میں ہم اپنے بچوں تک منتقل کر رہے ہیں۔ یہ خوف میں نے بحثیت ماں اپنے بچوں تک منتقل کیا ہے۔ اس نفسیاتی دہشتگردی کا علاج ہونا چاہیے۔ اداروں میں ایڈیٹر کا کردار کہاں دکھائی دیتا ہے؟ ایجنڈہ اور پراپیگنڈہ پر کام ہورہا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ میڈیا ریفارمز کا معاملہ الگ کیس میں دیکھا جا رہا ہے۔ فی الحال شاہد مسعود کا معاملہ زیر بحث ہے۔ چیف جسٹس بار بار استفسار کرتے رہے کہ اگر شاہد مسعود کے الزامات درست نہیں ثابت ہوتے تو پھر کیا کیا جائے؟ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ زینب کا کیس میڈیا کی تطہیر کا باعث بننا چاہیے۔ شاہد مسعود اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے بلند آواز میں بولے کہ یہ میری تذلیل ہو رہی ہے۔ اسی اثنا میں کاشف عباسی کو موقع دیا گیا جنہوں نے کہا ہم سب غلطیاں کرتے ہیں، ایک بندے کا مسئلہ نہیں ، سسٹم کا مسئلہ ہے۔ ریٹنگ کیلئے سنسنی پھیلائی جاتی ہے۔ شاہد مسعود پر پابندی لگا دی گئی تو پھر کوئی اور آ جائے گا اور وہ بھی ریٹنگ کی دوڑ میں مصروف ہو جائے گا۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن گویا ہوئے اور کہا کہ آپ اندازہ لگائیں کہ شاہد مسعود کے تبصرے پر چیف جسٹس کے دماغ پر کیا بیتی، ایسے میں عام آدمی کے ساتھ کیا گزری ہوگی؟

کاشف عباسی نے کہا کہ جناب! ایک واقع پر کوئی مثال نہیں بننی چاہیے۔ چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری جان ! مثال بنی تو پھر کوئی دوسرا شاہد مسعود ایسے نہیں کر پائے گا۔ یہ مثال ہم نہیں بنا رہے۔ یہ مثال خود ہمارے پاس آئی ہے۔ شاہد مسعود نے خود اپنے آپ کو پیش کیا۔

اگلی باری آفتاب اقبال کی تھی جنہوں نے ماسوائے ایک آدھ جملے کے پوری تقریر انگریزی زبان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک بدل رہا ہے، قوم بدل رہی ہے، اس کی نشانی یہاں دیکھی جا سکتی ہے، شاہد مسعود کا معاملہ انتہائی دلچسپ ہے کارروائی پورا دن چلنی چاہیے، خواہش کہ میں خودایک شو ریٹائرڈ ججز اور میڈیا کے دانشوورں کے ساتھ اسی موضوع پر کروں۔ چیف جسٹس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ پھر آپ میری ریٹائرمنٹ کا انتظار کر لیں۔ آفتاب اقبال نے مزید کہا کہ مجھے شاہد مسعود بے حد پسند ہیں حالانکہ ان کے کوئی صحافتی کوائف دستیاب نہیں۔ بدقسمتی سے ان کی شخصیت میں عجب مسئلہ ہے اور اب اس مسئلے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک ایسا بلنڈر کیا گیا جس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کئے گئے۔

سہیل وڑائچ صاحب آئے تو چیف جسٹس نے برملا کہا یہ میرے پسندیدہ صحافی ہیں۔ وڑائچ صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹ اور سچ کی سزا ہے۔ لیکن کسی ایک جھوٹ کے نام پر آزادی صحافت نہ بند کی جائے۔ کچھ ایسا نہ کریں جس سے میڈیا کی آزادی کو نقصان پہنچے۔ قانون کی سزا سے پہلے ایک وارننگ دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے تو موقع دے رکھا ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا ہم نے تو شاہد مسعود سے درخواست کی ہے لیکن وہ نہیں مان رہے۔ اور پھر کمرہ عدالت میں زور دار قہقوں کی گونج سنائی دی۔ جیو کے صحافی دوستوں نے بارہا ایسی گراونڈ بنانے کی کوشش کی جس پر کھڑے ہو کر شاہد مسعود آج معافی مانگ لیتے تو شاید معاملہ تھوڑے میں ٹل جاتا۔ حتی کہ کارروائی ختم ہونے کے بعد بھی حامد میر شاہد مسعود کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن شاہد مسعود کسی اور مخمصے میں الجھے دکھائی دئیے۔ بہر حال سہیل وڑائچ صاحب کی گزارشات جاری تھیں اور آزادی رائے پر قدغن کا مدعا زیر بحث تھا کہ چیف جسٹس انتہائی سنجیدہ ہوئے اور ریمارکس دئیے کہ ہم قطعا آزادی صحافت پر قدغن نہیں لگنے دیں گے۔ سہیل وڑائچ نے فوراً بہت اہم سوال گزارش کے طور پر پوچھ ڈالا۔ عرض کی: جناب جمہوریت کو تو کوئی خطرہ نہیں ہے ناں؟ چیف جسٹس نے انتہائی سنجیدگی سے ریمارکس دئیے کہ “جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، جمہوریت نہیں تو میں بھی نہیں رہوں گا۔”

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami