سید قسور رضی : دکھ بانٹنے والا دکھ جھیل گیا


آج قسوررضی بھی چلے گئے۔ وہ جب بھی ملتے تو کہتے تھے رضی بھائی میں بھی رضی ہوں، ہم دونوں رضی ہیں۔میں آپ کا رضی ہوں اور آپ میرے رضی ہیں۔ پھر وہ بہت محبت سے میرے ساتھ مصافحہ کرتےاور کبھی میرے گلے لگ جاتے۔ اور جب شاہ جی مجھ سے ملتے تھے قسور رضی مجھ سے ملتے تھے تو رضی کی رضی کے ساتھ ملاقات ہوجا تی تھی اور رضی کو رضی اپنے گلے سے لگالیتا تھا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں اور نہ ہی میں محض نام کی رعایت سے یہ بات کر رہا ہوں۔وہ حقیقت میں اس قدر محبت کرنے والے انسان تھے اور اس خلوص سے ملتے تھے کہ انہیں مل کر احساس ہوتا تھا کہ جیسے خود سے ملاقات ہو گئی ہے۔ لیکن یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ کسی روز رضی کو رضی کا نوحہ لکھنا پڑ جائے گا سو آج رضی الدین رضی سید قسور رضی کا ماتم کرتا ہے گویا اپنا نوحہ لکھتا ہے۔

قسور رضی بہت محبت کرنے والی ہستی تھی۔ بہت محبت کرنے والا انسان، ایک جذباتی شخص، یعنی ایک نظریاتی شخص۔ ایک ایسا انسان جو عمر بھر مزدوروں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتا رہا۔ جو مزدوروں کے دکھ درد کم کرنے میں مصروف رہا۔ وہ ایک ہی نظریئے سے وابستہ رہے۔ ایک ہی راستہ تھا ان کا۔ محبت اور خلوص کا راستہ۔ پیپلزپارٹی ان کی پہلی اور آخری محبت تھی اور یہی ان کا نظریہ تھا۔ اس جماعت سے ان کی وابستگی والہانہ تھی۔ قسور رضی نے اپنی زندگی خدمت خلق کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ وہ حبیب بینک سے وابستہ تھے۔ قسور رضی حبیب بینک ایمپلائز فیڈریشن کے مرکزی عہدیدار تھے۔ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم پر بھی وہ پیپلز لیبر بیورو کے عہدیدار رہے تاکہ پارٹی کی مدد سے کارکنوں کے دکھ دور کر سکیں۔ ہم انہیں ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں متحرک دیکھتے تھے۔ شاہ جی خلق خدا کے دکھ کم کرنا چاہتے تھے لیکن لوگوں‌کے دکھ کم کرتے کرتے شاہ جی کا اپنا دامن بھی تو دکھوں سے بھر گیا۔

میرا ان کا تعلق بہت پرانا تھا لیکن ان کے ساتھ زیادہ قربت گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران رہی۔ وہ ادبی بیٹھک بننے کے بعد مجھے بہت تواتر کے ساتھ ملے اور ایسے والہانہ اندازمیں ملے کہ جیسے ہم برسوں اسی طرح ملتے ہوں۔ شاہ جی خود شعر نہیں کہتے تھے، خود افسانے یا کہانیاں نہیں لکھتے تھے لیکن وہ قاری بھی بہت اچھے تھے اورسامع بھی۔ بعض معاملات میں وہ بہت جذباتی تھے مذہب اورعقیدے سے ان کی وابستگی بہت شدید تھی اور پارٹی کو بھی وہ عقیدہ ہی سمجھتے تھے۔ قسور رضی کی محبت بے لوث تھی۔ خوشی اوردکھ کے لمحوں میں شاہ جی ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ ادبی بیٹھک میں وہ بہت باقاعدگی سے آتے رہے اور کبھی جب ان تک میرا پیغام نہیں پہنچتا تھا توشکوہ بھی کرتے تھے۔ اس محبت میں کوئی کھوٹ نہیں تھا کوئی غرض شامل نہیں تھی ہم دونوں ایک دوسرے کا احترام اس لئے نہیں کرتے تھے کہ ہمارا کوئی مفاد وابستہ تھا۔ بس یہ ایک محبت تھی ایک کشش تھی جوشاہ جی کو ہمارے ساتھ اور ہمیں شاہ جی کے ساتھ جوڑ کر رکھتی تھی اور اس کشش اورمحبت کا مرکز نوازش علی ندیم تھا اور اس سے پہلے راشد نثارجعفری تھا۔ اور وہ جو میں نے لکھا کہ دکھوں کو کم کرتے کرتے بہت سے دکھ ان کی جھولی میں آن گرے توان میں پہلا دکھ ان کے بھائی کی موت کا تھا۔

قسورضی کا بھائی شکیل شاہ پی ایس ایف کا سرگرم رکن تھا۔ یہ 1990 کی بات ہے جب مرکز میں بے نظیر بھٹو اور پنجاب میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ آج جمہوریت کی بات کرنے اور اسٹبلشمنٹ کو برا بھلا کہنے والے نواز شریف ان دنوں اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر بے نظیر حکومت کے خاتمے کے لئے سرگرم تھے۔ قسور رضی کا بھائی اس زمانے میں پی ایس ایف کا سرگرم کارکن تھا۔ کالجوں میں پی ایس ایف اورایم ایس ایف کی باہمی کشیدگی عروج پرتھی۔ شکیل ایک جذباتی اور متحرک کارکن تھا اور جمیعت اور ایم ایس ایف کی نظروں میں بری طرح کھٹکتا تھا۔ پنجاب حکومت نے پیپلز پارٹی کے سرگرم رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کر رکھا تھا۔ ان کارکنوں کی پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی جاری رہتی تھی۔اسی دوران ملتان میں جمیعت کے دو کارکن بہرام اور رندھاوا قتل ہو گئے۔ مقدمہ درج ہوا تو مرکزی ملزمان میں اس وقت کے وفاقی وزیر ملک مختار احمد اعوان، سینئر رہنما اور ماہر قانون حبیب اللہ شاکر اور پی ایس ایف ملتان کے رہنماؤں خواجہ رضوان عالم، حیدر شاہ اور شکیل شاہ کا نام بھی شامل کر دیا گیا۔ گرفتاریاں ہوئیں تو قسور رضی کا بھائی شکیل جیل پہنچ گیا۔

شاہ جی کا امتحان شروع ہوا۔ پہلا دکھ ان کی جھولی میں آن گرا۔ قسور رضی بھائی کو بچانے کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہو گئے۔ اس قسم کے سیاسی مقدموں کا جو انجام ہوتا ہے وہی اس مقدمے کا ہو ا۔ سب بے گناہ ثابت ہوئے، شکیل شاہ جیل سے گھر واپس آ گیا۔ لیکن وہ اپنے ساتھ جیل سے نشہ لے کر آیا تھا۔ قسور رضی نے بہت کوشش کی کہ شکیل نشہ چھوڑ دے مگر شکیل اسی حالت میں زندگی کی بازی ہار گیا۔ ایک نوجوان سیاسی کارکن کے جیون کی کہانی کا یہ درد ناک انجام تھا۔ قسور شاہ نے اپنے جواں سال بھائی کاجنازہ اٹھایا اس دکھ کو برداشت کیااوررفتہ رفتہ پھر زندگی میں واپس آ گیا۔ لیکن ابھی تو اس کی اپنی کہانی بھی درد ناک انجام کو پہنچنا تھی ابھی ایک اور صدمہ اس کا منتظر تھا۔

تین برس پہلے ایک ایسا دکھ قسور رضی کی جھولی میں آن گرا کہ جسے سنبھالنے کی اس میں ہمت ہی نہیں تھی۔ شاہ جی کا جواں سال بیٹاعلی مشہد یونیورسٹی سے واپسی پر موٹرسائیکل حادثے میں جان کی بازی ہار گیا۔ ہنسنے کھیلنے والے اور مزدوروں کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والے قسور شاہ کواس روز سے چپ لگ گئی۔ وہ محفلوں سے دور ہو گئے اور ہماری شاہ جی سے ملاقاتیں ختم ہوگئیں۔اس حادثے کے بعد کئی روز تک توہم ان کاسامنا کرنے کی ہمت نہ کرسکے کہ جیسے ان کے بچے کو ہم نے مارا ہو۔پھر ایک روز ہم گلگشت کالونی میں ان کے اسی مکان پہنچے جس کے باہر ایک چھوٹا سا برآمدہ تھا اور جہاں ہم نیاز کھانے بھی جایا کرتے تھے اس شب شاہ جی کی آنکھوں میں سوائے آنسوﺅں کے کچھ نہ تھااورایک شکوہ تھا، ایک مسلسل شکوہ اورایک ایسی کیفیت تھی احتجاج کی کہ جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہیں اچھا نہیں لگا تھا کہ ہم انہیں پرسہ دینے آئے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہی نہیں تھے کہ کوئی ان کا دکھ بانٹے۔ ایک شدید ردعمل تھا ان کے ہاں اور اگرکوئی کہتا تھا کہ شاہ جی حوصلہ کریں شاہ جی ہمت کریں، شاہ جی صبرکریں تووہ بھڑک اٹھتے تھے ” مجھ سے ہمت نہیں ہوتی، میں صبر کیسے کروں؟ نہیں ہوتا مجھ سے صبر “ یا پھر ان کاجملہ یہ ہوتا تھا کہ ”صبر ہی تو کئے بیٹھا ہوں اور کتنا صبر کروں“۔ شاہ جی کے عقائد کو اور شاہ جی کی سوچ کو شدیدضرب پہنچی تھی۔ اس حادثے کے بعد ہم نے ان سےوہ ناگفتنی بھی سنی تھیں جو عام حالات میں وہ کبھی بھی زبان پر نہ لاتے۔ پھرشاہ جی نے گلگشت والامکان ہی چھوڑ دیا۔ وہ مکان کہ جہاں ان کے بیٹے اوربھائی کی یاد تھی۔

شاہ جی نے گلگشت کو خیرباد کہا اور دوسری جگہ منتقل ہو گئے۔ نوازش علی ندیم، افتخارجعفری، اوردوسرے دوست انہیں گاہے گاہے ملنے جاتے رہے۔ پھر ایک طویل عرصہ ان سے ملاقات نہ ہوئی۔ معلوم ہوا کہ شاہ جی زیادہ وقت اپنے بیٹے کی قبر پر گزارتے ہیں۔ کوئی ایک سال بعد جب ایسا ہی حادثہ نوازش علی ندیم کو پیش آیا تو قسور رضی کا زخم بھی ہرا ہو گیا۔ اب شاہ جی اکثر نوازش کے پاس چلے جاتے تھے وہ کافی دیر اس کے پاس بیٹھتے تھے اسے حوصلہ دیتے تھے اور اپنا دکھ بھی بیان کرتے تھے۔ گزشتہ تین برس سے شاہ جی کے ساتھ ہماری ملاقاتیں نہ ہونے کے برابررہ گئی تھیں ہم جو انہیں تقریبات میں ملا کرتے تھے ہم جو انہیں ان کے ساتھ مشاعروں میں جاتے تھے یا کسی شادی کی تقریب میں ان سے ملاقات ہوتی تھی شاہ جی اب کہیں بھی نظر نہیں آتے تھے۔انہوں نے نوکری کو خیرباد کہا اور خود کو صرف اپنے بیٹے کی یاد کے لئے وقف کر دیا۔ شاہ جی سے اب تقریبات میں نہیں صرف جنازوں میں ملاقات ہوتی تھی اورآخری ملاقات کا بلاوا ہمیں آج آیا تھا۔ افتخارجعفری نے ایک روز پہلے دوستوں کو مطلع کیا کہ قسور شاہ کے لئے دعا کریں وہ نشترہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہیں لیکن شاہ جی کو اب دعاﺅں کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔ رات گئے وہ دکھوں سے آزاد ہو گئے لوگوں کے دکھ بانٹنے والا لوگوں کے دکھوں میں شریک ہونے والا مزدوروں اور محنت کشوں کی جنگ لڑنے والا بھٹو اور بے نظیر کا جیالا قسور رضی رخصت ہو گیا۔ رضی کو اپنے گلے لگانے والا رضی اسے ہمیشہ کے لئے چھوڑ گیا۔ اب رضی تنہا بیٹھا ہے اور اپنا نوحہ خود لکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).