پورن دیکھنے سے ازدواجی زندگی تباہ ہوتی ہے


یاد رہے کہ میں کئی دماغی بیماریوں کا شکار ہو چکی تھی۔ پتہ نہیں کیوں۔ 2 سال کم و بیش یونہی ہوتا رہا۔ ابھی دل بستگی کے لئے اور بھی سامان کرنا تھے۔ صاحب کو تو اسی ڈارک ویب پر ایک خانہ کھولا کہ جوانی کیسے واپس حاصل کی جائے۔ تو اس میں مجرب نخسہ نکالا کہ اپنی بیوی کو اپنے سامنے کسی دوسرے مرد کے ساتھ سلاؤ۔ اسی سائٹ پر کئی افراد اور جوڑے اپنی ضرورت اور خدمت کے لئے بیٹھے تھے۔ اور لائیو سین بھی دیکھنے کو ملتے تھے۔ 2012 کی جنوری سے میری ٹریننگ کا آغاز ہوا۔ دن رات مجھے لرزا دینے والی فلمیں دکھائی جاتیں۔ ہمبستری کے دوران میرا منہ ناک بند کر کے اس حالت تک پہنچایا جاتا کہ میں غیر مرد کے لئے بے جھجھک ہو جاؤں اور اسے اپنا نظارہ کرنے دوں اور اسے نام لے کر پکاروں کہ میرے پاس آؤ اور مجھے یوں برتو۔ یہاں پر ایک بات واضح کر دوں کہ مجھے پہلے ہی وارننگ دی جا چکی تھی کہ بات اگر باہر گئی تو وہ مجھے چوراہے میں لا کھڑا کرے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ میں نے بھی اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ بات کمرے میں ہی دفن رہے کیونکہ کمینے پن میں انسان پھر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

اسکائپ پر یہ تماشا چلتا رہتا اگر میرا مسلسل انکار نہ رہتا۔ یقین کریں یہ انکار میں نے اپنی عزت کے تحفظ کے لئے نہیں کیا تھا۔ مجھے اپنے شوہر کی محبّت نے یہ انکار کرنے پر مجبور کیا، خودی اور سلف ریسپیکٹ مجھ میں باقی ہی نہیں تھے۔ میں نے مذہبی، معاشرتی اور اس کام کے بعد پیدا ہونے والی ذہنی الجھن کے بارے میں تفصیل سے بات کی اپنے شوہر کے ساتھ مگر وہ مان کر نہیں دیا۔ جون 2012 میں ایک ایسا دن آیا کہ سکائپ پر نیم عریاں ہونے والی میں کو اس کے سامنے دھوکے سے لا بٹھایا گیا۔ مجھے ابھی بھی لگ رہا تھا کہ یہ امانت میں خیانت ہے اور میں یہ خیانت نہیں کر سکتی۔ اب وقت تھا کہ میں سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جاؤں۔ بھائی کو بتایا کہ یہ صورت حال ہے۔ اس نے مجھے اپنے گھر بلا لیا۔ مگر میں نہیں گئی۔

ناجانے کیسے میں لو / ہیٹ ریلیشن شپ سے باہر آ رہی تھی۔ مجھے کچھ ہوش آنے لگا تھا کہ میں ایک ماں بھی ہوں اور میرا شوہر میری بچیوں کے لئے بھی ایک خطرہ بن سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ڈپریشن کے علاج کا نتیجہ ہو کہ میں مثبت سوچنے لگی تھی یا پھر میرے اندر کی ممتا جاگ گئی تھی۔ 3 جوان بیٹیوں کو نیم پاگل تشدد پسند، جنسی بھوک کے مارے درندے کے پاس کیسے چھوڑ دیتی۔ پھر میں نے ہمّت کی اور بیٹے کو بتایا۔ اس نے باپ کے پیر پکڑے مگر وہ سفاک آدمی مکر گیا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ میرا ایسا کوئی تھری سم کرنے کا ارادہ نہیں۔ پی سی میں کمرہ بک ہو چکا تھا۔ میں ایک شام خاموشی سے وہاں لائی گئی۔ فون مجھ سے لے لیا گیا تھا۔ جسم پر انکار کی وجہ سے نیل تھے۔ سانس پھنس رہی تھی پسلیوں پر مار کی وجہ سے۔ پر میں نے حواس کو بحال کرتے ہوئے کمرے میں اس دوسرے مرد کے آنے سے پہلے شوہر کے فون سے چوری چوری بیٹے کو بچاؤ۔ میں پی سی میں ہوں۔ کا میسج کر دیا۔ بیٹا آیا۔ ہاتھا پائی ہوئی اور میں گھر آ گئی۔

اس کے بعد ایک الگ کہانی شروع ہوتی ہے کہ کیسے مجھے بد کردار ثابت کیا گیا اور میں کس کس خانگی عدالت میں رسوا کی گئی۔ جہاں ڈارک ویب پر ننھی کلیوں کو مسل کر روشن کی جاتی ہے تو وہیں ان کلیوں کی مائیں بہنیں اس آنکھوں کو اندھا کرنے والی آگ جیسی روشنی میں اندھیری زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ میں مجرم نہ ہوتے ہوے بھی ایک سوالیہ نشان ہوں کیونکہ میں زندہ ہوں۔ ایک عجیب سی شکل آج کل ذہن میں ابھرتی ہے جب ایسی ہی کسی کلی یا کسی پھول جیسے بچے کا ذکر ہو رہا ہو۔ مجھے ان بچوں میں اپنا آپ نظر آنے لگتا ہے۔ یقین جانیں خود کشی حرام نہ ہوتی تو میں اس اذیت سے چھٹکارہ حاصل کر لیتی مر کر۔ مجھے کوئی بچہ یا بچی چینختی سنائی نہ دیتی۔ مجھے اپنے آنسو جو اس وقت بھی بہ رہے ہیں۔ ۔ اپنی دو تصویریں میری نظر میں گھومتی ہیں۔ انھیں میں لفظ نہیں دے سکتی۔ شاید اسی لئے بچے مر جاتے ہیں۔ وہ کیا بتائیں اپنا احساس جب میں نہیں بتا پا رہی مکمل طور پر۔ میں سال بھر سے یہ مضمون لکھنا چاہ رہی تھی مگر ہمّت نہیں ہوتی تھی۔ ایک ذہنی کرب کو واپس اپنے روبہ رو کھڑا کرنا آج بھی اتنا ہی مشکل ہے۔

رحم میرے مالک رحم۔ اے طاقتورو رحم۔ اے بے شعور قوم کی فصل پیدا کرنے والو رحم۔ ننھی بچی نہیں بتا سکتی آپ صرف اندازے لگا سکتے ہو اور دکھی ہو۔ مجھ پر بیتی ہے۔ میری سن لو۔ اور اب کچھ کر لو۔ میری آواز میرے خاندان کے مردوں کی پگڑی اچھال دے گی اور عورتیں اپنا منہ چھپائیں گی۔ اس لئے بند تھی آج تک۔ مگر میں بھی کیا کروں یہ چپ میری جان لے بھی نہیں رہی اور جینے بھی نہیں دے رہی۔ سو میں بول پڑی۔

ان اندھیری سائٹس کا تعلق معاشیات کے طلب اور رسد کے قانون سے جوڑا جا سکتا ہے۔ مگر اس میں متوازن لچک نہیں ہے۔ یہاں طلب کا گراف رسد کے گراف کو سیٹ کرتا ہے۔ رسد اگر روک بھی دی جائے تو طلب کسی اور طرح پوری کر لی جائے گی۔ مثلا جو کچھ فلموں میں ہوتا ہے۔ گھروں میں ہو گا۔ چوک چوراہے چار دیواری کچھ بھی حفاظت نہیں کر پائیں گے۔ طلب کو بدلو۔ رویے بدلو۔ رواج بدلو۔ سماج بدلو۔ یہ تب ہی ہوگا جب خود کو بدلوگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2