پروفیسر شاہد حمید کی یاد میں


دو دہائیوں سے زیادہ ہو چلا ہے۔ مجھے ایک دفعہ پھر لاہور جانا پڑا،  جس کے لئے میں محترم آئی اے رحمان صاحب کا شکر گذار تھا۔ لاہور جا کر میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ لاہور میں شام کو گھر سے باہر نہیں جانا۔ بس گھر اور آفس (پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق)۔ لہذا اس پر سختی سے عمل کرتا تھا۔ ایک دن اپنے پرانے دوست زاہد ڈار سے ملاقات ہو گئی اس نے بتایا کہ وہ لوگ ہر اتوار کی شام کو پاک ٹی ہاوس ملتے ہیں تم بھی آیا کرو۔ اس طرح میں نے بھی ہر اتوار شام کو چار بجے پاک ٹی ہاوس جانا شروع کردیا۔ وہاں ہر ہفتہ انتظار حسین، چوہدری اکرام اللہ، مسعود اشعر اور پروفیسر شاہد حمید سے ملاقات ہوتی۔

میں ماڈل ٹاون کرائے کے مکان کے ایک حصہ میں اکیلا رہتا تھا، جتنے دن لاہور میں رہا عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کی۔ اس لئے مجھے اچھی طرح احساس ہے کہ عام آدمی کو کام پر جانے کے لئے کون کون سی مشکلات کا روزانہ سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لئے جب دانشور اور اشرافیہ کے لوگ میڑو کو ’جنگلا بس‘ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے تھے میں ’ماس ٹرانسپورٹ‘ کا زبردست حامی تھا اور ہوں۔ میں ڈاکڑ مبارک علی اور دوسرے دوستوں کے ساتھ نیر علی دادا کی نیرنگ گیلری میں بیٹھتا تھا تو وہاں پر بھی جنگلا بس کا مذاق اڑایا گیا تو میں نے وہاں پر موجود حضرات سے پوچھا کہ کیا ان میں سے کسی نے اس بس پر سفر کیا ہے تو سب کا جواب نفی میں تھا۔

یہ سارا ماجرا بتانے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے ماڈل ٹاون واپس جانے کا مسئلہ ہوتا تھا کیونکہ مال سے ماڈل ٹاون کوئی بس نہیں جاتی تھی اور مجھے اتنے پیسے نہیں ملتے تھے کہ میں رکشہ میں جاسکوں لہذا پروفیسر شاہد حمید مجھے ایک خاص مقام تک لفٹ دیتے تھے جہاں سے میں وین میں ماڈل ٹاون جاتا تھا۔

پھر یہ ہوا کہ پاک ٹی ہاوس بند ہو گیا اور ہم لوگ بے گھر ہو گئے۔ میکڈونلڈ اور آواری سے ہوتے ہوئے ہم نیر علی دادا کی نیرنگ گیلری پہنچ گئے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ دادا بہت بڑے آدمی ہیں اور دانشوروں اور لکھاریوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ خود بھی ہر ماہ کے آخری جمعہ کو اپنے دوستوں کو نیرنگ گیلری میں اکھٹا کرتے ہیں۔ جہاں پر ان کی موسیقی اور چائے سے خدمت کی جاتی ہے ۔

ہم جب نیرنگ گیلری پہنچ گئے تو پھر مسئلہ واپسی کا پیدا ہوا تو پھر پروفیسر شاہد حیمد نے مجھے گلبرگ صدیق سنٹر چھوڑنا شروع کردیا۔

چوہدری اکرام اللہ (جو کہ چوٹی کے افسانہ نگار ہیں) کا ذکر پھر کبھی۔ ان سے بڑے دل کا آدمی میں نے کم ہی دیکھا ہے جو سردیوں کی رات کے پچھلے پہر بھی خوشی سے اپنے دوستوں کو دس بیس میل دور چھوڑنے میں آج بھی خوشی محسوس کرتے ہیں۔

پروفروفیسر شاہد حمید ہر سال انگلینڈ اپنی بیٹی کو ملنے جاتے تھے اور واپسی پر اپنے دوستوں کے لئے تحفہ تحائف لاتے تھے۔ میں بھی ان سے متفیض ہوا ہوں۔ گو میرے اور ان کے مختلف نظریات تھے مگر وہ ایک دفعہ میرے لئے چی گویرا کے آخری وقت کے ساتھی کی کتاب لے کر آئے ۔

آپ کہیں گے کہ بھئی عجیب آدمی ہو ان کے تراجم کے بارے میں بات نہیں کرتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جو تراجم کئے ہیں ان پر بات کرنا کسی ادیب کا حق ہے۔ دوسرے دوست ان پر بات کریں گے اور کر رہے ہیں خاص کر ہمارے متحرک اور جوان دوست محمود الحسن روزانہ ان کے تراجم والی کتابیں فیس بک پر لگا رہے ہیں۔

میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرا شمار ان چند لوگوں میں ہے جن کو وہ اپنی ’آپ بیتی‘ کا ہر چیپڑ پڑھنے اور تبصرہ کے لئے بھیجتے تھے اور میں ان کی خواہش پر اس تحریر کو محترم آئی اے رحمان سے شیر کرتا تھا۔ زندگی میں جو انہوں نے سب سے بڑا کام کیا وہ انگریزی/اردو ڈکشنری ہے ۔ جو کہ ایک عرصہ سے ’ریڈنگز‘ لاہور کے پاس چھپنے کے لئے پڑی ہے۔ وہ نہایت محبت کے ساتھ اس کے بعض حصہ بھی مجھے پڑھنے کے لئے دیتے تھے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ان کی سوانح حیات ادب،  تاریخ اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص پڑھنی چاہے۔

میں روایتی طور پر یہ بات نہیں کہہ رہا کہ وہ عظیم انسان تھے اور درد دل رکھنے والے تھے۔ ان کا بیٹا لاہور کے ڈاکڑز ہسپتال کے مالکان میں شامل ہے جب بھی کسی دوست کو علاج کی ضرورت پڑتی پروفیسر شاہد حیمد اس میں ذاتی دلچسپی لیتے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک وہ مریض صحت یاب ہو کر گھر واپس نہ چلا جاتا۔

میں پچھلے ایک سال سے واپس لائلپور اپنے گھر آگیا ہوں مگر میں جب بھی لاہور جاتا تو ان کے ہاں ضرور حاضری دیتا گو ان سے فون پر اکثر بات ہوتی رہتی تھی۔

چند ہفتہ پہلے میں جب لاہور شمیم حنفی صاحب کا انڑویو کرنے گیا تو ان کے گھر گیا۔ ملازمیں مجھے اندر ان کے کمرے میں لے گئے میں نے دیکھا کہ وہ گہری نیند سو رہے ہیں۔ ملازمین نے بہت کہا کہ آپ ان کے جاگنے کا انتظار کریں مگر میں نے مناسب جانا کہ ان کا سونا ہی ان کے لئے بہتر ہے۔

جو ساتھی انتظار حسین کے ساتھ ہر ہفتہ نیرنگ گیلری بیٹھتے تھے ان میں سے سب سے پہلے عقیل روبی ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئی پھر انتظار حسین چلے گئے (ان کے بعد نیرنگ گیلری کی محفل ختم ہو گئی) اور اب ہم پروفیسر شاہد حمید ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ ان کا بیٹا ان کی ان کی ساری غیر مطبوعہ تحریروں کو شائع کروانے کا بندوبست کرے گا۔ یہ بھی امید ہے کہ ریڈنگز والے پروفیسر صاحب کی ڈکشنری جلد از جلد چھاپیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).