ایک ڈاکٹر کا نقصان مگر آئندہ نسلوں کا فائدہ


ڈاکٹر شاہد مسعود نے جب سے اپنے پروگرام میں زینب قتل کیس کے حوالے سے کچھ انکشافات کیے ہیں تب سے لے کر اب تک تمام میڈیا اس بات پہ مصر دکھائی دیتا ہے کہ کسی طرح بھی شاہد مسعود کی خبر کو غلط ثابت کیا جائے اور وہ اس خبر پر معافی مانگیں۔ کچھ دیر کے لئے فرض کرلیا جائے کہ شاہد مسعود کی خبر غلط ہے تو بتایا جائے کہ اس سے کس کا نقصان ہے؟ کیا اس قوم کا نقصان ہے جو آج تک ہر حکمران سے صرف جھوٹ اور جھوٹی خبریں سنتی آئی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہوگی، ہر شخص کو انصاف ملے گا، صاف پانی ملے گا، صحت و تعلیم ملے گی، جان و مال کا تحفظ ملے گا وغیرہ وغیرہ۔ اور بدلے میں اس قوم کو ملتی ہے تو بیماری، دہشت گردی، لوٹ مار، بے روزگاری اور جہالت۔

ایک قاری، سامع، ناظر اور عام پاکستانی ہونے کے ناطے میرے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اس قوم کے ساتھ آج تک صرف سچ کس نے بولا ہے؟ حکمرانوں سے لے کر ایک ریڑھی والا تک سب جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں۔ سب غلط بیانی بھی کرتے نظر آتے ہیں سب کی خبریں بھی غلط ثابت ہوتی ہیں۔ ان سب کو نظر انداز کرکے ایسا کیا ہے درپردہ جو ایک اینکر کی جان کو سب درپے ہوگئے ہیں۔ میں صحافی نہیں ہوں نہ ہی میرا اتنا مطالعہ وسیع ہے نہ ہی میں اتنا باخبر ہوں جتنا ایک صحافی ہوتا ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ کیا تمام صحافی برادری میں صرف ڈاکٹر شاہد مسعود کی خبر ہی غلط ثابت ہوئی ہے؟ کیا کسی صحافی نے آج تک کبھی غلط بیانی نہیں کی؟ کیا سب فرشتے ہیں؟ اگر ہاں تو ٹھیک ہے آگے بڑھئیے اور شاہد مسعود پر زمین تنگ کردیجئے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر موقع دیجئیے کسی کی ایک خبر غلط ہوجانے پر اتنا واویلا اگر مچایا جارہا ہے تو یقینی طور پر دال میں کچھ کالا ضرور ہے کیونکہ اسی ملک کے کچھ چینل، کچھ اخبارات، کچھ صحافی حضرات ریاست مخالف، فوج مخالف اور نہ جانے کیا کچھ لکھ چکے ہیں کیا اس وقت بھی ان کے خلاف تمام برادری اسی طرح منظم نظر آئی تھی؟
میڈیا جو کسی بھی ریاست کا ایک مضبوط ستون تصور کیا جاتا ہے اپنا قبلہ کب درست کرے گا کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کرنے کی کوئی کوشش نظر آتی ہے۔ بس ایک اسٹوری درکار ہوتی ہے اور پھر تمام میڈیا اس اسٹوری کو اپنی اپنی تشریحات دیتا نظر آتا ہے۔ ہمارا میڈیا ہاٹ کیک کا دیوانہ ہے بس ایک مقابلہ ہے جو جاری ہے۔ سب سے پہلے خبر دینے کے جنون میں نہ جانے کیا کیا بتا دیا جاتا ہے اس کی طرف کسی نے کبھی خیال تک نہیں کیا۔ آپ کہیں بھی کسی دھماکہ کی خبر سن لیں ابتدائی خبر جس کی ابھی تصدیق بھی نہیں ہوپاتی پورے وثوق کے ساتھ سامعین کے کانوں میں انڈیل دی جاتی ہے کہ فلاں جگہ ایک زوردار دھماکہ سنا گیا ہے۔ دھماکہ بہت شدید نوعیت کا تھا خود کش تھا یا کسی نے نصب کیا تھا یہ اب تک ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ بعد میں چاہے وہ دھماکہ گیس سلنڈر کا نکلے مگر قربان جائیے ان کے زور اطلاعات پر کہ سامع کا دم تو نکال ہی دیتے ہیں۔

سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ایسی خبریں دینے سے ڈاکٹر صاحب کی ساکھ متاثر ہوگی یا ہو گئی ہے تو ایک سوال یہ بھی تو ہے کیا یہ وہی میڈیا نہیں ہے جو ملک کے اہم مسائل پر بات کرتے وقت تو وقت کا خیال رکھتا ہے اور ان گنت اشتہارات دکھانا اپنا فرض سمجھتا ہے لیکن لاحاصل پریس کانفرنسز اور لمبی لمبی تقریریں بنا وقفہ دکھاتا ہے اس وقت تو نہ اشتہارات کا خیال ہوتا ہے نہ وقت کا۔ کیا یہ بے وثوق خبریں سنانے اور کسی فرد واحد کی خاطر اپنے سامعین کو مصروف رکھنے سے میڈیا کی ساکھ متاثر نہیں ہوتی؟

میں یہ نہیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب کی خبر سو فیصد درست ہے یا ہوگی یا ماضی کی طرح ان کی کئی خبروں کی طرح یہ بھی دھبڑ دھوس ہوجائے گی یا ہو گئی ہے۔ یہاں سوال خبر کی نوعیت اور حساسیت کا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کرلیں کہ ڈاکٹر صاحب نے جو کہا غلط کہا، جھوٹ کہا تو کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ زینب اور اس جیسی کئی بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا اور اب تو ایف آئی اے نے کچھ ملزمان بھی پکڑ لئے ہیں جو ویڈیوز بناتے اور بیچتے ہیں یعنی یہ مذموم دھندہ ہو تو رہا ہے کیا اس سے بھی انکار کیا جاسکتا ہے؟

میں ایک عام پاکستانی ہوں جو روزوشب دیکھتا ہوں، سنتا ہوں اسے اپنی ناچیز رائے کے مطابق پیش کررہا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ صحافت کے زرین اصول کیا ہیں اور کون کون ان پر عمل پیرا ہے؟ مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی خبر پانامہ اسکینڈل کی اطلاع کی طرح ہے۔ وہ بھی صرف ایک اطلاع تھی مگر جب ان ممالک نے کہ جن ممالک کے افراد کے نام اس اسکینڈل میں آئے تھے تفتیش کی تو دیکھئے کیا کچھ نکل آیا ورنہ نواز شریف، خواجہ آصف اور دیگر کے اقاموں کا کس کو پتہ چلنا تھا۔

میری ناچیز رائے کے مطابق خبر سے زیادہ ڈاکٹر صاحب کی نیت پر شک کرنا کہ وہ ایسا صرف شہرت کے حصول کے لئے کر رہے ہیں غلط ہے کیوںکہ یہ کوشش کوئی گمنام شخص کرے تو سمجھ آتا ہے اور ان کی اس خبر یا اطلاع یا جو کچھ بھی ہے کو صرف اس طرح سے لیا جائے جیسا کہ پانامہ کی اطلاع تھی۔ تحقیقات ہونے دیں کچھ دن انتظار کریں جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھیں گی حقائق سامنے آتے چلے جائیں گے۔ ثابت ہوجائے گا کہ ڈاکٹر صاحب غلط تھے یا جو ان کو غلط کہہ رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ کسی کو مطعون کرنے میں جلدی نہ کریں کیونکہ ڈاکٹر صاحب اگر غلط نکلے تو کسی کا نقصان نہیں ہے صرف ان کا اپنا نقصان ہوگا لیکن اگر ان کی خبر درست ہے اور اس گروہ کا سراغ لگا کر اداروں کی جانب سے اس گروہ کی بیخ کنی کی جاتی ہے تو ہماری نسلوں کا فائدہ ہوگا ہمارے بچوں کا فائدہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).