اراکین پارلیمان میں وطن کی محبت جگانے کے لئے ایک تجویز


آپ نے اکثر نوٹ کیا ہو گا کہ بھارتی سیاستدان اپنے ملک کے امیج کے بارے میں نہایت حساس ہیں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ انڈین نیشنل کانگریس کی برطانیہ یا امریکہ میں شاخ ہو، یا بی جے پی نے سعودی عرب یا امارات میں اپنی پارٹی کے دفاتر کھولے ہوں۔ جب بھی کوئی بھارتی وزیراعظم ان ممالک کا دورہ کرتا ہے تو تمام بھارتی اپنی اپنی سیاسی وابستگی کو طاق میں رکھتے ہیں اور اس کو اپنے ملک کا وقار سمجھ کر اس کا استقبال کرتے ہیں۔

یہی سیاستدان جب خود کسی دوسرے ملک کے دورے پر جاتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی یا ناروا سلوک کیا جائے تو پوری کی پوری پارلیمان اسے بھارت کا اپمان قرار دے کر اس دوسرے ملک کے ساتھ قرار واقعی سلوک کرتی ہے۔ لوک سبھا کے سپیکر کو امریکی ائیرپورٹ پر تنگ کرنے کے بعد جب امریکیوں کے ساتھ یہی سلوک بھارتی ائیرپورٹس پر کیا جانے لگا تو دونوں ممالک کے تعلقات میں خاطر خواہ بہتری آئی۔

لیکن پاکستانی کابینہ جب جنرل مشرف کے دور میں امریکہ کے سرکاری دورے پر گئی اور سب نے ہاتھ بلند کر کے اور پتلونوں کی بیلٹیں اتروا کر تلاشی دی تو اس پر مخالف سیاستدانوں نے اسے پاکستانی ریاست کی توہین سمجھنے کی بجائے اپنی مخالف سیاسی پارٹی کی توہین سمجھا اور خوب خوش ہوئے۔ جب پاکستانی وزیراعظم دوسرے ممالک کے دورے پر جاتے ہیں تو مخالف سیاسی پارٹیوں کے ان ممالک میں موجود کارکن ان کا استقبال پاکستانی ریاست کی علامت کے طور پر نہیں بلکہ مخالف سیاسی پارٹی کے لیڈر کے طور پر کر کے ملک کے لئے خفت کا باعث بنتے ہیں۔ ان غیر ملکی سیاسی شاخوں کو ہمارے اراکین پارلیمنٹ ہی ہلہ شیری دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر بھارتی اور پاکستانی سیاسی رویوں میں اس بڑے فرق کی کیا وجہ ہے؟ ہم اپنا رویہ بھارتی شہریوں اور سیاستدانوں جیسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم نے اس معاملے پر خوب غور کیا اور دو چار ذی شعور دوستوں کی رائے بھی لی تو مسئلہ اور اس کا حل ہماری سمجھ میں آ گیا۔

ہم نے نوٹ کیا ہے کہ تمام بھارتی سیاستدان ایک دوسرے سے ملتے ہوئے ”نمستے“ کی بجائے ”جے ہند“ کہتے ہیں۔ کم از کم فلموں میں دکھائے جانے والے بھارتی سیاستدان یہی کرتے ہیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اسی وجہ سے وہ بھارت سے اتنے زیادہ مخلص ہیں۔

ہمارا مشورہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کے بارے میں ضابطہ اخلاق بنایا جائے کہ وہ کسی دوسرے پاکستانی دیکھتے ہی زور سے ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ لگائیں۔

شروع شروع میں کچھ مشکل ہو گی۔ مگر افواج پاکستان کی مدد حاصل کی جائے تو ایک ایک حوالدار قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ڈیپوٹیشن پر بھیجا جا سکتا ہے جو اراکین پارلیمنٹ کو ویسے ہی ”پاکستان زندہ باد“ کہنے کی تربیت دے گا جیسے وہ رنگروٹوں کو ”یس سر“ کہنے کی دیتا ہے۔ بلکہ سیاستدانوں کو پہلے ”یس سر“ کہنے کی تربیت دی جائے اور اس کے بعد  ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ لگانے کی۔

اس کے لئے صبح سات سے چھے بجے کا وقت مقرر کیا جا سکتا ہے۔ حوالدار تمام اراکین کو روزانہ ورزش اور پریڈ کروا کروا کر نہ صرف زیادہ صحت مند بنا دے گا بلکہ گلا پھاڑ پھاڑ کر ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگانے کے سبب ان کو اجلاس کے اندر با آواز بلند اپنا موقف پیش کرنے کی عادت بھی پڑ جائے گی۔

یہ لیڈر شپ کے لئے بھی مفید ہو گا۔ اراکین کو اپنے لیڈر کی تابعداری کی عادت پڑ جائے گی اور یہ جو چند سر پھرے استعفے دیتے پھر رہے ہیں ان کی بری عادتوں کا سد باب بھی ہو جائے گا۔ ان میں حب الوطنی بھی پیدا ہو گی۔ اس کے علاوہ اس تربیت کے نتیجے میں سیاستدانوں کو ملکی مفاد کا حکم دیکھتے ہی یس سر کہنے کی عادت بھی ہو جائے گی اور ان کے دماغوں سے خود کو حکمران سمجھنے کا خناس بھی نکل جائے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar