حضور! کہاں ہیں وہ ذرائع؟


وقت ایسے ایسے کرشمےدکھاتا ہے کہ انسان بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ دنیا کا دستور ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نت نئے تماشے لگتے رہتے ہیں اور پرانے تماشے اپنی کشش کھوتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نیا تماشہ کسی پرانے تماشے کی یاد تازہ کر دیتا ہے ۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کا لگایا ہوا نیا تماشہ ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے قصور والے واقعے میں “نئے انکشافات” کر دئیے جس کے بعد صحافت کی اخلاقی اقدار پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات پر فی الفور ازخود نوٹس لیتے ہوئے انہیں اور ان کے ساتھ پاکستانی صحافت کے چند اورخواتین و حضرات کو بھی عدالت میں طلب کر لیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے دعویٰ کے حق میں ٹھوس دلائل اور ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ عدالت میں موجود صحافیوں اور اینکر حضرات نے ڈاکٹر صاحب کو غیر مشروط معافی مانگنے کا مشورہ دیا مگر ڈاکٹر صاحب نے اسے بھی ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے انکشافات پر اصرار جاری رکھا۔ حکمراں جماعت کے ترجمانوں نے ان پر تفتیش کا رخ بدلنے اور ملک میں سنسنی پھیلانے جیسے الزامات لگائے۔ بادی النظر میں یہ الزامات غلط بھی نظر نہیں آ رہے۔ ایک عجیب و غریب صورت حال بن چکی ہے۔ قوم کے اذہان میں شکوک و شبہات جنم لے چکے ہیں۔ دبی دبی آوازوں میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے لگائے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ بھی ہو رہا ہے۔

اصل تماشہ مگر تب شروع ہوا جب ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف ایک مہم میڈیا میں شروع ہو گئی۔ خاص طور سے ایک مخصوص میڈیا گروپ کے متعدد صحافی اور اینکر خواتین و حضرات ان کی مذمت میں پیش پیش ہیں۔ ان کے مطابق ڈاکٹر شاہد مسعود کی وجہ سے صحافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کسی کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے پیچھے عرصے سے منظم سازش چلانے والا دکھائی دے رہا ہے تو کسی کو ان کے پیچھے خفیہ آہنی ہاتھ دکھائی دے رہے ہیں۔ کسی کو بے لگام میڈیا پریشان کر رہا ہے اور وہ میڈیا کے شر سے پناہ مانگ رہا ہے تو کسی کو میڈیا کے المیے ستا رہے ہیں۔ ہر کوئی ڈاکٹر شاہد مسعود کو جھوٹ بولنے پر خطاوار سمجھ رہا ہے اور ان کو میڈیا کے نام پر ایک دھبہ سمجھ رہا ہے۔ اس کالم کو لکھنے کا مقصد ڈاکٹر شاہد مسعود کا دفاع کرنا ہرگز نہیں اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب کے انکشافات کو لے کر کوئی نیا نکتہ اٹھانا ہے۔ بس ایک سوال ہے جو ذہن میں مسلسل چبھ رہا ہے۔ اس کالم کے توسط سے بس وہ سوال سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کیا نیا کر دیا ہے؟ کیا یہ ہماری قوم کا مزاج نہیں ہے؟ کیا ہم لوگ جھوٹ نہیں بولتے؟ کیا ہم لوگ سنی سنائی باتوں کو بغیر سوچے سمجھے، بغیر تصدیق کیے آگے نہیں پھیلا دیتے؟ کیا ہمارا سب سے بڑا سچ ، سب سے بڑا سچائی کا ذریعہ ، سب سے بڑی تصدیق “فارورڈ ایز ریسیوڈ” نہیں ہے؟ کیا ہم سنسنی کو پسند نہیں کرتے؟ کیا ہم چٹ پٹی اور چسکے دار خبروں کے رسیا نہیں ہیں؟ کیا ہم سنجیدہ موضوعات پر دھیان دیتے ہیں؟ کیا ہمیں ہمہ وقت نئی سے نئی دلچسپیاں نہیں چاہئیں؟ اور کیا ہم اپنی تفریح طبع کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار نہیں رہتے؟ اور کیا ہم ایسی قوم نہیں جو اندھی عقیدت میں مبتلا ہے؟ کیا ہم ایک ڈسپوزایبل زندگی نہیں گذار رہے؟ تو اگر ایسے میں ایک غیر سنجیدہ اینکر نے ہمارے مجموعی قومی مزاج کا مظاہرہ کیا ہے تو اس میں کون سی نئی بات ہے؟

 اب آئیے اس پرانے تماشے کی طرف جس کی یاد ڈاکٹر شاہد مسعود کی وجہ سے تازہ ہو گئی۔ شاید آپ لوگوں کو یاد ہو گا کہ اپریل 2016 میں ایک عالمی اسکینڈل منظر عام میں آیا تھا۔ ہم سب اس کو پانامہ لیکس کے نام سے جانتے ہیں۔ اس اسکینڈل میں پاکستان کے کافی لوگوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی اولادوں کے نام بھی پانامہ اسکینڈل میں سامنے آئے تھے اور ان کی جائیدادوں کا انکشاف ہوا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ کیا آپ سب کو مریم نواز کا وہ انٹرویو یاد نہیں جس میں وہ کہ رہی تھیں کہ ان کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ پتا نہیں لوگ کہاں سے ان کی اور ان کے بھائیوں کی جائیداد سامنے لے آئے ہیں۔ اور پھر کیا آپ کو حسین نواز کا وہ انٹرویو بھی نہیں یاد جس میں وہ الحمدللہ کی تکرار کے ساتھ اپنی جائیدادوں کا اقرار کرتے رہے تھے۔ اور کیا آپ کو اپنے کاروبار اور جائیدادوں کے دفاع میں نواز شریف کا قوم سے اور پھر قومی اسمبلی میں خطاب بھی یاد نہیں؟ کیا آپ وہ مشہور جملہ بھول گئے ہیں “حضور! یہ ہیں وہ ذرائع”۔ پھر ان ذرائع کے نام پر سپریم کورٹ میں قطری خط، کیلبری فونٹ والی جعلی ٹرسٹ ڈیڈ اور دبئی اسٹیل مل کی جعلی سیل ڈیڈ جمع کروانا بھی نہیں یاد؟ یقیناً یہ سب کچھ یاد نہیں ہو گا۔ ہمیں بس یہ یاد ہے کہ پانامہ کی بجائے اقامہ پر نااہل کر دیا گیا۔ ہمیں یاد ہے تو صرف یہ کہ پانامہ بنچ کے پانچ جج حضرات نے نواز شریف کو نا اہل کرنے کا بہانہ ڈھونڈا۔ یہ نہیں یاد کہ نیب میں بدعنوانی کے مقدمے چل رہےہیں مگر حضور نے وہ ذرائع اب تک مہیا نہیں کیے ۔

وہ تمام صحافی اور اینکر حضرات جو نواز شریف کی نا اہلی کے بعد انہیں بے قصور اور معصوم لکھتے اور کہتے رہے ہیں وہی لوگ اب ڈاکٹر شاہد مسعود کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ کمال کے لوگ ہیں۔ سمجھتے ہی نہیں کہ جس شخص کی مظلومیت کا مقدمہ وہ زور و شور سے میڈیا میں لڑ رہے ہیں اسی کے نقش قدم پر چلنے والے شخص کو وہ قصور وار سمجھ رہے ہیں۔ میں ان کو منافق ہرگز نہیں کہتا مگر کاش وہ لوگ یہ سمجھ سکیں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے صرف خاندانِ شریفیہ کی پیروی کی ہے۔ اس سے زیادہ اس بے چارے کا اور کوئی قصور نہیں۔ اور اس قصور پر ان کو زیادہ سے زیادہ نااہل اینکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور ممکن ہے اس کے بعد وہ تمام لوگ جو ڈاکٹر شاہد مسعود کی مخالفت اور مذمت کر رہے ہیں وہی ان کے حق میں آواز بلند کرنا شروع کر دیں ۔ اور کیا بعید کہ میڈیا سےممکنہ نااہلی کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود بھی “مجھے کیوں نکالا” والا “علم حق” بلند کر کے عوام سے رجوع کر لیں۔ عوام میں تو وہ ویسے بھی خاصے “مقبول” ہیں۔

تو جناب آپ لوگ ڈاکٹر شاہد مسعود کی مذمت کریں۔ ان پر تنقید کریں۔ ان کے جھوٹ اور من گھڑت انکشافات پر انگلی اٹھائیں۔ ان کی ایسی کی تیسی پھیر کر رکھ دیں۔ یہ آپ کا حق ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ قومی اسمبلی میں “حضور! یہ ہیں وہ ذرائع” والی تقریر کرنے والوں سے بھی تو سوال کریں کہ “حضور! کہاں ہیں وہ ذرائع؟”۔ میرے پیارے صحافی اور اینکر خواتین و حضرات ! یہ آپ پر قوم کا قرض ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad