عورتیں کم عقل، جلد باز اور بے صبری ہوتی ہیں: دارالعلوم دیوبند


احباب اکثر سوال کرتے ہیں کہ میں صرف دارالعلوم دیوبند کے فتاوی پر ہی گرفت یا تنقید کیوں کرتا ہوں؟ میرا جواب سیدھا سا ہے اور وہ یہ کہ دارالعلوم دیوبند برصغیر میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی آبادی کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ میری رائے میں جس ادارے کے متعلقین اور پیروکار جتنے زیادہ ہوتے ہیں اس کی ذمہ داری اتنی ہی زیادہ ہوجاتی ہے۔ یوں بھی کم از کم بھارت اور پاکستان میں دیوبندی نظریات کو ہی غیر مسلم حلقے اصل اسلامی نظریات سمجھتے ہیں اس لئے اس کی ہر رائے کو نپا تلا ہونا چاہئے۔ سامنے کی مثال ہے، بیک وقت تین طلاق دینے کا حکم حنفی فقہ کا حصہ ہے لیکن میڈیا اسے اسلام کا شرعی حکم سمجھتا رہا۔ کسی نے جاننے بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ اہلحدیث اور شیعہ فقہا کے نزدیک یہ غیر شرعی ہے۔ خیر موضوع پر لوٹتا ہوں۔ بیک وقت تین طلاق کے معاملہ کی بھارتی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے بتایا کہ اسلام میں خواتین کو طلاق کا حق کیوں نہیں ہے؟ حلف نامے میں جو وجوہات بیان کی گئیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ خواتین جذباتی اور فیصلہ کرنے کے معاملہ میں کمزور ہوتی ہیں اس لئے ان کو طلاق کا حق نہیں ہے۔ اس حلف نامہ پر میڈیا میں خوب بھد پٹی۔ وہ مقدمہ تو پرسنل لا بورڈ ہار گیا لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے کچھ فتاوی پر نظر ڈال لی جائے۔

دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء نے سوال نمبر 151566 کے جواب میں صادر فتوے میں فرمایا کہ شوہر کو طلاق کا اختیار اس لیے دیا تاکہ طلاق کم سے کم واقع ہو کیونکہ عورت جلدباز ہوتی ہے اور بسا اوقات بغیر سوچے کوئی فیصلہ کرلیتی ہے اور بعد میں اسے افسوس ہوتا ہے اس کے بالمقابل مرد نتیجے پر بھی غور کرتا ہے،اسی طرح خلع میں بھی عورت آزاد نہیں ہے بلکہ خلع کے صحیح ہونے کے لیے بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔

ذرا دیر کو دماغ ٹھنڈا کرکے اس فتوے کو بار بار پڑھئے اور بتائیے کہ اس میں جو منطق بیان ہوئی ہے وہ اگر صحیح ہوتی تو کیا ہوتا؟ ظاہر ہے اگر واقعی مرد ہمیشہ تدبر پسند اور معاملہ فہم ہوتے ہیں اور خواتین جلد باز اور اکثر نا سمجھ، تو یقینی طور پر مسلمانوں میں طلاق کے واقعات نہ کے برابر ہونے چاہئیں تھے کیوں کہ ہمارے یہاں طلاق کا حق مرد کو ہی ہے۔ اتنا ہی نہیں غصے میں تین طلاق دینے کے معاملات بھی نہیں سامنے آنے چاہئیں تھے۔ کیا وجہ ہے کہ آئے دن ہم طلاق کے واقعات سنتے ہیں جن میں سے اکثر یکطرفہ اور بنا سوچے سمجھے ہوتی ہیں؟۔

اتنا ہی نہیں سوال نمبر 51684 کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں فرمایا گیا ہے کہ شریعت اسلام میں طلاق دینے کا حق صرف شوہر کو دیا گیا ہے، عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا گیا ہے، عورت میں عقل اور صبر کم ہوتا ہے اس لیے اللہ نے اس کو طلاق دینے کا اختیار نہیں دیا۔

اب اس فتوے کو بھی لے لیجئے۔ فرمایا گیا ہے کہ عورت میں عقل اور صبر کم ہوتا ہے اس لئے اسے طلاق کا حق نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ مرد میں عقل اور صبر زیادہ ہے اس لئے اسے طلاق کا حق ہے۔ بہت اچھے، اب ذرا بتائیے کہ دال میں نمک کم ہونے پر طلاق، شوہر کا فون کاٹنے پر طلاق یہاں تک کے معمولی گھریلو بحث میں طلاق طلاق طلاق کہہ کر بیوی کو نکال دینے واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟ یہاں اس عقل اور صبر کا کیا ہوا؟

مزے کی بات یہ ہے کہ مفتیان کرام کا سارا استدلال ان نکات پر ہے کہ مرد جلد باز اور کم عقل نہیں ہوتا اس لئے اس کو حق طلاق کے معاملہ میں عورت پر ترجیح ہے۔ اب ذرا دیکھئے کہ جلدبازی اور نتیجہ پر نظر کی منطق سے چل کر کہاں تک بات لے آئی گئی۔ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے سوال نمبر 146104 کے جواب میں جاری فتوے کے مطابق اگر کسی نے اپنی رضامندی سے بالقصد کسی حرام نشہ آور چیز کا استعمال کیا اور اسے نشہ طاری ہوگیا، پھر نشے ہی کی حالت میں اُس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، تو تینوں طلاقیں بلا شبہ واقع ہو جائیں گی۔

مندرجہ بالا فتوے کو پڑھتے وقت نہ بھولنا چاہئے کہ مفتیان عورت کو حق طلاق نہ دیئے جانے کا سبب جلدی میں فیصلہ لینے اور نتیجہ پر نظر نہ کرنے کی مبینہ عادت کو بتا رہے تھے۔ اب انتہائی ادب سے انہیں مفتیان سے معلوم کیا جانا چاہئے کہ ایک شخص نشے کے عالم میں بیوی کو طلاق دے رہا ہے اس وقت وہ کون سے صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے اور کون سے نتیجہ پر نظر کرنے کی حالت میں ہے؟ یہاں پر عرض کر دیا جائے کہ نشے کے عالم میں انسان کو اس کا بھی ہوش نہیں رہتا کہ وہ بستر پر لیٹا ہے یا نالی میں لوٹ لگا رہا ہے، اقوال زریں سنا رہا ہے یا گالیاں بک رہا ہے ایسے میں کون سا حسن ظن لایا جائے جو یہ مانا جائے کہ نشے کے عالم میں طلاق دینے والا تدبر، معاملہ فہمی اور صبر کو کام میں لانے کے بعد طلاق دے رہا ہے؟

عورت کو ناقص العقل بتانے میں دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء نے کسی بھی فتوے میں معمولی سی جھجک بھی نہیں دکھائی ہے۔مثال کے طور پر سوال نمبر 24932 کے جواب میں دیئے گئے فتوے میں واضح طور پر کہا گیا کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے۔

میں مفتیان کے اس جمہوری حق کا احترام کرتا ہوں کہ وہ عورت کو ناقص العقل، جلد باز، بے صبری اور نتائج پر نظر نہ کرنے والی مان سکتے ہیں لیکن ان کی یہ رائے جب فتوے کے نام پر دنیا کے سامنے آتی ہے تو اس سے لوگوں کو اسلام کے عورت کے بارے میں تصورات پر انگلی اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter