جنسی ہراسانی اور روشن خیال مرد


جنسی ہراسانی کا کیس جو پچلے دو برس سے خبروں میں تھا۔ بالاخر اپنے انجام کو پہنچا – نامور ادیب پروفیسر سحر انصاری پر ساتھی ٹیچر ڈاکٹر نوین حیدر کو جنسی طور پر حراساں کرنے کا الزام ثابت ہوا اور ان پر کراچی یونیورسٹی کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوئے۔ سب سے پہلے تو میں شکر گزار ھوں ڈاکٹر نوین کی اور ان کی لیگل ٹیم “قاف سے قانون” کی اور ان تمام خواتین کی جنہوں نے اس کیس کو اپنے قانونی انجام تک پہنچانے تک ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہم عورتوں کو امید کی ایک کرن دی۔

ہر عورت کے پاس جنسی ہراسانی کی ایک یا دو کہانیاں ضرور ہوتی ہیں جو یا اس کی چند سہیلیوں تک محدود رہتی ہیں یا پھر وہ انھیں اپنے دل میں دبائے دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں- کچھ میرے جیسی ہوتی ہیں جو صحیح وقت کے انتظار میں برسوں خاموش رہتی ہیں۔ بہت کم عورتیں یہ حوصلہ رکھتی ہیں کہ اپنے گناہ گار کو سزا دلوانے کے ہر لیگل فورم پر جا کر انصاف مانگیں کیونکہ یہ سفر بہت تھکا دینےوالا ہوتا ہے اور اکثر عورتیں خود کو اس میں تنہا پاتی ہیں- کیوںکہ خود پر ہوئے ہر جرم کو ثابت کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ عورت پر ہی ہوتی ہے۔ جنسی ہراسانی میں عورت کو اک آگ کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اکثر ہراسانی کے کیسز میں ثبوت نہیں ہوتے- کسی نے کولہوں پر ہاتھ مار دیا، کسی نے دبوچ لیا، کسی نے اپنی پتلون کی زپ کھول دی- کسی نے نظروں سے ننگا کیا ان سب باتوں کا پروف کوئی کہاں سے لائے؟ ایسے میں کوئی عورت ہمت کرتی ہے تو ہم اسے ہی مجرم قرار دے دیتے ہیں-

میں اس کیس کے بارے میں 2016 میں ہی لکھنا چاہتی تھی جب یہ منظر عام پر آیا اور ڈاکٹر نوین کی کردار کشی ہوتے دیکھی- کیوں کہ میں جانتی تھی کہ کردار کشی کے وہ الزامات غلط ہیں- ایک تو میں ذاتی طور پر جانتی ھوں کہ وہ کس کردار کی عورت ہیں دوسرا عمر کے اس حصے میں عورت اپنے سر پر خاک کیوں ملے گی بھلا۔ خاص طور اس وقت جب وہ سرطان جیسی موذی بیماری سے لڑ رہی ہو اور زندگی کے اس موڑ پر کھڑی ہو جہاں اہم فیصلے کرنے ہوں کہ کس قسم کی ٹریٹمنٹ لینی ہے اپنی زندگی بچانے کے لیے۔ جو سازش جوانی میں ادارے میں رہ کر نہ کی وہ اچانک زندگی کے اس نازک موڑ پر کیوں کرے گی؟

یہ ساری باتیں یہاں بتانا اس لیے ضروری ہیں تاکہ لوگ یہ جان سکیں کہ جنسی ہراسانی پر انصاف مانگنے والی عورتیں کوئی فلمی ویمپ نہیں ہوتیں جو بیٹھ کر سازشیں بنتی ہیں بلکہ مختلف مسائل میں گھری عام عورتیں ہوتی ہیں اور ہم ان کی کردارکشی سے کس طرح ان کی اذیت میں مزید اضافہ کرتے ہیں- چوںکہ ہراسانی کا الزام لگانے والی سے میرا قریبی تعلق ہے میں نے ارادہ ترک کر دیا کہ کہیں میری سٹوری کو سحر انصاری کے خلاف پروپیگنڈا قرار نہ دے دیا جائے۔ اور کسی بھی وجہ سے یہ کیس کمزور نہ ہو جائے- اس خوف کی وجہ مردوں کا وہ گروہ تھا جو سحر انصاری کا دفاع ایسے کر رہا تھا گویا اردو ادب کا دفاع کر رہا ہو- اور ایک جارحانہ کردار کشی کی مہم میں سرگرم تھا- ایسے میں میری غیرجانبدارنہ تحریر کو بھی اس کی طرف سے سازش ہی سمجھا جاتا- لیکن آج میں غیر جانبدار نہیں رہوں گی- آج میں اپنے اور ان تمام عورتوں کی طرف سے لکھوں گی جن کو اس ملک کے روشن خیال مردوں نے بےحد مایوس کیا ہے-

جب میں نے ایک صحافی کی حثیت سے لوگوں سے سحر انصاری کے مطلق پوچھ گچھ شروع کی میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی سوائے اس کے کہ ایک ادھ دفعہ پریس کلب میں دیکھا تھا- صحافی دوست عورتوں سے لے کر ایکٹوسٹ مرد دوستوں اور یونیورسٹی کے طالب علموں تک سب نے یہی تاثر دیا کہ ان کا کردار کچھ اسی طرح کا ہے جس طرح کا الزام لگایا گیا ہے- کسی ایک نے بھی ان کے متعلق کوئی مثبت بات نہ کی۔ چند ایک نے تو، جس میں ایک خاتون جو ایک بڑے چنیل پر اچھی پوسٹ پر فائز ہیں، بتایا کہ موصوف ان کے ساتھ بھی اسی طرح کی حرکت کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر وہ پبلک میں آ کر یہ بات نہیں کریں گی۔ یہ سب سن کر لگا کہ کیس تو بہت ہی آسان ہے- جیسے انگریزی میں کہتے ہیں نہ، اوپن اینڈ شٹ کیس– لیکن میں غلط تھی- کیس قانونی طور پر تو یقیناً آسان تھا مگر سماجی طور پر ہرگز نہیں- ایک بیانیہ پھیلایا جا چکا تھا کہ ذاتی مفاد میں الزام لگایا گیا ہے اور اسی کی بنیاد پر انکوائری کی رپورٹ بھی تشکیل دی جا چکی تھی- سحر انصاری اپنے دفاع میں بھی اسی بیانیے کو بار بار پیش کرتے رہے اور اس کے علاوہ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے- یہ بیانیہ کس نے پھیلایا اور اس کی کیا صداقت ہے نہ اس پر کوئی انکوائری بیٹھی اور نہ کوئی ثبوت پیش کیا گیا- جب کہ اس پر انکوائری کی سب سے زیادہ ضرورت تھی- اس بیانیے اور اس کی وجہ سے آنے والے رد عمل نے ڈاکٹر نوین کو کس ذہنی دباؤ سے گزارا، اسے میں نے بہت قریب سے محسوس کیا ہے- لیکن کچھ مردانہ رویوں نے مجھے بھی خاصا حیران کیا-

میں نے اس کیس میں پدرشاہی کو مضبوط کرنے والے وہ مرد دیکھے جنھیں میں روشن خیال اور پدرشاہی کے خلاف جنگ میں اپنا ساتھی سمجھتی رہی- ایک ایک کر کے کافی بت مسمار ہوئے- مجھے اندازہ نہیں تھا کہ طبقاتی جنگ میں ساتھ کھڑے ہونے والے مرد پدر شاہی کے خلاف جنگ میں ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے-

اس کیس سے پہلےمیں نے روشن خیال مردوں میں اس طرح کا بھائی چارہ نہیں دیکھا تھا- شاید ہمیشہ ہی موجود تھا لیکن میں ان کی روشن خیالی کے سحر میں شاید دیکھ نہ پائی تھی- اس کیس کے دوران میں نے ایک قافلے کو جنم لیتے دیکھا-

جنسی ہراسانی کا مرتکب ایک بوڑھا ادیب اور اس کو بچانے والا ایک ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ۔ پھر اسکا دفاع کرنے والا ایک صحافی- صحافی کا دفاع کرنے والا اینکر– اس کا دفاع کرنے والا اس کا ساتھی- اس ساتھی کے وفادار سنگی بیلی- یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسا گروہ بن گیا جو سحر انصاری سے زیادہ ایک جھوٹ کا محافظ بن کر کھڑا ہوگیا۔ لیکن مجھے گلہ اس گروہ سے نہیں بلکہ حیرانی اور مایوسی ان روشن حیال ساتھیوں سے ہے جنہوں نے سچ جانتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کی-

وہ لکھاری، صحافی، تاریخ دان ، ٹیچرز ادیب کامریڈز جن کو پڑھتے، سنتے، عزت کرتے بچپن گزارا ان کو خاموش تماشائی پایا– مذمت تو دور کی بات ہمددری کے چند بول بھی انکی زباں سے نہ سنے- ان میں سے کچھ مردوں کے ساتھ اکثر پریس کلب کے باہر محکوم قوموں کے لئے نعرے لگانے ہیں – لیکن عورت کی محکومیت ان روشن خیال مردوں کا مسئلہ نہیں- انقلاب آ جائے گا تو عورت خود آزاد ہو جائے گی- ان کے رویوں سے اندازہ ہوا کہ پدر شاہی کے خلاف جنگ عورتوں کو اکیلے ہی لڑنی ہے- روشن خیال مرد صرف ہمیں آزادی اور برابری کا پاٹھ پڑھا سکتے ہیں اس کے حصول میں ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے- کیونکہ عورت کی تاریخ لکھنا تو آسان ہے مگر ساتھی عورت کے ساتھ جنسی ہراسانی کے مقدمے میں ساتھ کھڑا ہونا مشکل-

اکثر سوچتی ہوں کہ روشن خیال مردوں کی وہ کیا مجبوری ہے جو انھیں اس طرح کے کیسز میں خاموش رہنے پر مجبور کرتی ہے- میں ان سے پوچھنا چاہتی ھوں کہ ان کی خاموشی کو کیا نام دیا جاۓ؟ یہ کون سی والی خاموشی تھی جس کے لیے انہوں نے روشن خیال سوچ کو ہی داؤ پر لگا دیا؟ شرمندگی والی؟ بزدلی والی یا پدر شاہی کا دفاع کرنے والی خاموشی؟

لیکن ایک ایسی خاموشی بھی ہے جو سب سے زیادہ خطرناک ہے- اور جس پر ان کی معافی جائز نہیں- ہراسانی ہوتے دیکھ کر خاموش رہنے والی خاموشی- یہ بات تو طے ہے کہ اکثر مردوں کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کے دوست یا کولیگ ہراسانی کرتے ہیں مگر وہ خاموش رہتے ہیں-

کیا یہ ممکن ہے کہ برسوں تک سحر انصاری عورتوں کو ہراساں کرتا رہا اور اس کے دوستوں اور ساتھی ادیب اور دانشوروں کو اسکا علم نہیں ہو سکا- جبکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ وہ تو” ٹھرکی” ہے- سوچتی ہوں کیوں کبھی ان کے دوستوں کو خیال نہ آیا کہ اسے روکیں ؟ یا ٹوکیں ؟ کیا سوچ کر وہ سب خاموشی سے دیکھتے رہے ؟ کس چیز کا انتظار کر رہے تھے؟ اگر اسے وقت پر روک دیا گیا ہوتا تو کتنی عورتیں ذہنی اذیت سے بچ گئی ہوتیں- اگر روشن خیال مرد یہ ذمداری بھی نہیں لے سکتے تو ان کا سماج میں کیا کر دار رہ جاتا ہے- ؟

سحر انصاری کا دفاع بائیں بازو کے کچھ دانشور کسی ضدی بچے کی طرح کر رہے ہیں-” نہیں نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتے-” جب وجہ پوچھو تو کچھ غیر منطقی قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں-

1 : وہ فیض احمد فیض کے دوست تھے –

2 : اردو ادب میں ان کی کافی خدمات ہیں

3 : وہ بزرگ ہیں۔

عرصہ دراز تک عورتوں کو اسی قسم کی بلیک میلنگ کے تحت چپ کروایا جاتا رہا ہے- کبھی مذہب کے نام، کبھی روایات کے نام پر، کبھی ملکی مفاد میں، اب اردو ادب کی دہائی- مگر اب ہم کسی کی عمر یا ادب میں خدمات کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہیں اٹھائیں گے- ہراساں کیا ہے تو سزا بھی بھگتو-

مزے کی بات یہ ہے کہ انکا دفاع کرنے والوں میں سے ایک دانشور بھی ان کے کردار کی گواہی دینے محتسب اعلی کے سامنے پیش نہ ہوا- نہ سحر انصاری کوئی ثبوت پیش کر سکے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے- جب کہ ڈاکٹر نوین نے کئی ثبوت بھی دیے اور ان کی گواہی دینے معتبر خواتین جن میں ڈاکٹر عذرا طلعت سید بھی شامل تھیں گئیں – پھر بھی روشن حیال مرد ہیں کہ آج بھی سحر انصاری کا دفاع کیے جا رہے ہیں – میرے نزدیک یہ چند مرد دانشور نہیں بلکہ خود کو بائیں بازو کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں- جہاں وہ فیصلہ کریں گے کہ عورت پر ہونے والا کونسا جرم بڑا ہے اور کونسا چھوٹا- اور کس کو سزا ملنی چاہیے اور کس کو معاف کر دینا چاہیے-

جنسی ہراسانی اور مردانہ سوچ :

عورتوں پر تشدد کی لسٹ میں جنسی ہراسانی سب سے آخر میں آتی ہے- مرد اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ریپ سے پہلے کا مرحلہ ہراسانی ہے- اور جنسی ہراسانی بھی عورت کو اسی طرح متاثر کرتی ہے اور برسوں تک اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے جس طرح ریپ اور دوسرے تشدد کے واقعات۔ کوئی آپ کی مرضی کے بغیر چھوئے، اس کا احساس آپ کو کتنی ذلت کے احساسات سے گزارتا ہے یہ یا تو ایک عورت سمجھ سکتی یا پھر وہ مرد جو خود اس کا شکار رہا ہو- اکثر مرد جو بچپن میں اس طرح کے واقعات سے گزرتے ہیں بڑے ہو کر یا تو خود ریپسٹ بن جاتے ہیں یا شدت پسند انسان۔ لیکن اس کے برعکس عورت خاموش رہ کر گھٹتی رہتی ہیں – اور دونوں ہی صورتوں میں نقصان سماج کا ہوتا ہے-

خطرناک بات یہ ہے کہ سماج کا پڑھا لکھا مرد بھی ہراسانی کو قابل قبول جرم سمجھتا ہے- جیسے کہ چھوٹی موٹی چوری پر کسی مجرم کو کیا کچہری لے جانا صرف ڈانٹ ڈپٹ کافی ہے- اس لیے جب عورتیں ہراسانی کے لئے قانونی راستہ اپناتی ہیں تو اکثر مرد اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں کیوں کہ ہراسانی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں– اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا-

چند ایک خیرخوہ لوگوں نے ڈاکٹر نوین کو بھی یہی مشورہ دیا کہ “کن چکروں میں پڑ گئی ہو- چھوڑو یہ سب اور کام کرو “- مجھے خوشی ہے انہوں نے ان کی بات نہیں سنی اور اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہیں- ورنہ آج ہمارے پاس کامیابی کی کوئی کہانی نہ ہوتی- اور نہ ہی کراچی میں مختلف جامعات میں جنسی ہراسانی پر بات ہو رہی ہوتی- اس کیس سے جو ملک میں مباحثہ شروع ہوئی ہے وہ ہماری بچیوں کے تحفظ کے لئے بہت اہم ہے- کچھ مرد توآج بھی ہراسانی کو مردانہ حق سمجھتے ہیں- وہ حق جو پدرشاہی نے انھیں دیا- اور جس کا انہوں نے بغیر کسی احتساب کے استعمال کیا- یہ سوچ خاص طور سے پرانی نسل کے مردوں میں نمایاں نظر آتی ہے-

سحر انصاری کے بیانات جو پریس میں آئے ہیں اس سے بھی یہی لگتا ہے کہ وہ عورت کو ان کی مرضی کے خلاف پکڑنا، نازیبا گفتگو کرنا یا غیر موزوں وقت پر کال کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں – یہ بات کس طرح ان مردوں کے شعور سے نکالی جائے کہ یہ ان کا حق نہیں بلکہ جرم ہے۔ نئی نسل کے روشن خیال مرد شاید اس فرق کو سمجھتے ہیں اسی لیے انہوں نے اس کیس میں روشن خیالی کی آڑ میں چھپے جنسی ہراسانی کے مرتکب سحر انصاری اور انھیں بچانے والی مافیا کے بچانے ڈاکٹر نوین کا ساتھ دیا اور ہر قدم پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ساری امیدیں اب اسی نسل سے وابستہ ہیں-

ڈاکٹر نوین نے جنسی ہراسانی کے خلاف اس جنگ میں کیا کچھ کھویا، کیا کیا سہنا پڑا انہیں، یہ تو ان کے سوا کوئی نہیں بتا سکتا مگر یہ جنگ آسان نہیں تھی اتنا میں ضرور جانتی ھوں – اور اسے مشکل بنانے والے اس کے اپنے ساتھی اساتذہ اور بائیں بازو کے روشن خیال مرد تھے-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).