آج کا میڈیا اور ہماری زندگی


زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ آج سے کوئی پچیس تیس سال پہلے لوگ تازہ خبروں کی پہنچ سے خاصے دور تھے لیکن ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ اُس دور میں زندگی نسبتاً آسان اور پرسکون تھی۔ لوگوں کی روز مرہ زندگی میں خبروں کیلئے فقط پچیس تیس منٹ وقف تھے جو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق رات نو بجے شروع ہوتے تھے۔ عموما ً لوگ خبرنامہ سن کر کھانا کھاتے تھے اور کھانے کے دوران خبروں پر تبصرہ کرتے تھے۔ اگرچہ اُس وقت بھی خبر نامہ اُس وقت کی حکومت کی ترجمانی کرتا تھا لیکن اُس میں اتنی ہذیانی کیفیت نہیں ہوتی تھی۔ خبر نامہ میں موزوں الفاظ اور درست تلفظ ہوتا تھا۔ بہت سے لوگ ڈراموں اور خبروں سے اپنا تلفظ درست کرتے تھے۔ اُس وقت بھی لوگوں کی سیاسی وابستگیاں اور اختلافات ہوتے تھے لیکن بات آپ جناب سے ہوتی تھی۔ ایک دوسرے کا خیال اور احترام ملحوظ ِ خاطر رکھا جاتا تھا۔ اُس وقت کے لوگوں کے پاس گفتگو کیلئے حالاتِ حاضرہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا تھا کیونکہ لوگ ایک دوسرے کی زندگیوں میں گھی اور شکر کی طرح شامل ہوتے تھے۔

آج آپ کسی کے گھر ملنے کے لئے جائیں تو وہ چائے پانی کا پوچھ کر ٹی وی آن کر لیتا ہے۔ آپ اور میز بان اگلے چالیس پچاس منٹ حالاتِ حاضرہ سے باخبر ہوتے ہیں لیکن اس دوران ایک دوسرے سے باخبر ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ چائے پی کر میزبان اجازت چاہتا ہے اور یوں یہ ملاقات اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ واپسی پر آپ پورا راستہ سوچتے ہیں کہ میرے آنے کا مقصد صرف چائے پینا اور ٹی-وی دیکھنا تھا۔

پچھلی نسل کے لوگ یقیناً باہر کی دنیا سے کسی حد تک بے خبر تھے لیکن وہ اپنے گھر اور محلے کی دنیا سے پوری طرح باخبر تھے۔ کس کا بچہ کس کلاس اور کس اسکول میں پڑھتا ہے۔ برابر میں رہنے والا کس دفتر میں کام کرتا ہے۔ فلاں گھر میں کرائے دار کس شہر سے آئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اُس وقت لوگ ایک دوسرے کی غمی اور خوشی میں دل وجان سے شرکت کرتے تھے کیونکہ اُن کے پاس وقت تھا اور تازہ ترین خبر کا چسکا اُن کی زندگیوں میں ابھی نہیں آیا تھا۔ آج ہر فرد ہر گھر ٹی وی اور سوشل میڈیا کی وجہ سے خبروں کی زد میں ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رکھنا چاہتا ہے لیکن اس کوشش میں گھر کے افراد کو آپس میں گھلنے ملنے کے مواقع نہیں مل رہے جس کی وجہ سے تعلق اور رشتے کا سلسلہ کمزور ہو رہا ہے۔ اب گلی یا محلے میں کوئی حادثہ یا چوری ہو جائے اُ س کی اطلاع ذرائع ابلاغ سے ہی ہوتی ہے کیونکہ آپس میں کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے۔

آج کے خبر نامہ میں سب کچھ ہے سوائے خبر کے۔ فلاں خاتون سیاستدان نیلے سوٹ میں اسمبلی آئی ہے اب خبر میں شمار ہوتی ہے۔ بارش میں لوگ سموسوں اور پکوڑوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں بھی ایک خبر ہے۔ خدا نخواستہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جائے تو اخباری نمائندے سمجھتے ہیں کہ اگر یہ حادثہ سب سے پہلے اُن کے چینل نے رپورٹ نہ کیا تو اُن کے نزدیک یہ اُس سے بڑا حادثہ ہو گا۔ بےشک اُس وقت حادثہ سے متعلق اُن کے پاس بنیادی معلومات موجود نہ ہوں۔

یہی حال ڈراموں کا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 70 فیصد لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں لیکن مجال ہے کسی بھی ڈرامے میں کوئی دیہاتی سین ہو۔ کیا دیہاتوں میں زندگی نہیں ہوتی، کہانیاں نہیں ہوتی۔ کیا دیہاتی زندگی بنجر اور سنسان ہے۔ ڈراموں میں اِس چکا چوند اور عیش و عشرت والی زندگی کو دکھایا جاتا ہے جو حقیقت میں آبادی کے بہت ہی کم حصے کو میسر ہے۔ حقیقت سے دور اس طرح کے ڈرامے لوگوں میں اضطراب اور احساسِ کمتری پیدا کرتے ہیں۔ ان ڈراموں سے مثبت نتائج کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ہمیں حالاتِ حاضرہ سے با خبر رہنا چاہئے لیکن اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنے گھر، خاندان، محلے اور دوستوں سے باخبر رہیں۔

محمد زبیر، ساوتھ ایشیا پارٹنرشپ
Latest posts by محمد زبیر، ساوتھ ایشیا پارٹنرشپ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).