پوتے کی ڈائری


طے یہ ہوا ہے کہ آج ہم سب بہن بھائی اکھٹے ہوکر دادی مرحومہ کی چیزوں کو دیکھیں کہ اب ان کے دو کلازٹ میں لٹکے کپڑوں کا اور کاغذوں کے انبار کا کیا کرنا ہے جو ان کے کمرے کی دو میزوں پر، میز کے نیچے ایک کارڈ بورڈ کے باکس میں، درازوں میں اور ایک خاص المای کے کئی خانوں میں ٹھنسے ہوئے ہیں۔ کاش وہ ان کے بارے میں بھی وصیت لکھ جاتیں جیسے کہ وہ اپنے گھر اور زیورات کے بارے میں لکھ گئیں۔

دوسروں کی اور خود ان کی کتابیں بھی جگہ جگہ ہیں۔ ان و تو کوئی نہ کوئی ادب نواز لے ہی لے گا بس معاملہ کاغذوں کے انبار کا ہے۔ ان کو یک مشت پھینکا جاسکتا تھا مگر دل نہیں مانتا۔ کوئی بات تو ہوگی جو دادی نے خود انھیں نہیں پھینکا۔ میں نے اس کام کے لئے خود کو پیش کیا کہ دوسرے بہن بھائیوں کے خلاف میں اسی شہر میں رہتا ہوں جہاں دادی رہتی تہیں۔ میرا آنا جانا زیادہ تھا اس لئے میں ان سے زیادہ نزدیک تھا۔ ویسے دادی ہم سے ہمیشہ دوردوسرے شہروں اور ملک میں رہی ہیں اور ہم میں کبھی وہ تعلق نہیں بن پایا جو ایک گھر میں رہنے والے دادا دادی اور پوتے پوتیوں کے درمیان ہوتا ہے۔

بکھرے کاغذوں کو سمیٹنا شروع کیا تو وہ اور بکھرنے لگے ۔ کہیں دوایک جملہ جیسے۔۔۔ میں اب کبھی ان کے گھر نہیں جاؤں گی، میں نے فیصلہ کیا۔ کتنا برا فیصلہ تھا ۔ مگر کیوں۔ کوئی بھی جواب ایسا تسلی بخش نہیں تھا جو دل کو ٹھکتا۔۔۔ میں سوچ میں پڑگیا، یہ کس کا گھر تھا جہاں نہ جانے کا انھوں نے فیصلہ کیا اور یہ بھی کہا کہ کتنا برا فیصلہ تھا۔ پھر سوچا کہ جانے بھی دو کسی افسانے کی ابتدا ہوگی، اب یہ پورا ہونے سے رہا۔ ڈالو کوڑے کی ٹوکری میں ۔ ڈال دیا ذرا سا دکھ ہوا۔ کچھ نہیں دادی کی لکھائی تو تھی۔ خیر ایسی بہت سی تحریروں سے گھر بھرا پڑا ہے۔

سامنے دادی کی تصویر پر نظر پڑی۔ کچھ الجھی ہوئی نظر آئیں۔ میں نے نظریں بچا کردوسرا کاغذ اٹھایا۔ دو شعر ٹیڑھے میڑھے۔ ضرور رات کو لکھے گئے ہوںگے ۔ کہتی تھیں رات کو ہوتے ہیں تو اسی وقت لکھنے پڑتے ہیں صبح کو ایک لفظ بھی یاد نہیں آتا۔ غالب تو نہیں کہ ہر شعر پر کمربند میں گانٹھ باندھ لوں اور صبح کو گانٹھ کھولتی جاؤں اور شعر لکھتی جاؤں۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ اب میرے پائےجامے میں کمربند نہیں الاسٹک ہے۔

ذرا دیکھوں کیا شعر ہیں۔ ایسا کرتا ہوں ایک کاغذ پر جو ایک دو سطریں اور ایک دو شعر ہیں ان کو نقل کرلیتا ہوں۔ اس طرح دس پندرہ کاغذوں کو مزے سے پھینک سکوں گا اور ضمیر بھی تھوڑا سا صاف رہے گا کہ میں نے دادی کا کلام محفوظ کر لیا۔ ہاں تو وہ شعر کیا ہیں۔۔۔

مگر بھئی یہ پندرہ بیس منٹ میں صرف دو تین کاغذ دیکھ پایا ہوں، ایسے تو نہیں چلے گا۔ یوں کرتا ہوں کہ ان پرزوں کو بعد میں دیکھوں گا۔ پہلے یہ دیکھوں اس بریف کیس میں کیا ہے۔ میں نے ان کے بریف کیس کو کھولا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس میں کاغذوں جیسی افرا تفری نہیں تھی بلکہ مختلف فائلیں تھیں۔ ان فائلوں میں ایسی چیزیں تھیں جن کا تعلق ادب سے نہیں تھا۔ دادی کو فائل وائل بنانے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ یہ کام ضرور دادا نے کیا ہوگا جب وہ اپنی فائلیں سنوار رہے ہوںگے، دادا جتنے منتظم تھے، دادی اتنی ہی غیر منتظم تھیں۔ ایک فائل ان کی ڈگریوں کی۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی ڈبیا میں گولڈ میڈل جو انھیں بی۔ اے میں یونیورسٹی میں اول آنے پر ملا تھا۔ اسکول کی ملازمت کے دوران مختلف سرٹیفیکٹ اور ان کی کارکردگی کی تعریف میں کچھ خطوط تھے۔ ان فائلوں کے علاوہ کچھ کاغذات یوں ہی رکھے تھے جیسے جلدی میں یا لاپروائی سے رکھے ہوں جیسے کی دادی کی عادت بھی تھی۔ ایک کاغذ پر میری نظر پڑی تو چونکا ۔ وہ ایک خط تھا آرمی چیف کے نام۔

لکھا تھا کہ کراچی کے پاس حب، بلوچتان کے علاقے میں میری تین زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ بہت اونچی دیواریں بنالی گئیں ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں ان زمینوں کو قبضہ کرنے والوں سے کیسے چھڑاؤں۔ اس لئے میں یہ تینوں زمینیں شہیدوں کے نام پر آپ کے ادارے کو دے رہی ہوں۔ اس کے بدلے مجھے کوئی مالی فائدہ یا کسی قسم کی کوئی مراعات نہیں چاہییں۔ یہ بات دو دفعہ دہرائی گئی تھی۔

نیچے درج تھا کہ زمینوں کے اصلی کاغذات کی کاپیاں اور اصلی کاغذات بھی منسلک کئے جارہے ہیں۔

مجھے یہ بات بالکل معلوم نہیں تھی۔ یہ ضرور معلوم تھا کہ دادی کی کچھ زمینیں کراچی کے پاس حب میں تھیں، جو علاقہ بلوچستان میں آتا تھا۔ دادی نے یہ زمینیں بہت سستی اس وقت لی تھیں جب سنا جا رہا تھا کہ کراچی سے ایران تک ایک شاہراہ بنائی جائے گی اور اس علاقے کی بہت اہمیت ہوگی۔ شاہراہ تو نہیں بنی مگر کچھ لوگوں کی بن آئی اور انھوں نے اونچی اونچی دیواروں سے گھیر کردوسرے لوگوں کے پلاٹوں پر قبضہ جما لیا۔

میں نے کچھ اور کاغذات ٹٹولے تو ان زمینوں سے متعلق کچھ خطوط کی کاپیاں کسی حاجی صاحب کے نام اور ان کے جوابات تھے۔

ایک خط میں انھوں نے لکھا تھا۔ آپ نے ٹھیک سنا سب زمینوں پر قبضہ ہوگیا ہے۔ میں نے بات کرکے بمشکل پندرہ ہزار پر راضی کیا ہے ۔ آپ کہیں تو ان سے چیک لے لوں۔

دوسرے خط میں تھا۔ آپ پندرہ ہزار لینے پر راضی نہیں۔ ٹھیک ہے۔ آپ کے عزیزوں کا مشورہ بھی صحیح ہے۔ پاکستان میں ہر جائز اور ناجائز کام سفارش سے ہوتا ہے۔ اگر کسی کی صحیح سفارش ہوتو ممکن ہے کام بن جائے۔

تیسرے خط میں تھا، آپ کی تمنا بہت نیک ہے کہ آپ خود وہاں جائیں اور پلاٹ پر بیٹھ کر لڑکیوں کو تعلیم دیں مگر اس کا وقت گزر چکا ہے۔ آپ کی تینوں زمینوں پر تیس فیٹ اونچی دیوار کھڑی کرکے ایک طرف دروازے میں بڑا سا تالا لگا دیا گیا ہے۔ آس پاس دکانیں کھل گئیں ہیں مگر کوئی نہیں جانتا یا نہیں بتاتا کہ قبضہ کرنے والے کون ہیں۔

آخری خط: اگر کمانڈر ان چیف بھی آپ کے تحفے سے فائدہ نہ اٹھا سکے تو بتائیے ہم جیسے ٹٹ پونجیا کیا کرسکتے ہیں۔ مگر جو کرنے والا ہے وہ کوئی اور ہے۔ ان خبیثوں نے اس خیال سے آپ کے پلاٹ پر مسجد بنا دی ہے کہ اب اسے کوئی ڈھانے کی کوشش کرے گا تو خدا کے گھر کا نام لے کر ہنگامہ کھڑا کردیں گے۔ ذرا سوچئے اس نے ان مجرموں سے آپ کے پلاٹ پر مسجد بنوادی۔ مسجد چھوٹی مگر خوبصورت ہے۔ آس پاس اور کوئی مسجد نہیں سب لوگ یہیں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ صدقہ جاریہ ہے۔ میں نے آپ کے پندرہ ہزار سے مسجد کے پاس ایک چبوترہ بنا کر بچے بچیوں کو پڑھانے کا انتظام کردیا ہے۔ اس چبوترے کی کچی چھت کے چھجے پر اسکول کا نام بھی لگ گیا ہے جو آپ کے نام پر ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اب لوگ مسجد کو بھی اسی نام سے پکارنے لگے ہیں۔۔

آپ نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ آپ کو کروڑوں روپے کی ضرورت نہیں مگر پاکستان کے حالات اور حکومت کی بے بسی پررونا آتا ہے۔ ہاں وہ تو سبھی کو آتا ہے مگر میں یہ مانتا ہوں کہ ایک ہستی ہے جو زہر کو امرت بناسکتی ہے سو اس نے ان زمینوں کو قبضہ کرنے والوں کے لئے زہر اور آپ کے لئے امرت بنا دیا، اور بناتا رہے گا انشااللہ۔

 بہت سے سلام اور معذرت کے ساتھ۔۔۔۔    علیم الدین(حاجی)

میں دادی کی تحریروں سے متاثر ہوتا چلا گیا۔ بظاہر وہ سادہ تھیں مگر ان میں گہرائی تھی۔ ان میں ایسے موتی بھی تھے جو لوگوں کے مشہور اقوال کی طرح الگ سے چن کر رکھے جا سکتے تھے۔ میں نے ڈائری میں لکھی ہوئی چیزیں پڑھنی شروع کیں تو عجیب سا لگا۔ انھوں نے ایک افسانہ ایسا لکھا تھا جیسے عالمِ بالا میں دفاتر کا انتظام ایسے چل رہا ہے جیسے پاکستان میں چلتا ہے۔ اہلِ جنت کی شکایات اور منتظِمین کے جوابات وغیرہ۔ بریکٹ میں لکھا تھا۔ (دوستوں کی ہدائت پر کہ نہ کوئی طنز سمجھے گا نہ مزاح تم آفت میں پھنس جاؤ گی، کسی پرچے کو نہیں بھیجا گیا)

ایک اور تحریر پڑھ کر اس سے بھی زیادہ حیرت ہوئی۔ اس میں لکھا تھا کہ سپریم پاور فرشتوں کو حکم دے رہی ہے کہ کوئی ایسی مخلوق تخلیق کی جائے جو بہت معمولی ہو، اور خود اپنے بل پر بڑھتی چلی جائے، تبدیل ہوتی چلی جائے یہاں تک کہ اس کی تکمیل ہوجائے۔ اس کے بعد اس کے ساتھ میں جو جی چاہے کروں۔ فرشتے رائے دیتے ہیں مگر سپریم پاور کو کوئی رائے نہیں بھاتی۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ تھیوری آف ارتقا اور تھیوری آف پیدائش کو ملانے کی کوئی ناکام کوشش تھی مگر تھی۔ کیونکہ ان کو سائینس اور مذہب دونوں سے دلچسپی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ سائنس کی ابھی تکمیل نہیں ہوئی اور مذہب کو ابھی تک سمجھا نہیں گیا۔

سائنس کی ایک خبر کہیں سے نقل کی تھی جسے وہ اپنی تحریر میں استعمال کرنا چاہتی تھیں۔ وہ اس ڈارک میٹر کو اشعار میں تلاش کر رہی تھیں کہ جسکے بغیر شاعر پنپ سکتا ہے نہ شاعری۔ میں اس سلسلے میں کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں ہوں۔

بہرحال میں نے بہت چیزیں پڑھیں۔ کچھ جو مجھے معلوم تھا کہ چھپ چکی ہیں اور کمپیوٹر سے پہلے کی ہاتھ سے لکھی ہوئی ہیں ان کو ردی میں ڈالا۔ کچھ کو پھر دیکھنے کے لئے بچایا۔ کچھ ڈائریاں جو خاصی بھری ہوئی تھیں اور اندازہ نہیں تھا کہ ان کی چیزیں شائع ہوچکی ہیں یا نہیں۔ ان کو کتابوں کے ساتھ رکھا کہ شاید کوئی صاحبِ ذوق ان کا بہتر مصرف نکال لے۔

کام تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا اور مجھے اس مصروفیت سے کچھ عرصے تک دور رہنے کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ تب میں نے ایک مناسب قیمت کا ٹکٹ لے کر پاکستان جانے کا پروگرام بنایا۔ وہاں میرا ننہیال بھی ہے اور کئی دوست بھی جو امریکہ سے آئے ہوئے پردیسی دوست کا بہت امیدوں بھری محبت سے استقبال کرتے ہیں۔ ویسے تومیرا پاکستان میں کسی لکھنے والے سے کوئی رابطہ نہیں تھا مگر سوچ تھی کہ شاید دادی کے پبلشر کے ذریعہ کوئی مل جائے جو ان کے ادھورے مسودوں کے سلسلے میں کوئی رائے دے سکے۔

ایک دن یونہی ایک دوست کے سامنے دادی کی زمینوں کی بات کر بیٹھا۔ وہ اڈونچر کا شوقین بندہ فوراً بول اٹھا چلو یار چل کر دیکھتے ہیں وہ کیسی جگہ ہے میں وہاں کبھی نہیں گیا۔

میں بھی کبھی نہیں گیا میں نے کہا۔

چلو پھر چلیں۔

میں دادی کی زمینوں کے الاٹمنٹ کی کاپیاں لے آیا تھا۔ وہ بھی لے لیں۔

ہاں ضرور ہم بھی دیکھیں کیسے دوسروں کی زمینوں پر قلعے اور محل بنائے جاتے ہیں۔

چنانچہ ہم دونوں بسوں میں دھکے کھاتے، ریت پھانکتے وہاں پہنچے۔ ہم جسے صحرا سمجھ رہے تھے وہ تو اچھا خاصا شہر تھا۔ پکی سڑک کے دونوں طرف پکی دوکانیں تھیں۔ پیٹرول پمپ تھے۔ کئی دوکانیں جائداد خریدنے اوربیچنے والوں کی بھی تھیں۔ ایسی دوکان کاایک آدمی ہمارے ساتھ ہولیا کہ شاید ہم جائداد خریدنے والے ہیں اس نے بتایا کہ اب ان زمینوں کی قیمت کروڑوں میں ہے۔

کچے پکے گھر بھی بہت سے بنے ہوئے تھے ہم نمبر دیکھتے ڈھونڈتے ڈھانڈتے ان پلاٹوں تک پہنچے۔ مسجد موجود تھی۔ دادی کے نام کا مدرسہ کچا نہیں پکا تھا۔ صحن میں بہت سے بچے پڑھ رہے تھے۔

ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ دادی کی زمینوں کے گرد وہ تیس فٹ اونچی دیوار اب بھی موجود تھی، ایک مضبوط دروازے پر ایک بڑا سا تالا اب بھی لگا ہوا تھا۔ میں نے حیرت سے نزدیک کے ایک دکاندارسے پوچھا”تیس سال سے نہ انھوں نے گھر بنایا نہ کسی اور کام میں لائے یہ کیا معاملہ ہے“۔

”صاحب یہ بڑا گھمبیر معاملہ ہے۔ کسی خاتون کی زمینوں پر ان دو بھائیوں نے زبردستی قبضہ کرلیا تھا۔ کمرشل پلاٹ پر چھوٹی سی مسجد بنادی تھی کہ آس پاس دوکانیں بنادیں گے۔ ایک بھائی کے دل میں بے ایمانی آئی۔ کہنے لگا مسجد کو رات میں توڑ دیں گے اور الزام دہشت گردوں پر رکھ دیں گے ۔ کہہ دیں گے کہ ہم اس سے بھی بڑی مسجد بنائیں گے۔ جب بات گئی گزری ہوجائے گی تو جو جی چاہے گا کریں گے۔ دوسرا بھائی کچھ اور سوچے بیٹھا ہوگا۔ ہمیں تو یہ معلوم ہے کہ دونوں میں سخت لڑائی ہوئی۔ دونوں پستول لے کر نکل آئے اور ایک دوسرے کو جان سے مار دیا۔ ہمیں تو ان کے عزیزوں رشتے داروں کا بھی پتہ نہیں۔ ہم محلے والوں نے ان کو ان کی زمینوں میں دفن کرکے دوبارہ تالے لگا دئے۔ اب ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے بھی کوئی نہیں جاتا، نہ جاسکتا ہے۔

 شاید اب حکومت بیچ میں پڑے تو ان زمینوں کا کچھ ہو یا شاید قبرستان ہی بن جائیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ہم تو ان خبیثوں کے ڈر سے نہ پہلے بولتے تھے نہ اب بولتے ہیں۔ آپ نے پوچھا تو جو کچھ معلوم تھا بتادیا۔“

”مسجد کے پاس جو اسکول ہے وہ کس نے بنوایا۔ “

”وہ کوئی حاجی صاحب تھے، علیم الدین۔ انھوں نے پہلے کچا، پھر پکا مدرسہ بنوا دیا۔ ان کا تو انتقال ہوگیا۔ اب ان کا بیٹااسکول چلاتا ہے۔ اچھا ہونہار ہے، سنا ہے تعلیم کی کوئی بڑی ڈگری ہے اس کے پاس۔ پچھلے دنوں کچھ لوگ حکومت کے آئے تھے دیکھنے۔ شائد پرائمری سے مڈل اسکول بن جائے۔ ایک ہی تو اسکول ہے یہاں۔ “

مجھے حاجی علیم الدین کا ایک فقرہ یادآ یا۔ ایک ہستی ہے جو کسی کو نوازنا چاہے توہزار طریقوں سے نوازتی ہے۔ کسی کو بچانا چاہے تو زہر کو امرت بناسکتی ہے سو اس نے ان زمینوں کو قبضہ کرنے والوں کے لئے زہر اور آپ کے لئے امرت بنا دیا، اور بناتا رہے گا انشااللہ۔ “

میں اب بھی سوچ رہا ہوں کہ دادی کو یا ان کی اولاد کو تو وہ زمینیں نہیں ملیں، نہ ملیں گی مگر کوئی تو انھیں قبرستان بنانے سے بچا لے۔ ہاں یاد آیا، ابھی تو مجھے واپس جا کر دادی کے کاغذوں کو سمیٹنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).