ارفع کریم کی یاد میں


بیٹیاں اللہ کی رحمت اور سانجھی ہوتی ہیں اوراگر یہ بیٹی ارفع کریم ہو تو سب کے لئے قابل فخر اور لائق صد افتخار بن جاتی ہے۔ بلاشبہ ارفع کریم کا 9سال کی عمر میں 2004ء میں مائیکروسوفٹ کا سرٹیفائیڈ پرفیشنل بننا دنیا میں اس کا ارفع و اعلیٰ کارنامہ ہے جس پر اس کے خاندان اور پاکستان کو ہی نہیں دنیا بھر کو ناز ہے۔ وہ ہماری نوجوان نسل کی رول ماڈل ہیں اوردنیامیں ناصرف لڑکیوں بلکہ خواتین کے لئے جدو جہد کی علامت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ وہ 14جنوری 2012ء کو اس دار ِ فانی سے کوچ کر گئیں لیکن اپنے کارناموں کی وجہ سے امر ہو گئیں اور ایک ’’آئیکون‘‘ او ر’’ استعارہ‘‘ بن کر زندہ جاوید ہو گئیں۔

ان کا خاندان آج بھی انہیں اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے اور ان کی موجودگی وقتا ً فوقتا ً ان کو اپنا احساس دلاتی رہتی ہے۔ ہر سال 2فروری کو ارفع کریم رندھا وا کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ سماجی رہنما سید علی عمران جو گھر فاؤنڈیشن کے چئیرمین بھی ہیں اور معروف صحافی ملیحہ سید کے ہمراہ یکم فروری کو ارفع کریم کے خاندان سے ملنے کا پروگرا م بنا۔ لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ پر جب سر شام پہنچے تو ارفع کی والدہ مسز رندھاوا نے ہمارا مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو ان کا چھوٹا بیٹا داؤد کریم مطالعہ میں مصروف تھا۔ داؤد کریم کی شکل ارفع کریم سے ملتی ہے۔ بڑے بھائی سرمد کر یم بھی ایک انسٹیوٹ میں پڑھاتے ہیں اور کنسلٹینسی نارتھ ٹریو کے نام سے چلا رہے ہیں۔

ارفع کریم ٹرسٹ بھی قائم ہے۔ اس میں اس کے والد اور والدہ دونوں ٹرسٹی ہیں۔ چائے پر گپ شپ جاری تھی کہ والد برگیڈئیر (ر) امجد کریم رندھاواآگئے۔ گویا محفل جم گئی اور ارفع کی یادیں تازہ ہونے لگیں۔ ان کی باتیں اور یادیں موضوع گفتگو بن گئیں۔ میرے استفسار پر والد امجد کریم رندھاوا نے بتایا کہ ارفع کا استاد گرو یامینٹور بطور والد وہ تھے۔ ارفع ان سے بہت مانوس تھی۔ باپ بیٹی کا ساتھ قابل مثال تھا۔ وہ بچپن ہی سے منفرد، ذہین اور مختلف تھی۔ والدہ نے بتایا کہ ارفع اب بھی انہیں اردگرد محسوس ہوتی ہیں وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ بہت سے لوگ آکرانہیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ ان کے خوابوں میں آتی ہے اور باتیں کرتی ہے۔ اس کی یاد زندہ ہے۔ والدین کہتے ہیں ارفع بہت کم عمر تھیں لیکن اس کے خواب بہت بڑے تھے۔ وہ پاکستانی ہونے پر بہت فخر محسوس کرتی تھیں۔ پاکستان کو دنیا میں اعلٰی و ارفع نام و مقام اور پہچان دینے کی خاطر دن رات سوچتی اور خواب دیکھتی۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اپنے ملک کو بہت آگے لے جانا چاہتی تھیں۔ یہاں آئی ٹی پارک قائم کرنا چاہتی تھیں۔ وہ جدید ٹیکنالوجی کو وسیع پیمانے پر متعارف کرواناچاہتی تھیں۔

ان کی غیر معمولی صلاحتیوں نے بل گیٹس کو بھی بہت متاثر کیا اور وہ پاکستان آکر ان کے اس مشن کو آگے بڑھانے اور لے جانے پر رضا مند تھے کہ وہ خالق ِ حقیقی کو جا ملیں۔ ارفع کریم کا خواب وطن ِ عزیز پاکستان کو ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا بھر میں ناقابل تسخیراور قابل رشک بنانا تھا۔ وہ اپنے وطن عزیز کو جدید علوم سے روشناس کرانی چاہتی تھیں۔ ان کے یہ خواب پاکستانی قوم کے لئے امانت ہیں۔ جنہیں حقیقت میں بدلنے کے لئے ہم سب کو مل کر جدو جہد کرنا ہو گی۔
؂ ارفع کریم تجھے سلام

اسلم بھٹی
Latest posts by اسلم بھٹی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم بھٹی

اسلم بھٹی ایک کہنہ مشق صحافی اور مصنف ہیں۔ آپ کا سفر نامہ ’’دیار ِمحبت میں‘‘ چھپ چکا ہے۔ اس کے علاوہ کالم، مضامین، خاکے اور فیچر تواتر سے قومی اخبارات اور میگزین اور جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ آپ بہت سی تنظیموں کے متحرک رکن اور فلاحی اور سماجی کاموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔

aslam-bhatti has 38 posts and counting.See all posts by aslam-bhatti