میری اماں۔۔۔۔


ایرپورٹ سے گھر پہنچا تو فجر کی اذان ہورہی تھی ۔ ہمیشہ کی طرع اس بار بھی سیدھا اماں کے کمرے میں گیا ان کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کی ۔ بہت نحیف اور کمزور لگ رہیں تھیں میں بیڈ پر انکے قریب ہی بیٹھ گیا اور پوچھا ” اماں بتائیے میں کون ہوں ” مجھے یاد ہے کہ انہوں نے اپنے جھریوں بھرے لرزتے ہوئے ہاتھ کو میرے سر پر رکھا اور نحیف سی آواز میں فرمایا ” ھمارا لاڈلا بیٹا ہے ” اور مجھے یوں لگا کہ جیسے انہوں نے مجھے جنت کی بشارت دے دی ہو ۔۔۔ کچھ دیر انکے پاس بیٹھا رہا پھر دعائوں اور شفقت کی دولت سمیٹ کر اپنے کمرے میں چلا آیا ۔۔۔۔۔

دن نکلنے پر اماں کو قریبی ہسپتال ” پی این ایس شفا” لے گیا ۔ انہیں کئی روز سے قبض کی شکایت تھی اور پیٹ بھی سخت ہورہا تھا ۔ ڈاکٹر نے دوا لکھ دی لیکن اس سے کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ تمام ٹیسٹ رپورٹس نارمل تھیں کوئی خاص بیماری بھی نہیں تھی لیکن بڑھاپا اور اس سے متعلق مسائل بہرحال تھے ۔ اندازہ ہے کہ وہ نوے برس سے تجاوز کرچکی تھیں ۔۔۔۔۔

دوسرے دن شاید جمعہ تھا۔ بیگم اور ملازمہ نے اماں کے سارے جسم پر اسفنج کیا پھر ان کو کرسی پر بٹھا کے ٹیرس میں لے آئے وہاں بڑی کومل سی دھوپ پھیلی ہوئی تھی ہم نے ان کے سر پر شمپو کیا اور بال خشک ہونے تک وہیں بیٹھے رہے ۔ اماں کو گرم گرم کافی پلائی اور خوب دعائیں سمیٹیں ۔۔۔۔

شام کو اماں کی طبیعت پھر خراب ہوگئی . میں نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق پہلے ہی گھر پر ڈرپ لگوانے کا بندوبست کیا ہوا تھا ۔۔۔ ڈرپ لگوانے کے باوجود ان کی حالت بگڑ رہی تھیں لہذا ایمبولنس منگوائی اور ایمرجنسی میں پی این ایس شفا لے گئے ۔ ہسپتال پہنچتے پہنچتے اماں کی سانس اکھڑنے لگی انہیں فوراً آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا اور آکسیجن دی گئی ۔ رات بھر حالت بہت تشویشناک رہی۔ ساری رات میں بیگم اور بیٹا اماں کے ساتھ رہے۔ صبح تین بجے کے قریب بیٹے کو چھوڑنے گھر گیا جو ہسپتال سے زیادہ دور نہیں تھا ۔ گھر پہنچ کر چائے بنوائ اور پھر واپس ہسپتال جانے کا ارادہ کیا ۔ بڑا بیٹا جو ان دنوں امتحان کی تیاری کے لئیے جاگ رہا تھا اس نے مجھے روکنا چاہا اور مشورہ دیا کہ میں کچھ دیر آرام کرلوں اور میری بجائے وہ خود ہسپتال جانے کے لئیے تیار ہوگیا ۔۔۔ میرے منھ سے بے ساختہ نکلا ” نہیں بیٹا ہسپتال میں ہی جائوں گا آج میری جنت کمانے کی رات ہے ” ۔۔۔ اور میں چائے کا کپ لے کر گاڑی میں آ بیٹھا اور چند منٹ کے بعد دوبارہ ہسپتال پہنچ گیا ۔ دھڑکتے دل کے ساتھ انکے کمرے میں داخل ہوا کہ نجانے کیا منظر دیکھونگا ۔۔۔۔۔

اماں کی حالت بگڑتی جارہی تھی میں انکےقریب ہی تھا مجھے اچھی طرع یاد ہے کہ انہوں نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور سینے سے لگا لیا اور خوب زور سے بھینچ لیتیں۔ سامنے کرسی پر بیگم سورہ یاسین کی تلاوت کررہی تھیں ! سلامً قولاً من ربً رحیم ۔۔۔۔۔۔۔

کہیں دور مسجد سے اذان فجر کی آوازیں آرہی تھیں اور اماں اپنی آخری سانسیں لے رہی تھیں یا شاید انکی سانسیں بکھر رہی تھیں ۔ مجھ سے یہ منظر نہ دیکھا گیا اور کمرے سے باہر نکل آیا ۔۔ میں کوریڈور میں سینے پے ہاتھ باندھے سر جھکا ئے دیوار کے سہارے کھڑا تھا ۔۔ چند لمحوں بعد مجھے اپنے عقب میں بھاگتے قدموں کی آوازیں آنے لگیں میں خوب سمجھ رہا تھا کہ کیا چل رہا ہے میڈیکل اسٹاف شاید اماں کی سانسیں بحال کرنے کی آخری کوششوں میں مصروف تھے کہ اچانک سب کچھ ساکت ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر چند لمحوں بعد کسی بوجھل قوموں کی چاپ سنائی دی جو میری ہی طرف بڑھ رہی تھی قریب آگئی ۔ میں نے اپنے کاندھے پر ایک ہاتھ محسوس کیا مڑ کر دیکھا تو بیگم تھیں انکی آنکھوں میں آنسو تھے شاید اب کہنے کو انکے پاس کچھ باقی نہیں رہا تھا ۔۔۔ پھر ہم دونوں بنا کچھ کہے رونے لگے ۔۔۔۔

اس وقت صبح کے ساڑھے پانچ بجے تھے اور تاریخ تھی سات فروری دو ہزار چار ۔ اماں ہمیں چھوڑ کے جاچکی تھیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔۔

ماں کا شفقت بھرا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ چکا تھا اور زمانے کی کڑی دھوپ منتظر ۔ ایسے میں ہاتھ اٹھاکے ہماری خیر و سلامتی کی دعائیں اب کون کرے گا

” اب دعائے نیم شب میں کس کو یاد آئوں گا میں “

اماں کی صحیح تاریخ پیدائش کا تو معلوم نہیں گمان ہے کہ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پرتاب گڈھ ، یوپی میں ایک متمول زمیندار حاجی محمد اصغر مرحوم کے گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ نانا مرحوم انتہائی متقی اور پرہیزگار تھے انکا گھرانہ روایتی مشرقی تہذیب کا آئینہ دار تھا۔ نانا کی سات بیٹیاں ہوئیں اماں شاید چوتھے نمبر تھیں۔ نانا سے لوگوں نے دوسری شادی کے لئیے بہت کہا تاکہ جائیداد کا کوئی تو وارث ہو لیکن انہوں نے منع کردیا اور کہا اگر میری قسمت میں بیٹا ہے تا انہی سے ہوگا ۔ ساتویں بیٹی کے بعد اللہ نے انہیں چار بیٹے دئیے جن میں ایک ہندوستان کے معروف شاعر نازش پرتابگڑھی بھی تھے ۔۔۔ نانا کی وفات کے وقت سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر بمشکل چند ماہ ہی رہی ہوگی جبکہ سب سے بڑے صاحبزادے بھی اس وقت کمسن ہی تھی ۔۔۔ گھر میں دولت کی فراوانی اور ملازموں کی فوج تھی اسکے باوجود نانی مرحومہ نے بیٹیوں کی پرورش بہت مشرقی انداز میں کی ۔۔ باپ کا سایہ جلد اٹھ جانے کے باعث بیٹے بڑے نانا اور ملازموں کے زیر تربیت رہے ۔ بڑے نانا بڑے رکھ رکھائو اور شاہی مزاج کے آدمی تھے اور ان میں وہ تمام خوبیاں اور خامیاں بھی تھیں جو اس وقت کے رئوسائوں میں ہوا کرتی تھیں انکا کافی اثر بڑے ماموں پر بھی آیا وہ بھی انتہائی شوقین مزاج اور باوضع شخص تھے ۔ بہنوں کے لاڈلے عمدہ کھانوں اور اچھا پہننے کے شوقین ۔ انکی پسند آج بھی خاندان میں ضرب المثال ہے ۔۔۔۔

اماں پرتاب گڈھ سے بیاہ کر نگرام اور پھر لکھنئو آگئیں ۔۔۔ والدہ جس گھر بیاہ کر آئیں وہاں دولت کی وہ فراوانی تو نہ تھی بلکہ جائیداد کے چکر میں ہونے والی مقدمہ بازیوں نے معاشی حالات کو مزید مخدوش کردیا تھا لیکن ماحول نہایت ادبی تھا ۔ میرا دادیہال لکھنوی تہذیب کا نمونہ تھا ۔ خواتین غرارے اور مرد حضرات اچکن اور شیروانی پہنتے ۔ جب تک والد حیات رہے اماں نے غرارہ ہی پہنا یا کبھی کبھا ساڑھی بھی زیب تن کرتیں ۔ پان سے منھ لال رہتا بعد میں پان کھانا تو کم کردیا تھا لیکن چھالیہ کتھا چونا اور تمباکو بٹوے میں ضرور ہوتا اور شوق سے کھاتیں ۔ اماں اچھے کھانوں کی شوقین تھیں ۔ خوراک بہت کم تھی لیکن کھانے کے فوراً بعد میٹھا ضرور کھاتیں کچھ نہ ہوتو دیسی گھی اور گڑ یا چینی ہی سہی ۔ اکثر دودھ چاول بھی کھاتے دیکھا ۔ آم سے بہت رغبت تھی اس موسم میں دوپہر کے کھانے کے وقت بیگم سے فرماتیں ” بھیا ہمیں تو آم روٹی ہی دے دو ” تو بیگم انکے لئیے آم کے گودے اور دودھ یا بالائی کے ساتھ ایک روٹی دے دیتیں اور یہی انکا لنچ ہوتا ۔۔ سردی کے موسم میں حلوہ سوہن بڑے شوق سے منگواتیں اور رکھ کر کھاتیں ۔۔

گھر میں بڑا ادبی ماحول تھا ہر قسم کی کتابیں پڑھی جاتیں ۔ مودودی صاحب کی تفہیم القرآن ہو یا کارل مارکس کی داس کیپٹل ہو یا موپساں کے افسانے گھر ہی میں دستیاب تھے اسی طرع ہم بھائی بہنوں کو بھی پڑھنے کی ترغیب ملی اور کتب بینی کا شوق پیدا ہوا ۔۔۔۔

اماں شعر و شاعری اور پڑھنے کی بہت شوقین تھیں ۔ اکثر بڑے برمحل شعر پڑھ دیتیں ۔ ایک روز جب میں انکے قریب ہی بیٹھا تھا کہ مجھے ہچکیاں آنا شروع ہوگئیں تو فورا مجھ پر ایک شعر چسپاں کردیا ۔۔

“ہچکیاں بن گئیں آج گلے کا پھندا

جانے کس وعدہ فراموش کو میں یاد آیا “

ایک رات میں دیر سے گھر لوٹا۔ حسب عادت پہلے ان کے کمرے میں گیا اور دیر سے آنے کی وجہ بتانے کی کوشش میں بے ربط ہوگیا تو فرماتی ہیں ۔۔۔۔

” نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے ۔۔

پسینہ پوچھئیے اپنی جبیں سے “

اور مجھے یوں لگا کہ انہوں نے میری کوئی چوری پکڑلی ہو ۔۔۔۔۔۔

گھر میں روز کئی اخبار اور ہر ماہ مختلف رسالے ،جرائد اور میگزین آتے جو تقریباً سب ہی اماں پڑھتیں اسکے علاوہ محلے کی لائبریری سے نسیم حجازی، رضیہ بٹ ،اے آر خاتون اور ابن صفی سب کو پڑھتیں ۔ شعر وادب سے بھی بہت لگائو تھا شاہنامہ اسلام ترنم سے پڑھتیں اور آب دیدہ ہوجاتیں ۔ منٹو ، عصمت چغتائی ،مجاز ، جذبی سب ہی انکے مطالعے میں رہتے۔۔۔ بارہا ایسا ہوا کہ لائبریری سے کتاب منگواتیں اور بار بار یہ کہ کر واپس کروادیتیں کہ یہ تو ہماری پڑھی ہوئی ہے ۔ ہم کئی چکر لگاتے ۔ زچ آکر لائبریری والا اپنا رجسٹر ہی دے دیتا کہ اماں کو دکھا دو جو کتاب نہیں پڑھی وہ بتا دیں ۔۔۔۔

مجروح صاحب چچا کے بچپن کے دوست تھے اور اکثر گھر آتے اماں کو بھوجی کہتے اور اپنی مترنم آواز میں گیت سناتے اور اماں کے ہاتھوں کا پکا لذیذ کھانا کھاتے ۔۔

اماں بہت روایتی خاتون تھیں ہر تہوار اورشادی بیاہ کے موقع خوب گانا بجانا کرتیں اور ان موقعوں پر دینے دلانے کا بہت اہتمام کرتیں . یہاں تک کہ گھر کے ملازمین کیلئے بھی جوڑے بنتے اور بڑے چائو سے کہتیں ” اے بھیا یہ پرجا کا حق ہے ” دور دراز کے رشتہ کی بہنوں کو بھی” نیگ ” ضرور بھجواتیں … اماں کے اسی شوق اور مزاج کو دیکھتے ہوئے انکے بہنوئی صاحب نے انہیں ” دھوم دھام ” کے خطاب سے نوازا ۔۔۔۔۔ اور وہ واقعی اسکی اہل بھی تھیں ۔

ربیع الاول کے مہینے میں خوب نعتیں اور سلام پڑھتیں ۔ اسی طرع محرم کے دس دن مرثیے ، نوحے اور سلام پڑھتیں اور ریڈیو پربھی سنتیں اور خوب روتیں۔ دس محرم کو محفل شام غریباں ٹی وی پر ضرور دیکھتیں اور اہلبیت پر ہونے والے مصائب پر آنسو بہاتیں ۔ اسی طرع شب برات میں قسم قسم کے حلوے بھی بناتیں اور تقسیم کرواتیں ۔ انکے اس شوق کے سامنے ابا کی وہابیت بھی کچھ کام نہ آتی اور وہ خاموش ہی رہتے ۔ کیسے وضع دار لوگ تھے ۔۔۔

جب تک اماں رہیں پرانی رسم و رواج پر عمل بھی ہوتا تھا , پکوان بھی پکتے تھے ۔ وہ ساون کے گیت بھی پوربی زبان میں خوب گاتی تھیں اور اپنا میکہ یاد کرکے روتیں .. پوتے پوتیوں کی پیدائش پر کچھ مخصوص گیت اگر مجھے نام ٹھیک سے یاد ہے “سہل ” گاتیں انکے ساتھ خالائیں اور نانی اماں بھی سر ملاتیں ان گیتوں میں سنسکرت کے دیو مالائی کردار “نند لال” کا ذکر بار بار ہوتا یہ گیت ڈھیٹ پوربی میں ہوتے.. ہمارے پلے کچھ نہیں پڑتا .. لیکن اسکی لے اچھی ضرور لگتی تھں .. اسکی علاوہ اور بہت سے گیت موقع محل اور موسم کے لحاظ سے گائے جاتے . ” مورے سیاں جی اترینگے پار ندیا دھیرے بہو ” ” چھوڑ بابل کا گھر موہے پی کے نگر” اور امیر خسرو کے گیت خوب لہک کر گاتیں اور ساتھ ہی ساتھ روتی بھی جاتیں ۔۔ شادی کہیں بھی یا کسی کی بیٹی کی ہو اماں رخصتی کے گیت ضرور گاتیں اور آنسو بہاتیں ۔۔۔

آج بھی جب ذہن بچپن کے واقعات اور ان سے جڑی یادوں روایات میں کھو جاتا ہے تو بے شمار بھولی بسری یادیں سر اٹھانے لگتی ہیں .. والدین کا وہ سنہرا دور جب وہ مکمل طور پر فعال تھے اپنی گوناگوں مصروفیات اور معاشی تگ و دو کے باوجود ان بزرگوں نے اپنی روایات اور اقدار کو بھی کسی طور زندہ رکھا اور انہیں بخوبی نباہ بھی رہے تھے ۔ باجود اسکے کہ تقسیم کے بعد اکثر خاندان ٹوٹ پھوٹ اور کسمپرسی کا شکار ہوئے اور حالات کے جبر کے باوجود انہوں نے اپنی اقدار کو بھی زندہ رکھا جو یقینا آسان نہ ہوگا …

اب اماں نہیں رہیں اور اپنے ساتھ وہ میٹھی اور محبتوں بھری روایتیں بھی لے گئیں ہر طرف نفسا نفسی اور خود غرضی کا راج ہے کوئی گداز اور رکھ رکھائو باقی نہیں رہا ……

اللہ ان نیک ہستیوں کے درجات بلند فرمائے جن کے دم سے تہذیب اور شائستگی کا رواج تھا …

” قل رب الرحمہما کما ربیانی صغیراً “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).