چوہدری محمدعلی ردولوی سے ….ضیا محی الدین تک


جن کو یہ مرض لگا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ کتابیں خرید خرید کر گھر میں بھرنے کی بیماری انہیں پڑھ ڈالنے سے مشروط نہیں، خرید کر اپنا لینے کی ہوس پوری کرنے کے لئے صرف پڑھنے کی نیت ہی بہت کافی ہے۔ ہمارے گھر میں بھی یہ عام دیکھا گیا ہے کہ پچھلی صدی میں خریدی گئی کچھ کتابیں بھی آج تک پڑھنے کی نوبت نہیں آئی۔ اس مرض کی ماہیت اور دیگر رزائل و فضائل پر پھر کبھی مزید روشنی ڈالیں گے ، فی الحال تو اس مرض سے جڑی فقط ایک خباثت کا ذکر کرنا مقصود تھا یعنی اپنے اندر لائیبریری جانے کی حاجت کا تقریباً مر جانا۔ لیکن پھر بھی کتب خانے کی سیر کا کچھ ایسا چسکا ہے کہ مع اہل و عیال مہینے میں کم از کم ایک حاضری تو واجب ہے۔ لیکن گزشتہ کئی سالوں میں دورانِ سیر اپنی تحلیل نفسی کے دوران ہم پر یہ راز افشا ہوا کہ ہم ہر اس کتاب کو عاریتاً پڑھنے سے ہچکچاتے ہیں جسے مرنے سے پیشتر خرید لینے کاذرا سا بھی امکان ہو۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک بشمول اردوئے معلیٰ ، عود ہندی، ٹائن بی کی تاریخ، ٹی ایس ایلیٹ کے خطوط اور گبن کی ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائر کی جلدوں کے، ہم لاتعداد دوسری مشہور ترین کلاسیک کتابوں کولائیبریری کی الماریوں میں سے بارہا نکال کر ورق گردانی کرتے ہوئے نہ صرف اس احتیاط سے رال ٹپکاتے ہیں کہ کتاب لائیبریری ہی میں محفوظ رہے بلکہ تجدید نیت کرتے ہیں کہ اللہ نے چاہا تو کسی نہ کسی دن خرید کر ہی پڑھیں گے۔
اس تمہید کاموضوع سے براہِ راست صرف اتنا تعلق تھا کہ قارئین میں سے کوئی احباب ہمیں مذکورہ بالا کتابیں تحفے میں دینا چاہیں تو ہم قیمت کی پروا نہ کرتے ہوئے فوراً تحفہ قبول کر لیں گے۔

دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ اس ہفتے ہم شاید زندگی میں پہلی اور آخری بار اپنے مرض پر قابو پانے میں کامیاب ہو ہی گئے یعنی رہ نہ سکے اور چودھری محمد علی ردولوی کے خطوط جن کی تلاش میں ہم برسوں سے ہیں اور کافی تلاش و بسیار کے بعدبھی ناکام ہیں، بالآخر لائیبریری سے مانگ کر پڑھنے پر مجبور ہو گئے۔ یہاں ہم اس کھلے ’کنفیشن باکس‘ میں یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ دل تو ہمارا چوری پر بھی مائل تھا لیکن کچھ اپنے بیوی بچوں کے ڈر سے اور کچھ اپنی ڈھلتی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے اس ارادے سے باز رہے۔ ہمارے پاس موجود کتابوں میں ابن انشا کی ’چاند نگر‘ اور اسٹیفن کنگ کے کچھ ناول بچپن کی چوریوں کی یاداشت کے طور پر پہلے ہی ہمارا منہ چڑانے کے لئے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔

خط کیا ہیں ایک رنگا رنگ نیرنگِ خیال، ایک جہان ِ طلسم ہے، بلکہ یوں کہئے کہ مسلسل اپنی گرہیں کھولتی خوبصورت اور سادہ انسانی زندگی ہے، قاری کے لئے ایک ایسا سفر جس سے دل سیر نہیں ہوتا۔راقم ردولوی صاحب کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتا۔ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بٹوارے کے بعد ردولی ہی میں رہ گئے، خاندان اس سے کافی پہلے ہی تتر بتر ہو چکا تھا اور رہی سہی کسر بٹوارے نے پوری کر دی۔ زیادہ تر خطوط ان کی بیٹی ہما بیگم کے نام ہیں لیکن کئی خطوط ایسے بھی ہیں جو اپنے دوسرے بچوں اور دیگر احباب کو لکھے گئے۔ مضامین کی جہتوں کا تخمینہ خطوط کو پڑھے بغیر ناممکن ہے، کہیں اللہ میاں سے راز و نیاز اور دوستانہ چھیڑخانی ہے تو کہیں اپنے بیٹے سلمان سے خط نہ لکھنے کا گلہ، کہیں شیعوں سے گلہ کہ وہ انہیں اہل سنت کے قریب سمجھتے ہیں، جو ان سے حسن ظن بھی رکھتے ہیں ان کا الزام ہے کہ وہ تقیہ پر مائل ہیں، تو کہیں سنیوں سے گلہ کہ وہ پوری طرح سنی ہی کیوں نہیں ہو جاتے، ایک تیسرا طبقہ ہے جو انہیں لامذہب گردانتا ہے لیکن اس سے وہ ان خطوط کی حد تک کم ہی خائف نظر آتے ہیں۔ کتابوں کا تو ذکر ہی کیا، کسی جگہ اپنی بیٹی کو خلیل جبران کے ہیرو المصطفےٰ سے متعارف کروا رہے ہیں تو کہیں اپنی صحت کے مسخ ہونے کو آسکر وائلڈ کے ڈورین گرے کی شبیہ مسخ ہونے سے جا ملاتے ہیں، کہیں علامہ اسد اور یوسف علی کے ترجمہ قرآن کا ذکر ہے تو کہیں غلام جیلانی برق کی کتابوں کا، اردو کے شعر تو ہر خط میں مل جائیں گے لیکن کہیں نہ کہیں انگریزی نظمیں بھی یادداشت سے سناتے نظر آتے ہیں۔کچھ خطوط تو ایسے ہیں جو اردو کلاسیک کی اہم ترین چیزوں میں شمار کئے جانے کے قابل ہیں اور بحیثیت مجموعی اس برقی خط و خطابت کے دور میں بھی ان کافن خط نویسی ادبی نوادرات کے طور پر نصاب میں پڑھائے جانے کے قابل ہے۔لیجئے کسی باقاعدہ انتخاب کی زحمت کے بغیر کچھ مختصر اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

7 فروری 1948
ہما پیاری۔ دعائیں
گاندھی کا پرسہ قبول کرو۔ ایک شخص نے کہا ہے سقراط کو دنیا نے زہر کا پیالہ دیا۔ عیسی علیہ السلام کو صلیب دی اور گاندھی کو سیسے کی گولیاں دیں۔دنیا نے کچھ ترقی نہیں کی۔جہاں تھی وہیں ہے۔ یہ تو ضرور ہوا مگر سقراط کو زہر دینے والے دنیا سے ناپید ہو گئے۔ عیسی علیہ السلام کو مارنے والے انیس سو پندرہ سال سے نگھرے پھر رہے ہیں۔ کیسے کہوں کہ راشتریہ سیوم سنگھ اور ہندو سبھا دنیا میں پھلے پھولیں گے۔ اور آباد ہوں گے۔پھر گو دنیا کی حالت ہزار نہ بدلے لیکن سوا ہندوستان یا کسی بالکل وحشی ملک کے گاندھی مرحوم مغفور کے ساتھ یہ برتاو کہیں نہ ہوتا۔ جن لوگوں نے نہتوں کو مارا۔ بے بس عورتوں کو بے آبرو کیا وہی یہ بھی کر سکتے تھے۔ ممکن ہے پاکستان میں بھی کوئی ایسا کم بخت نکل ہی آتا۔ مگر جب تک کوئی کر نہ گزرے تب تک کسی آدم کی اولاد پر بہیمیت کا اتنا بڑا شک کرنا آدمی کی ذلت کرنا ہے۔اس اعلی اللہ مقامہ کا صرف یہ قصور تھا کہ اس نے ہندوو¿ں کی دوستی میں انسانیت کو برقرار کیا۔ اس نے کہا میں بت کو پوجتا ہوں۔ گو صرف پتھر کو نہیں پوجتا میں سناتن دھرمی ہوں۔ میں نے تمام مذاہب کو جانچ کر سناتن دھرمی مذہب اختیار کیا ہے۔ تم مسلمانوں سے لڑو گے تو دونوں خاک میں مل جائیں گے۔ پھر بھی اسلام تو ہندوستان سے باہر رہ جائے گا۔ ہاں ہندویت ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ ہندوویت سوا ہندوستان کے کہاں ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا۔ ایک پڑھے لکھے آدمی نے اس کو شہید کیا۔ان الذین امنو اوالذین ھادو والنصاری والصائبین من امن باللہ والیوم الاخر وعمل صالحا فلھم اجرا عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنون۔ صائبین میں گاندھی کا شمار ضرور بالضرور ہے۔ لاریب فیہ۔ ممکن ہے یہ خط سنسر والے پکڑ لیں۔ مگر ہما بیگم مجھ کو اس مقبول قربانی کی وہ تکلیف ہے کہ عرض نہیں کر سکتا۔ معلوم ہوتا ہے کسی بے حس اور بے مس پتھر نے چینی کا وہ برتن توڑ ڈالا جس کا قوام ہزار برس میں تیار ہوتا ہے۔

1948کی کوئی تاریخ
جمیل المناقب جناب مینجر صاحب امت الحامکم۔ تسلیمات۔
آپ نے میرے مذہبی رجحانات کے بارے میں جو فرمایا ہے وہ ایک حد تک ممکن ہے بالکل درست ہو گو مجھ وکو خبر نہ ہو مگر میرے دل کو شیعہ یا سنی کہے جانے سے تسکین نہیں ہوتی۔اسے جس جذبے سے تسکین ہوتی ہے وہ نصیب نہیں۔ یعنی مجھ کو اربابِ فہم بے وقوف کہیں، جاہل کہیں، گناہ گار کہیں ، مگر مسلمان سمجھیں۔ غضب تو یہ ہے کہ کوئی متعصب شیعہ کہتا ہے، کوئی سنیوں کا خوشامدی کہتا ہے، کوئی ڈھل مل یقین کہتا ہے، کوئی دہریہ کہتا ہے؟ مگر مسلمان کوئی نہیں کہتا۔ تیرہ سو برس بعد مسلمان ہونا ویسا ہی مشکل ہو گیا ہے جیسے پھر سے معصوم بچہ ہوجانا۔

23جولائی  1948
ہما پیاری! دعائیں اور شکریہ۔ نہ معلوم کیا ہے کہ کراچی سے کوئی صاحب خط لکھنے کی تکلیف نہیں کرتے۔ عاجز ہو کر میں نے بھی لکھنا کم کر دیا تھا۔ مگر مجبور ہو کر ایک خط پھر کاظم کو لکھا ہے۔ تمہارے خطوط البتہ ریگستان کے بیچ میں نخلستان کا لطف پیدا کرتے ہیں۔حالانکہ ان میں بھی مذہبیت اتنی غالب ہوتی ہے کہ خوشی کے ساتھ اپنی کمتری محسوس کر کے دل کانپ جاتا ہے۔روزے کے اوپر جو عملی واقعات تم نے لکھے ہیں وہ تو کچھ میرے دل پر بیٹھے نہیں۔ جب بہت سی باتیں شرع کے خلاف جائز ہوں تو روزہ خور پر یہ سختیاں کہاں تک حق، انصاف اور شرع کا پہلو لئے ہیں۔ خیر ہو گا۔ تمہارے احکام القرآن پر دیباچہ لکھنا اس وقت تک تو ہوا نہیں لیکن روز کوشش میں رہتا ہوں۔خدا میرے منہ میں تمہاری طرف سے صندل لگائے آمین! ….اس وقت صبح آٹھ بجنے والے ہی۔ ابر گھرا ہے۔بوندیں پڑ رہی ہیں۔باغ میں ہر طرف ہریالی ہے۔بیس دن ادھر ہر سبزی میں زردی، ہر پتی مرجھائی اور اب ماشااللہ ہر چیز ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے لڑکی میکے پہنچ گئی۔ ٹھنڈی ہوا پہاڑ سے بہتر چل رہی ہے، وہاں تو گرم کپڑے نہ پہنو تو چل لگ جائے یہاں کھلے بندوں بیٹھے رہو۔ برسات کی جھڑی لگی ہے۔ درخت جھوم رہے ہیں۔جب ہوا زور سے گدگداتی ہے تو ہنسی کے مارے ایسے لوٹتے ہیں کہ ہنستے ہنستے گر پڑیں گے۔ آج کل گلاب کی کلیاں توڑ ڈالی جاتی ہیں کہ آئندہ بہار میں درخت میں کمزور نہ ہوں۔ مگر آنکھیں رنگ کو ترس گئی ہیں۔اس لئے میں نے کلیاں نہیں چنوائیں۔پھول اچھے نہ سہی مگر رنگ تو ہے۔ گلاب کے علاوہ ساونی، چاندنی، انار خوب پھولے ہیں۔کامنی کا کیا کہنا! بار الٰہا، شکراً، شکراً، شکراًٍ عفواً عفواً عفواً۔

4 مارچ 1952
ڈئیر ولایت حسین صاحب تسلیم۔ آپ کا آخری کارڈ آیا۔ آپ ماشاللہ جوان آدمی، پڑھے لکھے، سمجھ دار، ذمہ دار، بالغ ، عاقل، مکلف۔ راستے کی مشکلوں، سفر کی صعوبتوں کی اس قدر پوچھ گچھ کیا ہے۔ ارے صاحب الہٰ آباد کے اسٹیشن پر ٹکٹ گھر ڈھونڈ لیجئے۔ ردولی کا ٹکٹ لیجئے اور ہمت کر کے ریل میں بیٹھ جائیے۔ دل افگندیم بسم اللہ مجریہا و مرسٰہا! اور احتیاط مدنظر ہو تو جو ماما آپ کے کھانا پکاتی ہے اس سے کہئے کہ داہنے بازو پر ایک پیسہ امام ضامن کا باند دے۔ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے، ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے۔فیض آباد کے اسٹیشن پر کوئی نہ کوئی بندہ خدا مل ہی جائے گا جو لکھنو¿ جانے والی گاڑی پر آپ کو بٹھا دے گا۔فیض آباد کے اسٹیشن پر بندر بہت ہیں۔ مگر امام ضامن تو بازو پر بندھا ہی ہو گا۔پھر ڈر کاہے کا ۔ہم سفر ردولی اسٹیشن بتا دیں گے۔جی کڑا کر کے اتر پڑیے گا۔ اگر آمد کا وقت معلوم ہو گیا تو میرا آدمی وہاں موجود ہو گا۔ اگر میں اس دن تک مر گیا تب بھی محمد علی کو اتنی جلدی لوگ بھول نہ گئے ہوں گے۔کوئی نہ کوئی خدا ترس آپ کو میرے گھر کا پتا بتا ہی دے گا۔ہمت مرداں مدد خدا۔آپ چل کھڑے ہوئیے گا۔سب سے پہلے میری بی بی سے میری موت کا باوقت پرسہ دیجئے گا اس کے بعد اور باتیں کیجئے گا۔ البتہ اسٹیشن سے غریب خانے تک سڑک خراب ہے۔ یکے تانگے کا ڈنڈا مضبوطی سے پکڑے رہئے گا۔خدا چاہے تو بیڑا پار ہے۔ آپ خدانخواستہ کچھ موم کے بنے تو ہیں نہیں کہ دھوپ میں دشمنوں کے پگھل جانے کا ڈر ہو۔ شکر کا پنڈا تو ہے نہیں کہ برسات میں بہہ جائےگا۔ پھر کیا پروا ہے۔ اور تقدیر میں خدانخواستہ نصیب دشمناں لاکھ کوس دور سات قرآن درمیان۔شیطان کے کان بہرے، اگر کچھ ایسا لکھا ہے تو رضا بقضائہ تسلیماً لامرہ۔ اگر آپ کے دل میں اس بات کا دھڑکا ہو کہ میں مہمان کو مار ڈالتا ہوں تو الہ آباد میں صدیق حسن بورڈ آف ریوینیو، سراج الدین ڈی آئی جی پولیس، جسٹس گھبردیال صاحب، رگھوپتی سہائے صاحب فراق…. ان حضرات سے تصدیق کر لیجئے گا کہ میں آدم خواری کا شوق نہیں رکھتا۔ اصل معاملہ تو ایک طرف رہا مجھ کو بڑا اشتیاق آپ کی زیارت کا ہے اور امید کرتا ہوں کہ انشااللہ تعالی میرے آپ کے مراسم گہرے ہو جائیں گے….

12ستمبر 1951(ہما بیگم کے نام)
میری جان دعا۔ اپنا حال لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ تمہارا حال جاننے کو دل بے چین ہے۔۔۔تم اپنا حال کہو۔ میں نے کہا تھا کہ اپنا حال لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔اب صرف اپنا ہی حال دماغ میں آ رہا ہے۔ اللہ سمجھے اس انانیت سے۔سنو! آج کل نماز بڑے خشوع وخضوع سے پڑھ رہے تھے۔ سجدہ شکر کے ساتھ بڑے ہی جی سے دعائیں مانگتے تھے۔ دعائیں مادی استفادے کی تو مانگتے ہی تھے، نفسیاتی پہلو کی زیادہ مانگتے تھے۔مثلاً بار الٰہا غرور کم کر، حسد کم کر، بار الٰہا اپنی مرضی پر راضی رکھ۔ مالک میرے رحم فرما۔ میرا استحقاق کچھ نہیں مگر رحیم کریم تو ہے۔ اس میں اچھا خاصا طول ہوتا تھا۔ جس کو میں نفس توڑنے کی علامت سمجھتا تھا۔ ایک دن میں نماز پڑھ رہا تھا کہ آفاق آ گئے۔سلام پھیر کر ان سے باتیں کرنے لگا اور پھر عصر کی نماز کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔دورانِ نماز میں خیال ہو ا کہ دعا مانگنا بھول گیا۔ایک عجیب تعجب خیز خیال دل میں آیا۔ یعنی دل نے کہا اچھا ہوا اس گھس گھس سے بچ گئے۔خیالات کے اوپر فالج گر پڑا۔ میں مبہوت ہو کر رہ گیا کہ یہ کیا ہے؟ اب تجزیہ کرتا ہوں تو معلوم ہوا کہ دعا کے قبول ہونے کا یقین نہیں تھا۔ خود وجود باری تعالی میں ایک دھندلا سا یقین عادتاً پڑ گیا تھا۔ میں انکساری کی شاعری نہیں کر رہا ہوں، اپنی سچی مصیبت کا بیان کر رہا ہوں۔گو میں ہمیشہ سے کہتا تھا کہ بغیر دیکھی چیزوں کا یقین اس درجے کا نہیں ہوتا جیسا بدیہات کا ہوتا ہے مگر اپنی بے ایمانی کی اس حد سے واقف نہ تھا۔اب نماز کے بعد صرف خدا کے رحم کی دعا مانگتا ہوں۔ہما! کہو اب کیا کریں ہم اپنی لاادریت سے واقف تھے مگر پھر بھی یہ نہیں سمجھتے تھے کہ کفر کی ان گہرائیوں تک ہیں۔ نماز وغیرہ پڑھ کر ہمیشہ سے جانتے تھے کہ اس طرح ہمارے اعمال باضابطہ اور اچھے ہو جائیں گے لیکن کفر کے اس درجے کی خبر نہیں تھی۔

21نومبر 1955(ہما بیگم کے نام)
جان پدر، دعا ہائے فراواں۔ کل پھر تمہارا خط آیا، تفریح قلب، سرورِ جاں ہوا۔ باوجود کاروبار اور بیگار کے چھ سو میل پر بیٹھی ہوئی میری تیمارداری کئے جاتی ہو۔ خدا تم کو اس کا اجر دے۔ آمین…. تم نے میرا حال دریافت کیا ہے۔ سنو۔میرا بایاں ہاتھ بالکل بیکار ہے۔مگر خفیف سی جنبش اختیا ر میں ہے۔ بایاں پاوں اٹھ جاتا ہے لیکن اگر کوئی طاقتور آدمی مجھ کو پکڑے نہ ر ہے تو میں گر پڑوں۔ یعنی مفلوج محض ہوں۔ کرسی پر سے خود ہل نہیں سکتا۔ دیر تک بیٹھ نہیں سکتا۔ اس کارڈ کے لکھنے میں دو تین بار درمیان درمیان آرام کرسی پر لیٹ چکا ہوں تب لکھ سکا۔ موٹا ہو گیا ہوں یعنی نوکروں کو اٹھانے میں اور تکلیف ہوتی ہے۔فرنچ داڑھی رکھوا لی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ معلوم نہیں اللہ میاں کو بھی اچھی لگے کی یا نہیں۔ میری مجبوریوں کا حال نہ پوچھو۔ یہ کارڈ تب لکھ سکا ہوں جب دوسرا آدمی اس کے کونے پکڑے ہے۔ اگر آرام کرسی پر چھپکلی گر پڑے تو میں مجبورِ محض ہوں۔ خود نہیں اٹھ سکتا۔ انتہا یہ ہے کہ دوسرا طہارت کراتا ہے۔ جانے دو اس قصے کو۔ میرے لئے دعائے مغفرت کرو۔ دنیا کی حالت بھی ہزار ہزار قابل شکر ہے۔ دوسروں کی مجبوریاں مجھ سے بہت زیادہ ہیں۔

4 جولائی 1956(ہما بیگم کے نام)
ہما پیاری! دعا۔اپنے دماغ میں اکثر تم کو خط لکھا کرتا ہوں۔معلوم نہیں خیالی خط یا سچ مچ کا۔یقیناً خیالی خط رہا ہو گا۔اول تو بات اس طرح یاد آتی ہے جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔دوسرے تمہارا ہمیشہ کا ایسا دلدوز خط پا کر یہ بھی خیال دل میں جما ہوا تھا کہ ابھی ہما ہماری ایک اور خط کی قرضدار ہوں گی۔ نہ معلوم واقعی یا ہمارے خواب و خیال میں اچھا ہو گا۔آج کل میں نئی لائیبریری لاہور کی ’امراو¿ جان ادا‘ پڑھ رہا تھا۔بےچاری الن کو خدا خوش رکھے اس نے میری فرمائش پر کراچی بھر میں تلاش کر کے بھیج دی۔’کلیات اکبر‘ بھی مانگا تھا۔ ان کو صرف پہلا حصہ دستیاب ہوا۔ مگر نہ معلوم کن مشکلوں سے دوسرا حصہ حسن اتفاق سے میرے یہاں نکل آیا۔ تیسرے حصے کی آرزو ہے۔میرا مکمل کلیات اکبر نہ معلوم کون لے گیا۔اس میں سینکڑوں جگہ پسند کے نشانات میں نے لگائے تھے۔ادھر ادھر کے سادہ اوراق پر نہ معلوم کون کون تنقیدی، تقریظی اور تعریفی باتیں لکھی تھیں۔اب اگر دوسرے دیوان بھی ملے تو وہ تحریریں کہاں سے آئیں گی۔ مگر ہوس اب بھی کہتی ہے کہ تیسرا حصہ مل جائے تو پھر سے کلیات مکمل ہو جاتا۔ قبر میں پاو¿ں لٹکائے ہوں۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ میری آنکھیں بند ہونے کے بعد میری کتابیں نہ معلوم کس نخاس میں ٹھکانے لگیں گی۔ مگر ہائے ہوس۔ بھاڑ میں جائے ہوس۔ پھر بھی وہی شوق ہے جیسے ہم ہمیشہ وہی کتابیں پڑھا کریں گے۔ حالانکہ وہاں اعمال نامہ پڑھنا پڑے گا جس سے دل دہل رہا ہے…. اے لو میں نئی امراو¿ جان ادا پر تنقید کرنے والا تھا۔ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ خیر انشاللہ کسی آئندہ خط میں لکھوں گا۔

چند آخری خطوط سے معلوم ہوتا ہے ان کی بیٹی نے ان کی موت سے ایک آدھ سال پہلے ’گویا دبستاں کھل گیا‘ چھپوانے کی خواہش ظاہر کی تو ردولوی صاحب سے اس کا ذکر کیا۔ وہ خوش تھے لیکن یہ ڈر بھی تھا کہ ہنستے ہنساتے، روتے رلاتے ان سے خاندان کے کسی فرد یا دوست کی دل آزاری نہ ہو۔اس سلسلے کے ایک دلچسپ خط میں ذکر کرتے ہیں کہ اچھا ہے انہوں نے ابوالکلام آزاد کی طرح چھپوانے کی نیت سے خطوط نہیں لکھے ورنہ لفاظی و صناعی کا عنصر غالب آ جاتا۔ خطوط ہی سے ان کی کچھ دوسری کتابوں کے بارے میں بھی معلومات ملتی ہیں جنہیں معلوم نہیں کبھی بعد میں اشاعت نصیب ہوئی یا نہیں۔

چوہدری محمدعلی ردولوی (1882 – 1959)اردو ادب اور ہماری تہذیب کا ایک اہم سنگ میل تھے۔ ایک نسل نے انہیں فراموش کر دیا۔ عاصم بخشی صاحب کی تعارفی سطور دیکھئے تو یقین ہوتا ہے کہ ایک سچی تحریر کو نقاد کی سفارش اور اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اچھی تخلیق کو ایک نہ ایک دن انسان دریافت کر لیں گے، کیونکہ اعلیٰ فن تخلیق کار کی ذات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کا اثاثہ بن جاتا ہے۔ انسانوں کو اعلیٰ فنون کی ضرورت ہوتی ہے ۔ محمد علی ردولوی اور وہ سب تخلیق کار پھر سے دریافت کئے جائیں گے جو انسانی تہذیب کی مشترکہ امانت ہیں۔ چوہدری محمدعلی ردولوی بیسویں صدی میں اودھ کی تہذیب اور جدید ہندوستان کے کڑھے ہوئے نمونوں میں سے ایک تھے۔ عاصم بخشی ایک نفیس دل و دماغ لے کر اردو صحافت میں آئے ہیں۔ ’ہم سب‘ کی طرف سے ان کے شکریے کے ساتھ ایک اضافی سوغات یہ کہ ذیل کا لنک ملاحظہ کیجئے۔ ضیا محی الدین چوہدری محمدعلی ردولوی کا ایک خط پڑھ رہے ہیں۔ حرف اور آہنگ کے سنگم سے لطف اٹھائیے۔ خدا ’ہم سب‘ کو خوش رکھے۔(مدیر)

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments