سینٹ انتخابات: صوبوں کے حقوق اور پاکستان کا وفاقی نظام


الیکشن کمیشن نے 3 مارچ کو سینٹ کے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا ہے٬ جس کے مطابق سندھ اور پنجاب کی 12، 12 نشستوں٬ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی 11، 11 نشستوں اور اسلام آباد کی ایک جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ نشست پر انتخابات ہوں گے۔ علاوہ ازیں فاٹا کی نشستوں اور سندھ اور پنجاب کی 7 جنرل٬ 2 ٹیکنوکریٹس٬ 2 خواتین اور ایک اقلیتی نشستوں کے بھی انتخابات ہوں گے۔ سینٹ انتخابات کے امکانی نتائج سے قطع نظر مذکورہ بالا صورتحال سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ سات دہائیاں گذرجانے اور آئینی طور پر ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام قائم ہونے کے باوجود پاکستان میں سینٹ کے ایوان کی تشکیل٬اہمیت٬ ہیئت اور کردار کو بالکل ہی نہیں سمجھا گیا یا جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا ہے۔

دنیا کے تمام تر یعنی 28 وفاقی ممالک میں سینٹ دراصل وفاق کی تشکیل کرنے والی آئینی وحدتوں یعنی ریاستوں اور صوبوں کی مساوی حیثیت پر مبنی ایک آئین ساز٬ پالیسی ساز اور قانون ساز ایوان کو کہا جاتا ہے۔ جب ایک ایوان کا آئینی جواز اور کردار ہی وفاق میں صوبوں کی مساوی نمائندگی کے ساتھ مشروط ہو تو پھر اسلام آباد٬ فاٹا٬ ٹیکنوکریٹس اور مذہبی اقلیتوں کی نشستوں کا کیا جواز بنتا ہے؟ یہ نشستیں آبادی کے ایوان یعنی قومی اسمبلی میں تو مختص ہو سکتی ہیں لیکن صوبوں کے جغرافیائی آئینی ایوان یعنی سینٹ میں ہرگز نہیں۔ سینٹ میں صوبوں کی نشستوں کی تعداد یکساں مقرر کرنے کے علاوہ بھی کچھ مخصوص علائقوں اور آبادیوں کی نشستیں مختص کرنے سے سینٹ کا مطلوبہ کردار ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ پھر صوبوں کی نمائندگی مساوی کردار ادا نہیں کر سکتی۔

رومی تہذیب کے اوائلی دور میں سینٹ کا ایوان موجود تھا لیکن اس ایوان میں غیرمنتخب اور نامزد کیے گئے مشیر شامل ہوتے تھے٬ جو کہ وقت کے بادشاہ یا حکمران کو مشورے دیا کرتے تھے۔ جدید انسانی سیاسی تاریخ میں سینٹ کا ایوان 1776ء میں امریکی کنفیڈ رل نظام میں سے پروان چڑھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وفاق کی تشکیل کرنے والی ریاستوں یا صوبوں کو ملکی اور وفاقی امور میں فیصلہ سازی میں یکساں نمائندگی حاصل ہو٬ کیوں کہ دنیا کے تمام وفاقی ممالک میں صوبوں کی آبادی میں بڑا فرق ہوتا ہے اور صرف آبادی کا ایوان یعنی قومی اسمبلی ملک میں وفاقی وحدتوں کی نہ تو نمائندگی کر سکتا ہے٬ نہ ان کے حقوق کا آئینی تحفظ کر سکتا ہے اور نہ ہی ان کے مفادات کے مطابق مطلوبہ پالیسیاں مرتب کر سکتا ہے۔ اس لیے پوری دنیا میں سینٹ کے ایوان کو وفاقی نظام کے لیے مشروط اور لازم وملزوم سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ وفاقی ممالک میں صوبوں کی آبادیوں میں بہت فرق موجود ہوتا ہے۔ ہندوستان کا صرف ایک صوبہ اُتر پردیش آبادی کے لحاظ سے پورے پاکستان سے بڑا ہے۔ پاکستان کی ہی مثال لیتے ہیں کہ پنجاب کی آبادی 55 فیصد سے زائد ہے اور 2017ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق بلوچستان کی آبادی اب جا کر ساڑے چھ فیصد کے تناسب کو پہنچی ہے۔ آبادی کی اس قدر مختلف صورتحال کے ہوتے ہوئے وفاق میں شامل صوبے آخر کس طرح سے ایک دوسرے کے مدِمقابل ہو سکتے ہیں یا اکثریت کی اجارہ داری سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ اس لیے اس کا حل وفاقی نظام میں یہ تلاش کیا گیا کہ ایک طرف صوبوں کو مکمل خودمختار کیا جائے اور دوسری جانب وفاق میں حقیقی طور پر بالائی ایوان یعنی سینٹ میں صوبوں کو مساوی نمائندگی فراہم کی جائے۔

پاکستان میں 1947ء سے لیکر 1956ء تک جو 1935ء کا برطانوی آئین بطور عبوری آئین نافذ رہا٬ اس میں سینٹ کا وجود ہی نہیں تھا۔ بعد ازاں ون یونٹ کے قیام کے بعد 1956ء میں جو وفاقی آئین آیا٬ اس میں ایک طرف مغربی پاکستان میں صوبے موجود ہی نہیں تھے تو دوسری جانب سینٹ کا ایوان تشکیل نہیں دیا گیا٬ یعنی وفاق کا مطلب آبادی کی بنیاد پر منتخب ایک ایوان تھا۔ 1962ء میں ایوب خان کے لائے گئے آئین کی بھی وہی صورتحال تھی٬ جس میں ملک کے اندر پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام نافذ کیا گیا لیکن سینٹ کا ایوان غائب تھا۔ 1973ء کے آئین میں ملک میں پہلی مرتبہ سینٹ کا ایوان تشکیل ہوا لیکن آج تک وہ وفاقی پارلیمنٹ کا برائے نام بالائی ایوان ہے۔ درحقیقت آج بھی ملک میں قومی اسمبلی کو ہی حتمی اختیارات حاصل ہیں۔ سینٹ سے نہ تو حکومت کی تشکیل ہوتی ہے٬ نہ وزیراعظم کا انتخاب ہوتا ہے٬ نہ وہاں پر بجیٹ پیش ہوتا ہے اور نہ ہی اس ایوان کو مالیاتی امور میں حتمی فیصلے کا اختیار حاصل ہے٬ تو پھر ایسا بے اختیار ایوان، ایوانِ بالا کیوں کر ہوا؟

مجھے گذشتہ تقریباً 15 برس سے ملک کے پارلیامینٹیرینز کو سیاسی اور آئینی معاملات خواہ وفاقی نظام کے بارے میں مختلف سطحوں پر تربیت دینے کا موقع میسر رہا ہے۔ اس وقت بھی آئی بی اے کراچی کی جانب سے سینٹ کے حوالے سے منعقدہ تربیتی پروگرام میں بطور مہمان استاد پڑھاتا ہوں۔ اس پورے عرصے کے دوران میں نے شدت سے محسوس کیا ہے کہ اراکینِ سینٹ یا پارلیمنٹ کی اکثریت کو وفاقی نظام یا سینٹ کے ایوان کی اہمیت کا ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں۔ مارچ میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے بھی ساری بھاگ دوڑ یہ ہی ہے کہ کون سی جماعت کتنی نشستیں حاصل کر پائے گی۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق تو آصف علی زرداری کو بلوچستان سے بھی نشستیں حاصل کرنے کا شوق ہوا ہے٬ جہاں پر صوبائی اسمبلی میں ان کی ایک بھی نسشت موجود نہیں۔

موجودہ حکمران طبقہ چونکہ ہر قسم کے انتخابات کو اقتداری ایوانوں میں پہنچ کر عوام کے وسائل کو لوٹنے کی سیڑھی سمجھتا ہے اس لیے جمہوریت کا مطلب ان کے ہاں صرف ہر قیمت اور ہر طریقے سے انتخابات میں کامیاب ہونا ہے۔ ان انتخابات سے عوام کو کیا حاصل ہوتا ہے؟ گورننس کا کون سا ماڈ ل آتا ہے؟ عوام کے حقوق کی محافظ جمہوریت کی جانب کچھ پیش رفت ہوتی ہے کہ نہیں- یہ ان کا دردِ سر نہیں۔ فی الحال جمہوریت ان کے لیے اقتدار اور دولت لوٹنے کی سیڑھی اور عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنے کا ذریعہ ہے۔

سیاسی جماعتوں کی لیڈ رشپ کو نہ تو خود وفاقی نظام٬ اس میں سینٹ کے ایوان کی حساس نوعیت٬ عمل اور کردار کا علم ہے اور نہ ہی وہ جماعتیں ان افراد کی کوئی تربیت کرتی ہیں جنہیں سینٹ میں نمائندگی دی جاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی سینیٹر کا بنیادی کام اور فرض پارلیمنٹ کے بالائی ایوان یعنی سینٹ میں پہنچ کر پارٹی کی نمائندگی کرنا نہیں بلکہ اپنے صوبے کے آئینی٬ سیاسی٬ معاشی اور ہر قسم کے حقوق کی نمائندگی اور حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سینٹ کے اندر ہر قسم کے غیرواسطے دار بل پیش ہوتے ہیں اور ان پر وقت اور عوام کے وسائل ضایع ہوتے ہیں۔ جب کہ سینٹ میں صرف وہ بل پیش ہونے چاہییں٬ جن کا تعلق صوبوں٬ بین الصوبائی اور بین الحکومتی معاملات یعنی مجموعی طور پر صوبوں کے حقوق کے تحفظ اور نمائندگی سے ہوتا ہے۔ یہاں پر تو امن امان کے بارے میں مباحث بھی سینٹ میں ہوتے ہیں اور جو اصل بل سینٹ میں پیش ہونے چاہییں٬ ان میں سے گذشتہ برسوں میں صرف ایک قومی زبانوں کا بل پیش ہوا ہے٬ جسے پارلیمنٹ کے تمام ممبران یا اکثریتی ایوان تو کجا پر سینٹ تک بھی منظور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے ممبران کے وفاقی نظام کے بارے میں ادراک کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور بات صرف حکمران طبقے کی سمجھ یا ادراک کی نہیں بلکہ نیت، ناجائز مفادات اور ارادے کی بھی ہے۔ جب جمہوریت کے نام پر نام نہاد اشرافیہ کا نظام (Oligarchy) نافذ ہو تو پھر حکمران طبقات کو جمہوریت کے صرف Quantitative  پہلو میں دلچسپی ہوتی ہے٬ معیاری (Qualitative) پہلو میں نہیں۔ یہی پاکستان میں ہو رہا ہے۔

سینٹ کے حوالے سے حقیقی سوال یہ نہیں کہ اس میں کون سی جماعت کے کتنے سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں بلکہ اصل سوال سینٹ کی بااختیار حیثیت٬ حقیقی طور پر ایوانِ بالا کے درجے٬ اس کے کردار اور سینیٹرز کے کردار کا ہے۔ موجودہ بے اختیار سینٹ نہ تو حقیقی وفاقی پارلیمانی نظام کی نمائندہ ہے اور نہ ہی اس میں صوبوں کے آئینی٬ سیاسی٬ ثقافتی٬ معاشی اور تمام حقوق کے تحفظ کا سوال موجود ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ سینٹ کی بااختیار حیثیت کا سوال ملک کی نام نہاد بڑی اور وفاقی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈ ا پر ہی نہیں٬ حتیٰ کہ 2010ء میں اٹھارویں آئینی ترمیم میں بھی اس اہم اور بنیادی سوال کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔

دنیا کے 28 وفاقی ممالک میں وفاقی نظام یا سینٹ کے انتخابات یا ہیئت کے بارے میں کوئی ایک متفقہ ماڈ ل تو نہیں لیکن تمام ممالک میں سینٹ کے ایوان کا وجود لازمی ہوتا ہے اور دوسری بات کہ اسے بین الصوبائی اور بین الحکومتی معاملات میں حتمی اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور تیسرا یہ کہ اس میں نمائندگی صرف صوبوں کی ہی اور وہ بھی آبادی کے فرق سے قطع نظر مساوی بنیاد پر ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام وفاقی ممالک میں سے جرمنی کے اندر سینٹ کا ایوان (Bundersat) سب سے زیادہ طاقتور اور بااختیار ہے٬ جس کی حتمی رضامندی کے بغیر مرکزی حکومت کوئی بھی بل٬ قانون٬ آئینی ترمیم٬ پالیسی یا فیصلہ پاس نہیں کر وا سکتی٬ اگر اس کا تعلق صوبوں کے حقوق کے ساتھ ہو۔ ارجنٹینا٬ آسٹریلیا٬ برازیل٬ نائجیریا٬ میکسیکو٬ روس٬ جنوبی افریقہ٬ سئٹزرلینڈ اور امریکہ میں بھی صوبوں کی نمائندگی سینٹ میں مکمل طور پر مساوی ہے۔ دنیا کے اکثریتی وفاقی ممالک میں سینٹ کے انتخابات براہ راست ہوتے ہیں لیکن آسٹریا٬ بیلجم٬ بھارت٬ اسپین اور پاکستان میں انتخابات کہیں بالواسطہ٬ کہیں آبادی کی متناسب نمائندگی تو کہیں پر صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے ہوتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ اور ایتھیوپیا میں تو سینٹ کے انتخابات کا طریقہ کار وضع کرنے کا اختیار بھی صوبوں کو حاصل ہوتا ہے۔ جب کہ دنیا کی واحد فیڈ ریشن وینزویلا ہے٬ جہاں پر آج بھی سینٹ کا ایوان موجود نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں پر آبادی کے ایوان اور صوبوں کو متناسب نمائندگی حاصل ہے۔ جہاں تک سینٹ کے اختیارات کا تعلق ہے تو امریکی سینٹ کو تو اہم عہدوں کی تقرری٬ اعلانِ جنگ کرنے اور عالمی معاہدوں کی توثیق یا رد کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ ارجنٹینا، آسٹریلیا٬ برازیل اور سوئٹزرلینڈ کے سینٹ ایوانوں کو تو قانون سازی یا آئین میں ترامیم یا وفاقی پالیسیوں کے حوالے سے آئینی طورپر ویٹو پاور کا اختیار حاصل ہے۔ جرمنی میں بھی صوبائی یا بین الصوبائی اور بین الحکومتی معاملات میں سینٹ یعنی بندسریٹ (Bundersat) کو ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔ بھارت اور نائجیریا میں بھی سینٹ کو ویٹو کا اختیار حاصل ہے لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قطعی اکثریت کو اسے رد کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے۔ جب کہ آسٹریا٬ ملائیشیا اور اسپین میں سینٹ کو وفاقی فیصلوں کو معطل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ایتھیوپیا میں سینٹ کو قومی اسمبلی سے پاس شدہ بجٹ کو بھی رد کرنے کا اختیار حاصل ہے٬ اگر اس پر صوبوں کی اکثریت کو اعتراض ہو۔ اس لحاظ سے بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان میں سینٹ کے ایوان کو حقیقی ایوانِ بالا کا درجہ کب حاصل ہوگا؟ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں خواہ پارلیمنٹ کے ایجنڈ ا پر کب آئے گا؟ فی الوقت تو جن لوگوں کو براہ راست انتخابات میں حصہ نہیں ملتا انہیں خوش کرنے کے لیے ان کی جماعت انہیں سینیٹر بنا دیتی ہے او سینیٹرز کی اکثریت کو یہ احساس یا تصور ہی نہیں کہ سینٹ میں وہ صرف اپنی جماعتوں کے نہیں بلکہ اپنے صوبوں کے نمائندہ ہیں۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرز سسئی پلیجو٬ عاجز دھامراہ اور ڈ اکٹر کریم خواجہ کی جانب سے قومی زبانوں کے بارے میں بل سینٹ میں پیش بھی ہوتا ہے تو انہیں اپنی جماعت کی لیڈ رشپ کی طرف سے کوئی سرگرم حمایت حاصل نہیں ہوتی اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے سینیٹرز تو آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس کثیرالقومی ملک میں اتحاد صرف ایک قومی زبان کے ذریعے ہی پیدا کیا جا سکتا ہے٬ جو کہ ایک ناکام ٬ ناجائز اور غیروفاقی سوچ ہے۔

3 مارچ 2018  کو ہونے والے سینٹ انتخابات کا بنیادی سوال یہ ہونا چاہیے کہ یہ ایوان بحث مباحثے کے ایک سیاسی کلب کے طورپر جاری رہے گا یا اس ایوان کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے٬ جو کہ حقیقی وفاقی نظام کی بنیادی شرط اور روح ہوتے ہیں۔ سندھ سے تو پاکستان پیپلز پارٹی رحمان ملک جیسے لوگوں کو بھی سینیٹر منتخب کروا چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ سندھ سے سینٹ کی نمائندگی کیسی اور کس قدر معیاری ہوتی ہے۔

jami8195@gmail.com

جامی چانڈیو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جامی چانڈیو

جامی چانڈیو پاکستان کے نامور ترقی پسند ادیب اور اسکالر ہیں۔ وہ ایک مہمان استاد کے طور پر ملک کے مختلف اداروں میں پڑھاتے ہیں اور ان کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے۔ Jami8195@gmail.com chandiojami@twitter.com

jami-chandio has 8 posts and counting.See all posts by jami-chandio