یمن جنگ کے اثرات


قدیم رومن قصّے کہانیوں میں یمن کو خوش بخت اور ذرخیز زمین کہا گیا ہے مگر اب یمن ویسا نہیں جیسا ہمیں قدیم قصے کہانیوں پڑھتے تھے۔ یمن پر مارچ2015، میں جب سعودی عرب نے تمام عرب اتحادیوں کو لے کر امریکہ اور یورپ کی بھرپور مدد سے بمباری شروع کی تو اس بمباری کے دو مقاصد بیان کیے گئے تھے اول یمن کی سرزمین پر سے القاعدہ اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے ٹھکانوں کامکمل خاتمہ اور دوئم حوثی باغیوں کی ملک میں پیش قدمی کو روکنا۔

اب جب کہ اس بمباری کو ایک ہزار سے زائد دن گزر چکے ہیں خبر یہ کہ دونوں میں سے ایک بھی ہدف حاصل کرنا تو دور کی بات کسی ایک ہدف کے قریب تک بھی نہیں پہنچا جا سکا۔ ہاں دوسری طرف اب اس جنگ کے بھیانک اثرات دنیا کے سامنے ضرور آ رہے ہیں۔ دس ہزار سے زائد لوگ اس کارپٹ بمباری کی وجہ سے اب تک مارے جا چکے ہیں، ایک ملین کے قریب لوگ ہیضہ سمیت مختلف دیگر وبائی امراض میں مبتلا ہیں۔ اتحادی افواج کی طرف سے ملک کی شمالی بندرگاہ کو تمام قسم کے سامان کی نقل و حرکت کے لیے مکمل بند کردیا گیا ہے جس کے باعث یمن کی آدھی سے ذیادہ آبادی سنگین قحط سالی کے دھانے پر کھڑی ہے۔

سعودی عرب کی طرف سے بار با یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے کہ یمن میں بمباری صرف حوثی باغیوں کے کنٹرول والے علاقوں میں ہی کی جارہی مگر گراؤنڈ سے خبر یہ کہ یمن کا کوئی شہر کوئی کوئی قصبہ کوئی کوچہ اتحادی افواج کی بمباری سے محفوظ نہیں۔ یمن ڈیٹا پراجیکٹ کی دسمبر2017 ء میں ریلیز ہونے والی رپورٹ کے مطابق اتحادی فوج کے یمن میں ہر تیسرے حملے سے سکول ہسپتال اور سول سیکٹر متاثرہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 26 مارچ 2015 ء سے 15 دسمبر 2017 ء تک اتحادی افواج کی طرف سے یمن پر 15489 فضائی حملے کیے گئے جن میں سے 212 حملے ڈارئریکٹ سکولوں پر کیے گئے۔ 183 سے بازار اور پبلک پارکس کو نقصان پہنچا۔ 44 تاریخی عمارات بمباری سے منہدم ہو چکی ہیں جب کے 44 ہی مساجد اتحادی بمباری سے شہید ہو چکی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن میں رہنے والا ہر شخص اس جنگ کے اثرات سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوا۔ یمنی عوام کے لیے بمباری کی آوازیں اب معمول کی بات ہو گئیں ہیں۔ یمن معاشی طور پر مکمل دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ملک کی معاشی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2016 کے آغاز میں یمن کے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کیے بغیرجبری طور پر نوکری سے نکال دیا گیا جن کو تاحال ادائیگیاں نہیں ہو سکیں اور مستقبل قریب میں ہونے کی کوئی امید بھی نہیں۔ ہزاروں ڈاکٹر، ٹیچرز، پروفیسرز، نرسیں اور دیگر سابقہ سرکاری ملازمین بیروزگاری کا شکار ہیں۔ یہ لوگ اپنی گزر بسر کے کے لیے اپنے ضروری استعمال کی اشیاء تک بیچ رہے ہیں۔

مسلسل بمباری سے ملک کا بنیادی ڈھانچہ مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ ہزاروں سکول جبری بند کر کے پناہ گزین کیمپوں میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ ملک کے تقریبا تمام چھوٹے بڑے ہسپتالوں میں دوائیوں اور دیگر طبعی حالات کی شدید قلت ہے۔ ملک کے آدھے حصے میں 2016 سے بجلی کی مکمل بندش جاری ہے۔ صنعاء سمیت ملک کے تمام شہر ویرانی اور تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ماہ جنوری کے آغاذ میں پٹرول کی فی لیٹر قیمت تقریبا 2000 روپے پاکستانی ریکارڈ کی گئی۔

یمن اپنی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تمام اشیاء بشمول گندم اور چاول درآمد کرتا ہے۔ ستر فیصد تک ان برآمدات کی ٹرانسپوٹریشن ملک کے اس حصے سے ہوتی ہے جو باغیوں کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا ہے۔ ستمبر 2014میں جب صدر منصور ہادی باغیوں کے ساتھ مذاکرات اور الیکشن کے انعقاد سے منحرف ہو ئے تو حوثی باغیوں نے ان علاقوں سے درآمدات کی آمدور فت روک دی جو تاحال جاری ہے جس سے یمن کے ہر گھر میں غذائی قلت کا سامنا ہے۔

یمن کی جنگ عالمی طاقتوں کی توجہ کی مستحق ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو عالمی طاقتیں اور نہ ہی بین الاقوامی میڈیا اس مسئلے پر مناسب کوریج دے رہا ہے۔

سعودی عرب کے بیانیے کہ مطابق ایران یمن میں حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے اور ایران کے مطابق سعودی عرب مگر حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ سے صرف اور صرف معصوم یمنی متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک ہزار دن کی جنگ کے بعد یمن ملبے، بارود اور لاشوں کا ڈھیر بن چکا ہے اور تاحال جنگ رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).