کیا توہینِ عدالت کے بعد توہینِ آئین پر بھی سزا ملے گی؟


پاکستان بننے کے 26 سال بعد 1973 میں بالآخر پاکستان کا ایسا آئین متفقہ طور پر منظور ہوا جسے ملک میں موجود تمام قومی، علاقائی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی مجموعی قبولیت حاصل تھی۔ یہ انتشار زدہ پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی تھی کہ آخر کاریہاں بسنے والے شہریوں اور ریاست پاکستان کے آپسی تعلق کی نوعیت اور دونوں کے حقوق و فرائض طے پائے۔ شہریوں کو ریاست کا اصل مالک اور ان کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے ریاست کا اقتدار ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے سپرد کرنا طے پایا اور انہیں قانون سازی اور آئین میں ترمیم کا اختیار سونپا گیا اور ریاست کو شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کا فریضہ سونپا گیا۔ اسی طرح بدلے میں شہریوں کے لیے ریاست کا وفادار رہنا لازم اور ریاست سے غداری جرم قرار پایا۔

ریاست اور شہریوں کے اس تعلق کو دوام بخشنے کے لیے اور اس ریاستی بندوبست کو برقرار رکھنے کے لیے آئین کو توڑنا، کالعدم یا معطل کرنا سنگین غداری قرار پایا۔ اس سب کے باوجود اس آئین کو اب تک تین بار معطل کیا جا چکا ہے۔ آئین میں بغیر کسی اگر مگر کے آئین شکنی کے بارے مین صراحت کی گئی ہے لیکن شروع کے چند برسوں کے بعد سے عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل اداروں (پارلیمنٹ اور منتخب حکومت) اور غیر منتخب اداروں ( عدلیہ اور فوج) کے مابین اقتدار کی جنگ جاری ہے جس میں اب تک مجموعی طور پر غیر منتخب اداروں کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ ہر بار آئین توڑنے کا طریقہ کار تقریباً ایک سا رہا ہے۔

فوج کے سربراہ کی جانب سے آئین اور آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کو معطل کرکے مارشل لاء/ ایمرجنسی کا نفاذ اور پھر ایک شخص کی جانب سے جاری ہونے والے عبوری آئینی حکم (پی سی او) کو آئین کا درجہ، پھر اعلی عدلیہ کے ججوں کا آئین کی بجائے پی سی او کی وفاداری کا حلف اور پھر عدلیہ کی جانب سے عدالتی حکم کے ذریعے مارشل لا کے نفاذ اور پی سی کے اجرا کو درست قرار دیتے ہوئے فوجی حکمران کو تن تنہا آئین میں ترمیم کا اختیار۔ 1979، 1999 اور 2007 ہر بار ایسا ہی ہوا۔ کیوں کہ ہر دو بار بالآخر پارلیمنٹ نے، جو بلا شرکت غیرے آئین میں ترمیم کرنے کی مجاز ہے، آئین میں آٹھویں اور سترھویں ترامیم کرکے ایک طرح سے آئین توڑنے والے فوجی سربراہ اور اس سنگین غداری کے ارتکاب میں سہولت کاری کرنے والی عدلیہ کے لیے ایک طرح سے معافی کی منظوری دی جس کی وجہ سے آئین توڑنے والوں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی قانونی طور پر ممکن نہ رہی۔ لیکن 2007 کی ایمرجنسی کے حوالے سے معاملہ کچھ مختلف رہا۔

2007 میں جب ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان ہوا تو سپریم کورٹ جس کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے ایسے کسی اعلان اور ججوں کے آئین کے علاوہ کسی اور حلف اٹھانے کے خلاف حکم امتناعی جاری کر چکی تھی۔ اس حکم امتناعی کے باوجود عبدالحمید ڈوگر سمیت اعلی عدلیہ کے چند جج صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا لیکن اس بار افتخار محمد چوہدری سمیت زیادہ تر ججوں نے حلف نہ اٹھایا لہذا انھیں پی سی او کے تحت صریحاً غیر آئینی طریقے سے سبکدوش کر دیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئین بحال ہونے کے بعد ان ججوں کو آئینی ترمیم یا آئین کے تحت نئے حلف کی بجائے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا کیونکہ دوسری صورت میں ان کی سبکدوشی کو آئینی سمجھا جاتا۔

اعلی عدلیہ میں ججوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پی سی او کے تحت من پسند نئے جج بھی بھرتی کیے گئے۔ اس سب کے باوجود عبدالحمید ڈوگر کی پی سی او عدلیہ کو legitimacy کے شدید ترین بحران کا سامنا رہا۔ پی سی او عدلیہ کی legitimacy کے بحران کی شدت کو کم کرنے کے لیے سبکدوش ججوں کو آئین کے تحت نیا حلف اٹھا کر پی سی او عدلیہ کے ساتھ بیٹھنے کی پیشکش کی گئی جسے زیادہ تر ججوں نے ٹھکرا دیا لیکن جسٹس ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، شیخ عظمت سعید اور عمر عطا بندیال نے اس پیشکش کو قبول کیا اور آئین کی بالادستی کے اصول پر ڈٹے ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ کر نیا حلف اٹھا کر پی سی او زدہ ججوں کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دی۔ بالآخر عوامی دباؤ کے نتیجہ میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے ایگزیکٹو حکم کے نتیجہ میں غیر آئینی طور پر سبکدوش کیے گئے جج بحال کیے گئے اور افتخار چوہدری ایک بار پھر چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوے۔ اس دفعہ کے مارشل لاء کو قانونی کور دینے کے لیے کوئی آئینی ترمیم نہیں کی گئی یعنی پارلیمنٹ کی جانب اس بار کسی کو سنگین غداری کی معافی نہیں دی گئی لہذا سپریم کورٹ نے 3 نومبر 2007 کے اس قدم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوے تمام پی سی او جج فارغ کرتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری کیے لیکن نئے آئینی حلف اٹھا کر پی سی او ججوں کو legitimacy بخشنے والے مذکورہ چار جج صاحبان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی۔

آج جب کہ مذکورہ چار جج صاحبان سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں میں سے ہیں تو پتہ چلا ہے کہ 2007 میں پی سی او کا حلف اٹھانے والے ججوں کو توہین عدالت کے مقدمہ میں پچھلے دنوں سپریم کورٹ کی جانب سے بری کر دیا گیا ہے۔ آج کل چونکہ توہین عدالت کی کارروائی پر خاصا زور نظر آتا ہے اس لیے یہ بات سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے کہ جب تک ہم آئین کی توہین کو قوم کی توہین نہیں سمجھیں گے اور توہین آئین کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے تو سپریم کورٹ سمیت آئینی اداروں کی توہین ہوتی رہے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم 2007 میں آئین کی توہین کرنے والوں کو اور کچھ نہیں تو علامتی سزائیں دے کر ہی اپنی آئینی تاریخ کی ”خجالت“ سے باہر نکل آئیں اور آگے بڑھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).