قصہ ایک طلاق اور فتوے کا!


خیر سے حمیدہ جوان ہوئی، تو سب کی نظروں میں آگئی۔ پاس پڑوس کی بڑی بوڑھیاں ہوں یا خالائیں اور پھوپھیاں، سب نے حمیدہ کی ماں کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے اور لڑکی کی شادی کے فرض سے جلد سبکدوش ہونے کا مشورہ دینا شروع کیا، تو ماں کے کان بھی کھڑے ہوگئے۔ اب ہر آتے جاتے اور ملنے والے سے لڑکی کے گن گنوانے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور ساتھ ہی خاوند کو بھی لڑکی کے فرض سے جلد سبکدوش ہونے کے فضائل گنوانے شروع کردیے۔ گو کہ حمیدہ کی پڑھائی جاری تھی اور تعلیم مکمل ہونے میں چند سال مزید درکار تھے، لیکن قریبی جاننے اور رشتہ کرانے والیوں کولڑکی کے لیے مناسب بر کی تلاش کا کام سونپ دیا گیا۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں تو شادی کے بعد لڑکی کا کام چولہا چوکی ہی سنبھالنا سمجھا جاتا ہے، جتنا پڑھ لیا، اس ہی کو کافی جانا جاتا ہے۔

حمیدہ کے لیے بھی مناسب بر تلاش کرلیا گیا، خیر سے شادی کی تیاریاں شروع کی گئیں اور ہنسی خوشی حمیدہ گھر سے رخصت ہوئی۔ شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکے والوں کو صرف شادی کی پڑی ہوتی ہے اس لیے صرف شادی کے امور کے متعلق ہی بات کی جاتی ہے۔ شادی کے بعد کے مسائل کا سامنا اور ان کا حل نکالنا، میاں بیوی کے ذمے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان نوک جھونک اور اختلاف معمول کی بات سمجھی جاتی ہے اور مسائل اگر بڑھ جائیں تو دونوں فریقین کے والدین اور بڑے بوڑھے میاں بیوی کو سمجھا بجھا دیتے ہیں۔ لیکن حمیدہ کے ساتھ ایسا نہ ہوا، معمولی معمولی باتوں پر شوہر کی طرف سے طلاق دینے کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ حمیدہ طلاق کے بعد جب بھی گھر جانے کی تیاری کرے تو شوہر طلاق سے منکر ہوجائے اور کہہ دے کہ وہ طلاق تو غصے میں دی تھی۔

حمیدہ لکھنا پڑھنا تو جانتی تھی اور دین پر عمل کرنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرتی تھی۔ ایسے ہی کسی رسالے میں، اس نے طلاق کے مسائل پڑھے تو اس نتیجے پر پہنچی کہ مجھے تو طلاق ہوئے، ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ حمیدہ فوری طور پر بچوں کو لے کرمیکے پہنچ گئی اور گھر والوں کو حقیقت سے آگا ہ کیا، تو والدین جہاں غمزدہ ہوئے، وہیں من میں یہ بھی آیا کہ کسی مفتی سے فتوی لینا بھی ضروری ہے، ہوسکتا ہے کوئی حل نکل آئے اور گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔ حمیدہ کے شوہر سے کہاگیا کہ طلاق پر فتوی لیا جائے گا اور میاں بیوی کو خود مفتی صاحب کی خدمت میں پیش ہونا پڑے گا۔ حمیدہ کا شوہر تو طلاق دینے کا اقرار ہی نہیں کررہا تھا اس لیے مفتی صاحب کے پاس جانے کو کیوں راضی ہوتا۔ جب کئی دن گزر گئے اور حمیدہ شوہر کے پاس نہ لوٹی، تو وہ راضی ہوا کہ مفتی صاحب جو فتوی دیں گے، وہ میرے لیے قابل قبول ہوگا۔

یہ سارا قصہ ہمارے سینئر رفیق کار نے سنایا اور خواہش ظاہر کی کہ فلاں مفتی صاحب کا بڑا نام ہے اور آپ کا، ان کے ساتھ عقیدت مندی کا تعلق اور سلام دعا بھی ہے، وہاں چلے چلتے ہیں۔ ان کا فتوی سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔ مفتی صاحب کس مقام پر کس وقت دستیاب ہوتے ہیں، اس کے متعلق ہم نے بتا دیا لیکن ہمراہ جانے سے معذرت کرلی۔ چند دن بعد سینئر رفیق کار سے طلاق کے مسئلے کی بابت پوچھا کہ مفتی صاحب نے کیا فتوی دیا، تو کہنے لگے کہ مفتی صاحب نے لڑکی سے پوچھا، آپ کے پاس کوئی گواہ ہے؟ جو گواہی دے سکے کہ آپ کو طلاق دی گئی ہے اور لڑکے سے پوچھا کہ کیا آپ نے طلاق دی ہے؟ لڑکے اور لڑکی کا جواب نفی میں تھا، تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ ایسی صورت میں، میں طلاق کے موثر ہونے کا فتوی نہیں دے سکتا۔ اب لڑکا بضد کہ طلاق نہیں ہوئی کیونکہ مفتی صاحب کا فتوی بھی یہی ہے، حمیدہ گھر چلے۔ حمیدہ نے جانے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ا س کو، ا س کے مسلک کے مطابق طلاق ہوچکی ہے۔ خاندان کے بڑے بوڑھے بیٹھے اور لڑکے کو سمجھایا جب طلاق دے ہی چکے ہو، تو مان کیوں نہیں لیتے، حمیدہ کے والدین کسی صورت حمیدہ کو تمہارے حوالے نہیں کریں گے، تو لڑکا مانا اور طلاق لکھ کر دی۔ یوں یہ قصہ تمام ہوا لیکن اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا۔

مثلا، کیا نکاح کرتے وقت والدین، خصوصی طور پر لڑکی کے والدین نکاح نامے کی، ان شقوں کو پڑھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں، جن کے ذریعے طلاق کے بعد لڑکی کو معاشی تحفظ حاصل ہو؟ کیونکہ ہر طلاق شدہ لڑکی، طلاق کے بعداپنا اور بچوں کا بوجھ سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتی، وجہ اس کی یہی ہے کہ عموما چھوٹی عمر یا دوران پڑھائی لڑکی کی شادی کردینے کا رجحان ہے۔ اسی طرح نکاح نامے میں ایک شق موجود ہے جس کے تحت لڑکی کو بھی طلاق کا حق تفویض کیا جاسکتا ہے تاکہ شوہر کے مظالم کی صورت میں وہ اس حق کو استعمال کرسکے اور جسمانی و ذہنی استحصال سے اپنے آپ کو بچاسکے، کیا اس شق کوپڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی؟ ان سوالوں کا جواب یقینا نہیں میں ہی ہوگا کیونکہ لڑکی کے والدین کو نکاح کرنے میں جلدی ہوتی ہے اور منفی معاشرتی و سماجی رویوں کے باعث نکاح سے قبل ہی لڑکے والوں کے دباؤ میں ہوتے ہیں۔ اس لیے اکثر شقیں جس میں لڑکی کے تحفظ کی بات کی گئی ہو، قلم زد ہوجاتی ہیں۔ طلاق کے اس قصے اور فتوے سے سبق ملتا ہے کہ نکاح سے قبل دونوں فریقوں کو مستقبل میں کسی بھی بدمزگی سے بچنے کے لیے نکاح نامے کو ٖغور سے پڑھ لینا چاہیے اور لڑکی جو اکثر طلاق کے معاملات میں بے بس ہوتی ہے، کم ازکم طلاق کے بعد معاشی طور پر تو محفوظ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).