ہمیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیے


مسلم لیگ نواز کی حکومت کا دور مکمل ہونے کے قریب ہے اور جلد ہی اقتدار نگران حکومت کے سپرد کر دیا جائے گا اور ہم ایک بار پھر الیکشن کے ذریعے نئے حکمرانوں کا انتخاب کر سکیں گے۔ پاکستان کی تاریخ جمہوریت کے معاملے میں کچھ زیادہ روشن نہیں رہی ہے۔ یہاں ٹوٹ پھوٹ کا عمل کنٹرولڈ ڈیموکریسی والے ممالک کی طرح بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ عدلیہ اور حکومت کے مابین حالیہ لڑائی نے ملک کا بھٹہ ہی بٹھا دیا ہے۔ دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ملک و قوم کے لیے ایک خطرناک بات ہے اور خاکم بدہن کسی سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔

پاکستان میں مارشل لاء حکومتوں اور غیرجمہوری طاقتوں کا اقتدار پر قبضہ جمہوریت کی نسبت زیادہ عرصہ رہا ہے۔ مگر تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، اقتدارِ اعلیٰ کی پُرامن منتقلی اور کامیاب الیکشن منعقد کرانے کا یہ سہرا پیپلز پارٹی اور سابق صدر آصف علی زرداری ہی کے سر جاتا ہے جنہوں نے کٹھن حالات کے باوجود پانچ سال پورے کیے اور الیکشن منعقد کروا کر اقتدار نون لیگ کو منتقل کر دیا۔ یہ کامیابی دراصل میثاقِ جمہوریت کے اس پودے کا ثمر تھی جس کی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے لہو سے آبیاری کی تھی۔ اسی معاہدے کے تحت پیپلز پارٹی نے کئی بار ایمپائر کی انگلی کو اُٹھنے سے روک دیا۔ تحریکِ انصاف اور پھر عوامی تحریک کے ساتھ مل کر دھرنوں کے موقع پر پیپلز پارٹی نے مہم جوؤں کو واضح پیغام دیا کہ بدترین جمہوریت ایک اچھی آمریت سے کئی گنا بہتر ہوتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا دامن آخر کیوں تار تار کیا جاتا رہا ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نفاذ کے معاملے پر ہونے والی تفریق اس کی بنیادی وجہ بنتی ہے۔ جب اسلام کے نفاذ کا معاملہ زیرِ بحث آتا ہے تو جو نکتہ سب سے پہلے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی کونسی تعبیر و تشریح کا نفاذ کیا جائے۔ پاکستان ایک متفرق مکتبہ ہائے فکر رکھنے والا ملک ہے جہاں شیعہ اور سنّی مسلمان بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے میں کسی ایک کا اقرار اور دوسرے کا انکار دل آزاری اور مذہبی بے سکونی کا باعث بنتا ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا جائے۔ ہر ایک کو اپنی فکر اور اپنے مکتب کے مطابق مذہب پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی ہو لیکن سیاست میں مذہب سے فائدہ اُٹھانے کی مکمل حوصلہ شکنی کی جائے۔ مذہب سب کا اپنا اپنا اور ملک ہم سب کا۔

اس سلسلے میں ہمیں قائداعظم محمد علی جناح کی 11؍ اگست 1947ء میں قانون ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کو مشعلِ راہ بنانا ہو گا جس میں اُنھوں نے واشگاف الفاظ میں واضح فرما دیا تھا کہ پاکستان میں بشمول اقلیتوں کے ہر ایک کو مذہبی آزادی اور تحفظ حاصل ہو گا اور وہ پوری آزادی اور سکون کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکے گا اور ریاست کا اس کے ان معاملات میں کوئی دخل نہ ہوگا۔ آج ہمیں قائد کا وہی سبق یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ یقین مانیے بابائے قوم کے اس سبق کو یاد کرنے سے ہمارے ملک کے اندر امن و سکون اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوگی۔ اور اقتدار کی جنگ فقط عوام کی بہتری لانے کے لیے باقی رہ جائے گی۔

آج ہمارے ملک کے مسائل بڑے پیچیدہ ہیں۔ یہاں پولیس گردی کے مسائل ہیں کہ نقیب اللہ محسود جیسے پُرامن نوجوانوں کو مبینہ پولیس مقابلوں میں دیدہ دلیری سے مار دیا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد پولیس اپنے پیٹی بند بھائی کو گرفتار کرنے میں بُری طرح ناکام رہتی ہے۔ یہاں زینب جیسی معصوم بچیوں کی عصمتوں کو عمران جیسے درندے تار تار کر کے ان کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ اور اگر عوامی غم و غصہ کی لہر کا سامنا نہ ہو تو ہزاروں بچوں جیسے کیسوں کی طرح اسے بھی فائلوں کی گرد میں دبا دیا جاتا۔ ہمارا مسئلہ بچوں کو تحفظ دینا ہے۔ ہمارا مسئلہ تعلیمی میدان میں پسماندگی کا مقابلہ کرنا ہے۔ اچھی تعلیم کے بغیر نہ تو ہماری معیشت بہتر ہو گی اور نہ ہی ہم اقوامِ عالم میں ایک عزت کا مقام حاصل کر پائیں گے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ صحت و صفائی کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں جس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ آلودگی ایک الگ مسئلہ ہے جس میں فضائی اور آبی آلودگی دونوں شامل ہیں۔ بیروزگاری کا مسئلہ نہ صرف یہ کہ نوجوا نوں کی صلاحیتوں کو کھائے جا رہا ہے بلکہ انہیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ کسی بھی انتہاپسند کے ہتھے چڑھ جائیں اور امن و امان کو برباد کر دیں۔ مادر پدر آزاد میڈیا تو ہے ہی مسائل کی جڑ۔ میڈیا تنظیموں کو از خود صفائی کرنا ہوگی۔ پیمرا جیسے اداروں میں نئے سرے سے روح پھونکنا ہوگی اور انہیں فعال بنانا ہوگا تاکہ یہ عوام کو گمراہ کرنے کی بجائے ان کی درست سمت میں رہنمائی کرے۔

ہمارے مسائل کی فہرست بہت لمبی چوڑی ہے لیکن یہ سب کے سب قابل حل ہیں۔ ان سب مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے پیشگی شرط یہ ہے کہ ہم جمہوریت کو اپنائیں اور غیرجمہوری رویے یکسر ترک کر دیں۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے جمہوری راستے اختیار کریں اور غیرجمہوری چور دروازوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔ ضروری ہے کہ جمہوریت کو صرف اقتدار کے حصول کا ذریعہ ہی نہ بنایا جائے بلکہ جمہوری کو رواج دیا جائے۔ عوام سے رابطے اور رشتے کو مضبوط بنایا جائے اور ان سے رہنمائی لی جائے۔ جمہوری اداروں کا تقدس بحال کیا جائے اور انھیں اتنا مضبوط و محفوظ بنایا جائے کہ ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنا تو درکنار کوئی ان کے بارے میں ہرزہ سرائی کی جسارت بھی نہ کر سکے۔ جمہوریت کے پروان چڑھنے سے ہمارے اندر یکسوئی پیدا ہوگی اور ہم ایک ایک کر کے تمام مسائل حل کرتے چلے جائیں گے اور جلد یا بدیر ترقی یافتہ ممالک میں اپنا شمار کرا لیں گے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا تو بہت مشکل پیش آئے گی۔

سید حسن رضا نقوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید حسن رضا نقوی

‎حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں، سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں، آج کل بطور پروڈیوسر ایک نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں

syed-hassan-raza-naqvi has 10 posts and counting.See all posts by syed-hassan-raza-naqvi