ہم سب کی بجیا


بجیا۔ بڑی بہن کو جس طرح آپا یا باجی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اسی طرح باجی سے بجیاکا لفظ اخذ ہوا۔ سادگی، خلوص، وضع داری، شفقت اور ہمہ وقت محبت کا درس دینے والی فاطمہ ثریا نے اپنی پوری زندگی بجیا کے لقب کی پاسداری کرکے اس لفظ کواپنی ان مٹ نقوش چھوڑنے والی تحریروں کی طرح امر کردیا۔ فاطمہ ثریا بجیا کا یہ خاصہ تھا کہ وہ محبت اور خلوص کی جس چاشنی سے اپنے چھوٹوں سے ملتیں اور ان پر شفقت نچھاورکرتیں، لوگ ان کاگرویدہ ہوئے بنا رہ ناپاتے۔ اور تا عمر ان کی شفقت کو دل میں محسوس کرتے رہتے۔

“شمع، افشاں، عروسہ اور زینت“ جیسے شہرہ آفاق ڈراموں پر نظر ڈالیں تو ان کے قلم کا جادو افسوں پھونکتا نظر آتا ہے۔ بجیا نے جس فنی مہارت سے اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ڈرامےاخذ کیےاس کی نظیر نہیں ملتی۔ بجیا کے ڈراموں میں مشترکہ خاندانی نظام اور رشتوں کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کا درس نمایاں رہا۔ ہمارا بچپن انہی کہانیوں کے گرد گھومتا ہوا کب لڑکپن میں بدلا اور جوانی آن پہنچی پتہ ہی نہیں چلا کہ جیسے پلک جھپکنے میں ہی سارا منظر بدل گیا ہو۔ محترمہ فاطمہ ثریا بجیا نے 1965ء کی جنگ کے دوران مقبول ہونے والے جنگی ترانوں کا مجموعہ جنگ ترنگ کے نام سےبھی مرتب کیا۔ انہوں نے60ء اور 70 ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بہت سے ڈرامہ سیریل تحریر کیے جن میں“ اساوری، گھر ایک نگر، آگہی، انا، کرنیں، بابر، تصویر کائنات، سسی پنوں، انارکلی اور آبگینے“ سرفہرست ہیں۔ ان کا فن اور تخلیقی صلاحیتیں ڈراموں تک محدود نہ رہیں۔ انہوں نے تاریخی کھیل بھی لکھے اور بچوں کے پروگراموں اور خواتین کے میلاد کے ساتھ ساتھ ”اوراق“ جیسے ادبی پروگرام بھی کیے۔

فاطمہ ثریابجیا اپنے اندازِ گفتگو، لب و لہجہ، عاجزی و انکساری اور پہناووں سے برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ نظر آتی تھیں۔ ان کا تعلق تہذیب کے داعی اورتعلیم یافتہ ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں اور1948ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہو گئیں۔ بجیا دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ یہ ایک حسین اتفاق ہے کہ ہزاروں کہانیوں کی خالق، عربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان و ادب پر گہری دسترس رکھنے والی بجیا کبھی اسکول نہیں گئیں، انہوں نے ساری تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ تاہم2007ء میں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں عبداللہ دادا بھائی یونیورسٹی نے بجیا کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری جاری کی۔ بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ان کے نانا مزاج یار جنگ اپنے زمانے کے معروف شاعر تھےجبکہ بجیا کے والد قمر مقصود حمیدی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ اس کے علاوہ ان کے خانوادے میں ان کی چھوٹی بہن معروف شاعرہ زہرا نگاہ، سابق بیوروکریٹ احمد مقصود حمیدی، معروف مصنف اور ڈرامہ نگار انور مقصود، فیشن ڈیزائنرصغریٰ کاظمی، سابق صحافی سارہ نقوی مرحومہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا)مرحومہ شامل ہیں جو اپنے اپنے شعبوں کے نمایاں افراد میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات میں انجمن کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔

ادب کی دنیا میں عہد کا درجہ رکھنے والی بجیاکی ٹیلی وژن کی دنیا میں آمد محض اتفاقاً ہوئی تھی جب1966ء میں کراچی جانےکے لیے ان کی فلائٹ تعطل کا شکار ہوئی تو وہ اسلام آباد پی ٹی وی سینٹر کسی کام سے گئیں۔ وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر آغا ناصر نے اداکاری کے ذریعے ٹی وی سے ان کا رشتہ جوڑا اور پھر بجیا نے خاندانی نظام کی افادیت، آپس میں پیار ومحبت اور اخلاص کا تڑکہ لگاکراپنی لازوال ڈراما نگاری سے اپنی الگ شناخت بنائی۔ بجیا کی تحریروں میں ایک عجیب سحر تھا جو ہر اردوسمجھنے والے کو باآسانی اپنی گرفت میں لے لیتا۔ بجیا کی لکھی ہوئی ہر تحریرمیں تہذیبی شائستگی کا عنصر ہمیشہ نظر آیا۔ بجیا نے ایسے یادگارڈرامے لکھے جنہوں نے مقبولیت اور پسندیدگی کے نئے معیارقائمکیے۔ ناظرین کی ذہنی تربیت اور تہذیبی قدروں کا پھیلاؤ ان کا مطمع نظررہا۔

ان کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریز“بار رہے رنگ حنا“خواتین میں بہت پسندکی گئی۔ انہوں نے ٹیلی ویژن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کام کیا جبکہ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی قابل قدر کام کیا۔
2008ءمیں ایک غیر ملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے بجیانے اپنی نجی زندگی کے بارے میں بتایا کہ ان کی شادی قیام پاکستان کے بعد ہوئی اور ان کے یہاں 2شہزادیاں پیدا ہوئیں جوجلد ہی خالق حقیقی کو جاملیں۔ ممتا کی تڑپ جب جاگتی تو بجیا بیٹیوں کو اکثر یاد کرکے آنکھیں نم کرلیتیں، مگر پھر بہادری اور شجاعت کا پیکر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو پالیتیں اور کہتیں ”دیکھوں اللہ نے مجھے کتنے سارے بیٹے اور بیٹیاں عطاکردیے“۔ شوہر سے علیحدگی کے بارے میں بجیا کا کہنا تھا کہ وہ بھی سالوں پرانی بات ہوچکی۔ انٹرویو کے مطابق بجیا نے پہلاڈرامہ ”قصہ چہار درویش“لکھا۔ بجیا کا دعویٰ تھا کہ ڈرامہ کو تحریری شکل دینے سے ایک رات قبل انہوں نے 50منٹ کا پورا ڈرامہ خواب میں دیکھا اور نیند سے بیداری پر اسے محض دو گھنٹوں میں کاغذ پر اتاردیا۔ “قصہ چہار درویش“ پی ٹی وی اسلام آباد سنٹر سے ٹیلی کاسٹ ہواتھا جس نے خوب شہرت پائی۔ اس کے بعد بجیا نے مداحوں کے پرزور اسرار پر ”الف لیلیٰ اور بنو عباس ”جیسے شاہکار ڈرامے تخلیق کیے۔

محترمہ فاطمہ ثریا بجیا کی سوانح عمری ”بجیا: برصغیرکی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی“ کے عنوان سے2012ء میں شائع ہوئی۔ 1997ء میں بجیا کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے“ تمغۂ حسن کارکردگی“ اور 2012ء میں صدرِ پاکستان کی طرف سے“ ہلال امتیاز“ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات ملے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ ”دی آرڈر آف دی سیکرڈٹریژر“ بھی شامل ہے۔ بجیا پاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشن میں بطور صدر کئی سال تک خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ انہوں نےجاپانی ناول پر اردو میں اسٹیج ڈرامہ بھی تخلیق کیا اور جاپانی طرزِشاعری کو پاکستانی زبانوں میں متعارف کروانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔

بجیا کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کو ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہے۔ جب بھی کسی پر مشکل آن پڑتی بجیا اس کا مداواکرتیں۔ بجیا کا گھر کسی سرکاری دفتر کا منظر پیش کرتا، جہاں دن بھر سائلین کا تانتا بندھا رہتا۔ کوئی نوکری کی تلاش میں تو کوئی ترقی کی چاہ میں بجیا کے آستانے کو اپنا مسکن بناتا۔ بجیا اپنے کام میں غیر معمولی دلچسپی لیتیں۔ اپنے تحریر کردہ کرداروں کو حقیقی جلا بخشنے کے لیے حددرجہ تگ و دو کرتیں۔ تخیلاتی تحریروں کو حقیقت کا روپ دینے کے ساتھ ساتھ سیٹ ڈیزائن اورملبوسات کی تیاری میں باریک بینی سے کام لیتیں۔ کرداروں کی مناسبت سےمختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاکر خود لڑکوں اور لڑکیوں کا انتخاب کرتیں اوران کی رہنمائی کرتیں، بات چیت اور اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے تک سمجھاتیں اور یہی ان کی تحریروں کی بنیادی اساس بھی ہے۔

 شفقت بھری شخصیت اور دلوں میں گھر کر جانے والی تحریروں کی خالق ”ہم سب کی بجیا“ نےجو بھی لکھا خوب لکھا۔ ممتاز ڈرامہ نگار، مصنف اور کمپیئر انور مقصود کہتے ہیں کہ فاطمہ ثریا بجیا نے انہیں بڑی بہن نہیں ماں بن کر پالا، وہ حقیقی بہن بھائیوں سمیت لاکھوں محبت کرنے والوں کو اپنے پیچھے چھوڑ گئیں ہیں۔ اردو ادب کا یہ روشن ستارہ گلے کے کینسر کی وجہ سے طویل علالت کے بعد 10فروری 2016 کو 86برس کی عمر میں بجھ گیاتاہم ان کی لکھی ہوئی تحریریں رہتی دنیا تک اردو ادب سے شغف رکھنے والوں کے ذوق سلیم کی تشنگی مٹاتی رہیں گی۔ بجیا کے خلوص اور زندہ دلی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری میں موجود کتابوں کی شکل میں انمول موتی غالب لائبریری کراچی کو عطیہ کردیے تاکہ ان کے مداح بالخصوص نئی نسل اس سے استفادہ کرسکے۔ فاطمہ ثریا بجیا آج ہم میں نہیں مگر ان کی تخلیقی کاوشیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور ان کے لگائے ہوئے اچھائی کے پودے تناور درخت بن کر ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنتے رہیں گے۔

شہباز علی ارائیں
Latest posts by شہباز علی ارائیں (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).