تھائرائڈ کا کینسر


فلوریڈا میں‌ انٹرنیشنل تھائرائڈ کانفرنس ہوئی جس میں‌ ساری دنیا سے تھائرائڈ کی بیماریوں‌ کے ماہرین نے شرکت کی۔ اس میں‌ ایشیا، یورپ، لاطینی امریکہ اور نارتھ امریکہ سب جگہوں‌ سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ وہ بہت اچھی کانفرنس تھی اور اس میں‌ میں‌ نے کافی ساری نئی چیزیں سیکھیں اور اپنی فیلڈ میں‌ دیگر افراد سےنیٹ ورکنگ کا موقع بھی ملا۔ تھائرائڈ کی تقریباً ہر بیماری سے متعلق فری کتابیں، پمفلٹ، پین وغیرہ مل رہے تھے۔ میں‌ انہیں‌ اپنے بیگ میں‌ ڈالنے میں‌ مصروف تھی تو ایک صاحب میرے پاس آئے اور بولے ہیلو میں‌ تھائرائڈ اسوسی ایشن کا پریذیڈنٹ ہوں‌ اور آپ؟ میں‌ اوکلاہوما میں‌ اینڈوکرنالوجسٹ ہوں۔ اچھا تو آپ اینڈوکرنالوجسٹ بننا چاہتی ہیں۔ جی نہیں میں‌ پہلے سے اینڈوکرنالوجسٹ ہوں۔ کیا آپ انڈین ہیں؟ جی ہاں‌ اور نہیں۔ ہمارے والدین انڈیا سے پاکستان گئے، وہاں‌ پر ہم لوگ پیدا ہوئے اور اب امریکی ہیں۔ ہاں‌ میرے والدین بھی ساہیوال کے تھے، وہ گرمیوں‌ کی چھٹیوں‌ میں‌ حالیہ انڈیا گئے ہوئے تھے جب ملک تقسیم ہوگیا اور وہ واپس کبھی اپنے گھر واپس نہیں‌ جاسکے۔ میں‌ انڈیا میں‌ پیدا ہوا اور اب ہم کینیڈین ہیں۔ اب میرے والدین مر چکے ہیں‌ لیکن اس بات کا صدمہ ان کے دل سے کبھی نہیں‌ نکلا۔ انہوں‌ نے مجھے اپنا کارڈ بھی دیا اور کانفرنس میں‌ رہنمائی کی۔ دنیا میں‌ زیادہ تر لوگ اچھے ہی ہیں۔ ہمیں‌ بھی خود کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئیے۔

ساری دنیا میں‌ تھائرائڈ کینسر کے کیسز میں‌ اضافہ ہورہا ہے۔ کچھ تحقیق دانوں‌ کے مطابق ایسا اس لیے ہے کیونکہ نئی سائنسی ایجادات کے ذریعے اب ہم الٹراساؤنڈ، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی اور ایکس ریز کی وجہ سے انسانوں‌ کے اندر دیکھنے کے لائق ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے کافی ساری ایسی بیماریوں‌ کو دریافت کیا جارہا ہے جن کے بارے میں‌ پچھلی صدیوں‌ کے انسان نہیں‌ جانتے تھے۔ جن لوگوں‌ کے خاندان میں‌ دیگر لوگوں‌ کو تھائرائڈ کا کینسر ہو ان میں‌ اس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ چرنوبل کے حادثے کے بعد بھی دیکھا گیا کہ جس علاقے میں‌ ریڈئیشن پھیل گئی تھی وہاں‌ تھائرائڈ کینسر کے کیسوں‌ میں‌ اضافہ ہوا۔

شروع کی سطوحات میں‌ تھائرائڈ کینسر کی کوئی علامات نہیں‌ ہوتیں۔ جب وہ اتنا بڑا ہوجائے کہ گردن میں‌ دباؤ بڑھانے لگے تو مریض نگلنے میں‌ مشکل، آواز کی خرابی اور سانس لینے میں‌ مشکل محسوس کرسکتے ہیں۔ آج سے کوئی پچاس سال پہلے تک اگر کسی کے تھائرائڈ میں‌ ٹیومر محسوس کیا جاتا تو اس کو سرجری سے نکال دیا جاتا تھا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌ تھائرائڈ کے 95% ٹیومر بنائن یعنی کہ معصوم ہوتے ہیں یعنی ان میں‌ کینسر نہیں‌ ہوتا۔ اس سے قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ بایوپسی کی نئی تکنیک سے پہلے بہت سارے لوگوں‌ کی غیر ضروری سرجری ہوجاتی تھی۔ اب اگر کسی کی گردن میں‌ ٹیومر ہو تو اس کو فوراً سرجن کے پاس بھیجنے کے بجائے باریک سوئی سے بایوپسی کرتے ہیں اور یہ نمونے پیتھالوجسٹ کو بھیجتے ہیں۔ تھائرائڈ ٹیومر کی اگر بایوپسی کے نتائج معصوم نکلیں تو پھر سرجری کی ضرورت نہیں‌ ہوتی۔ اس ایجاد کے بعد تھائرائڈ گلینڈ کی سرجری کی تعداد میں‌ گراں‌ قدر کمی واقع ہوئی۔ ان مریضوں‌ کو قریب پانچ سال تک سال میں‌ ایک مرتبہ تھائرائڈ الٹراساؤنڈ سے چیک کیا جاتا ہے۔ اگر پانچ سال میں‌ ان کے ٹیومر میں‌ کوئی تبدیلیاں‌ دکھائی نہ دیں‌ تو پھر مزید فالو اپ کی ضرورت نہیں‌ رہتی۔

اگر بایوپسی کے نتائج کچھ ٹھوس جواب پیش نہ کرسکیں‌ تو آجکل نئے جین کے ٹیسٹ نکلے ہیں‌ جن کی مدد سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کن مریضوں‌ میں تھائرائڈ کینسر کا زیادہ خطرہ ہےاور اسی لحاظ سے سرجری کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ میڈیسن کا ایک اصول ہے کہ اپنا مریض سرجن کو نہ دیں۔ ان نئی ایجادات سے بھی کافی مریضوں‌ میں غیر ضروری سرجریاں کم ہوگئیں۔ تھائرائڈ کی کانفرنس میں‌ ایک اور دلچسپ بات ہوئی۔ وہ یہ کہ ایک نئے جین ٹیسٹ پر کلاس ہورہی تھی جس میں‌ وہ اعدادوشمار سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ وہ افرما ٹیسٹ سے کس طرح‌ بہتر ہے۔ میں‌ پریشانی سے سن رہی تھی کہ مشکل سے سارے اسٹاف کو ابھی اس نئے ٹیسٹ کی تربیت دی تھی اور اب دوبارہ سے یہ پروسس تبدیل کرنا پڑے گا۔

میرے برابر میں‌ ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ میں‌ نے سمجھا کہ وہ بھی ڈاکٹر ہیں۔ کیا آپ افرما استعمال کررہی ہیں؟ تو انہوں‌ نے کہا، ”وہ میں‌ نے ایجاد کیا ہے!“ جی؟ میں‌ نے چونک کر پوچھا تو انہوں‌ نے پھر سے کہا کہ وہ میں‌ نے ایجاد کیا ہے۔ یہ خاتون سائنسدان تھیں‌ جنہوں‌ نے واقعی میں‌ یہ ٹیسٹ ایجاد کیا تھا۔ میں‌ نے ان سے کافی سوال کیے اور جاتے جاتے ای میل بھی لے لیا کہ اور گھر پہنچ کر جو بھی سوال میرے ذہن میں‌ آئیں‌ گے تو ان کو لکھوں‌ گی۔

اگر بایوپسی کے نتائج بتائیں کہ کینسر ممکن ہے تو پھر تھائرائڈ کو سرجری کے ذریعے نکال دینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ سرجن جتنی بھی کوشش کرے، سارا تھائرائڈ نکالنا ذرا مشکل ہے اس لیے زیادہ رسک والے مریضوں‌ میں‌ ریڈیو ایکٹو آیوڈین سے بقایا تھائرائڈ کو تباہ کردیتے ہیں تاکہ کینسر واپس آنے کا چانس کم ہوسکے۔ اس کے بعد ان پروٹین کے لیے ہر سال خون کا ٹیسٹ کرتے ہیں جو صرف تھائرائڈ گلینڈ میں‌ بنتی ہیں۔ اگر وہ خون میں‌ پائی جائیں‌ تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ کینسر واپس آرہا ہے۔ اس کے علاوہ ان مریضوں‌ کا سادہ ہائپوتھائرائڈ کے مریض کی طرح‌ علاج نہیں‌ کرسکتے۔ ان کا ٹی ایس ایچ یعنی کہ تھائرائڈ اسٹی میولیٹنگ ہارمون کا لیول دیگر مریضوں‌ کی نسبت کم رکھنا ہوگا جس سے کینسر کے واپس آنے کے چانسز کم ہوجائیں۔ تھائرائڈ کینسر ایک ایسا کینسر ہے جو بیس سال کے بعد بھی واپس آسکتا ہے اسی لیے ان مریضوں‌ کو کم از کم سال میں‌ ایک مرتبہ اینڈوکرنالوجسٹ کو دکھانا چاہئیے۔

انٹرنیشنل تھائرایڈ کانفرنس کے وہ لمحے ناقابل فراموش ہیں جب پانی کے کنارے پارٹی ہورہی تھی اور اندھیرا ہوجانے کے بعد ڈزنی پارک پر آتش بازی کا مظاہرہ ہوا۔ رنگوں‌ اور روشنی سے آسمان جگمگانے لگا۔ ساری دنیا سے آئے سائنسدان اور ڈاکٹرز خاموشی سے مبہوت کھڑے ان کو ساتھ میں‌ دیکھ رہے تھے۔ اس لمحے میں‌ میں‌ نے ایسا محسوس کیا کہ ساری دنیا کے سب انسان ایک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).