مشال کا معاملہ استعمال کا معاملہ


”ہم سب عمران ہیں“۔ یہ اجتماعی تعارف جمعیت علمائے اسلام (ف) خیبر پختون خوا کے ایک راہ نما کرارہے ہیں، اور سب میں جے یوآئی کے ساتھ جماعت اسلامی اور ہم نوا بھی شامل ہیں۔ موصوف نے یہ خطاب ”غازیوں“ کے استقبال کے موقع پر کیا، یہ وہ چھبیس غازی ہیں جنھوں نے اسلام کو بچانے کے لیے کی جانے والی عظیم جنگ میں طالب علم مشال کو مارڈالا تھا۔ یہ جری کل ملا کے ”صرف“ پچاس کے قریب تھے، اس معمولی سی فوج نے پورے کے پورے مشال خان کو ایک طویل معرکے کے بعد شکست فاش دی اور دشمن کی جان لے کر غازی قرار پائے، ”شہادت“ کے مرتبہ پر ان میں سے بس ایک کے فائز ہونے کا دھندلا سا امکان ہے، وہی عمران ہے۔

معرکے میں حصہ لے کر جنت کمانے اور پھر عدالت سے بریت پانے والے ان غازیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھار کرکے ان کا استقبال کیا گیا۔ اپنے ہیروز کا استقبال کرنے والے جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے کارکنان نے ان کی شان میں نعرے بھی لگائے، جن میں سب سے سچا اور دل سے نکلنے والا نعرہ یہی تھا، ”ہم سب عمران ہیں“۔

جی بالکل! آپ سب عمران ہیں۔ آپ کو سلام کے آپ نے اس حقیقت کا کھلے عام اعتراف کرلیا۔ اپنے قائدین مولانا فضل الرحمٰن اور حضرت سراج الحق سے بھی کہیں کہ وہ بھی آئین، قانون، عدل وانصاف اور جمہوریت کی اصطلاحات کی چلمن سے لگے نہ بیٹھے رہیں بل کہ پردہ اٹھا کر اور نقابیں ہٹا کر صاف صاف کہہ دیں کہ “ہاں ہاں، ہم بھی عمران ہیں، آئین جائے بھاڑ میں، قانون کی ایسی کی تیسی، جمہوریت پر لعنت، ادارے جائیں چولھے میں، ریاست ہماری جوتی کی نوک پر، ہم جسے مذہب کا گستاخ، شریعت کا دشمن، اسلام کا عدو قرار دے دیں وہ واجب القتل ہے، ہم اسے سرعام برہنہ کریں گے، اس کی دل بھر کے تذلیل کریں گے، پھر اسے سسکا سسکا کر ماردیں گے”۔

مگر نہ آپ کہیں گے، نہ وہ سنیں گے۔ اگر وہ اپنا یہ سیاہ سچ سامنے لاسکتے تو اسلحہ اٹھا کر ریاست سے ٹکرا نہ چکے ہوتے، جس نظام کا رونا روکر ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں اسے بدلنے کے لیے جنگ آزما نہ ہوجاتے، جس ظلم واستحصال کے خلاف تقریریں جھاڑتے ہیں اسے مٹانے کے لیے سرپر کفن نہ باندھ لیتے۔ طالبان ان سے اسی کے تو آرزومند تھے، انھیں ان سے یہ سب نہ کرنے ہی کی تو شکایت تھی۔ اُنھوں جو کچھ کیا کھل کر کیا، کم ازکم منافقت کا چولا نہیں پہنا، کیوں کہ انھیں جمہوریت کے ثمرات نہیں سمیٹنے تھے۔

لیکن آپ ”عمرانوں“ کی جماعتوں اور قائدین کو آئین کا ڈھول بھی پیٹنا ہے، قانون کا راگ بھی الاپنا ہے اور جمہوریت کا نغمہ بھی گانا ہے، کیوں کہ آپ کو جان بچانا اور مال کمانا ہے۔

یوں تو ڈھول، راگ اور نغمہ وغیرہ کلی طور پر حرام ہے، لیکن ”حالت اضطرار“ میں تو سب جائز ہوجاتا ہے ناں۔ جیسے مسلمان عورت کا گھر سے باہر نکلنا خلاف اسلام، اس کا گھریلو امور کے علاوہ کچھ بھی کرنا غلط، اس کی حکومت تو سراسرناجائز، لیکن سیاست کے سامنے فقہہ اور تقویٰ کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں تو محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنادیا جائے، عورتوں کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر لے آیا جائے، خاتون بے نظیر بھٹو کی حکومت میں دانت نکال کر وزارت قبول کرلی جائے۔ جمہوریت کو لات و منات سے تشبیہ دی جائے، پھر اسی ”طاغوتی“ نظام کا حصہ بننے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑے جائیں۔

یہود و نصاریٰ سے دوستی حرام، لیکن وزارت عظمیٰ کی خواہش دل سے پیٹ تک مچل اور دوڑ رہی ہو تو امریکی سفیر کو دعوت دے کر ’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں‘ کی عرضی پیش کی جائے۔ چناں چہ جب مفادات اور منافقت کی اضطراری حالت طاری ہو تو ڈھول تاشے سب جائز قرار پاتے ہیں، البتہ ڈھول کا پول کھل جاتا ہے۔

آپ عمرانوں کے قائدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آئین کے خلاف بات نہیں کرسکتے، قانون کا انکار کرنے سے مجبور ہیں، اور اپنے اداروں سے لڑنے کا حوصلہ نہیں، اسی لیے نوجوانوں کا شوق جہاد سرحدوں سے باہر پورا کروادیتے ہیں، یوں شوق پورا ہونے کے ساتھ اداروں کی خدمت کا حق بھی ادا ہوجاتا ہے۔ ”اصولی طور پر“ وہ یہی کہتے ہیں کہ مجرم کو جرم کی سزا دینے کا اختیار عدالتوں کو ہے، قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے، آئین کا احترام سب پر فرض، اختلاف رائے کا ہر ایک کو حق، جمہوریت بڑی مقدس یہ نہ کہیں تو کیا کہیں، سیاست کرنی ہے، الیکشن لڑنا ہے، جمہوریت کے فائدوں سے فیض یاب ہونا ہے، انقلاب اور جہاد کے نعروں کو سنجیدگی سے نبھا کر برباد تھوڑی ہونا، لیکن مجبوری سے بندھی اصول پسندی سیاسی مفاد کا چارہ دیکھ کر بے کل ہوجاتی ہے اور کھونٹے سے جان چھڑانے لگتی ہے۔ مذہب کو استعمال نہیں کریں گے تو ووٹ کیسے ملیں گے؟ خاص طور پر جب الیکشن سر پر ہو تو مذہب کو بھی جنون بناکر سر پر یوں سوار کردینا چاہیے کہ دل و دماغ تسبیح کے دانوں کی طرح انگلیوں پر آجائیں، پھر انھیں دل بھر کے گھمایا جائے۔

مشال کا معاملہ بھی ایسے ہی استعمال کا معاملہ ہے، کوئی ان ’عمرانوں‘ سے پوچھے کہ وہ نوجوان اگر واقعی مذہب کا بیری اور گستاخ تھا، تو اسے قانون کے سپرد کرنا چاہیے تھا یا وکیل، گواہی، عدالت، جلاد تک کے سارے کردار خود نبھانا فرض ہوگیا تھا؟ اگر یہی کچھ کرنا ہے تو آئین میں کس شق اور دفعہ کے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، کسی قانون میں ترمیم اور اضافہ کیا معنی رکھتا ہے؟

ان ’عمرانوں‘ سے ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ تمھارا جوشِ ایمانی اس وقت کیوں نہیں جاگتا جب کوئی جاگیردار کسی کسان کے بچے پر کتے چھوڑ دیتا ہے، جب کسی غریب کی بیٹی کسی زورآور کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے، جب کوئی سفاک ٹولا بچوں سے درندگی کرکے ان کی وڈیو بنا لیتا ہے، جب کوئی راؤ انوار معصوم لوگوں کو مقابلے میں مارکر خود کو تمھاری طرح کا غازی جتاتا ہے۔ جب جب وقت قیام آتا ہے سجدے میں پڑجاتے ہو، ضرورت پڑے تو منبرومحراب بیچ کھاتے ہو، اور مذہب کے محافظ اور ٹھیکے دار ہونے کا دعویٰ نبھانے کے لیے کسی بے بس کی زندگی چھین کر روند کر فتح یابی کے نعرے لگاتے ہو۔

یہ سب کرکے تم ہمارے دین پر حملہ آور ہو، اپنے ان افعال اور اقوال سے اسلام کی شان میں گستاخی کرتے ہو، وہ وقت آئے گا جب ہم گناہ گار مسلمان تم سے اپنے دین کو نجات دلانے کے لیے نکلیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، لازم ہے کہ تم بھی دیکھو گے۔

مصنف عثمان جامعی روزنامہ ایکسپریس کراچی کے میگزین ایڈیٹر ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).