مشرک دلوں کی بدعت اور قبر کی حرمت


دل نواز، دل آویز کی سگی خالہ عصمت کا بیٹا تھا۔ دل آویز تین بھا ئیوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس کے پیدا ہوتے ہی عصمت خالہ نے اسے دل نواز کے لیے مانگ لیا، اور انھوں نے اس کا نام دل آویز رکھا۔ کہتے ہیں کہ بچے کے پیدا ہونے کے بعد چالیس دن تک قبر کا منہ کھلا رہتا ہے۔ ابھی دل آویز تین دن کی تھی کہ اس
کی ماں کی اچانک حالت ایسی بگڑی کہ سنبھل نہ پائی، اور قبر کے کھلے منہ میں اس کے مردہ جسم کو رکھ کر اس کا منہ بند کر دیا گیا۔

ننھی دل آویز کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ باپ کو اس سے بیزاری سی ہو گئی تھی، جس کے منحوس قدموں نے اس گھر کی خوشیوں کو ڈس لیا تھا۔ اسے خالہ کی گود میں ڈال دیا گیا۔ دل نواز اس کا اکلوتا بیٹا تھا، دل آویز کے گھر آنے سے جیسے اس کے گھر بہار آگئی تھی۔ دل آویز سولہ برس کی تھی، جب اس کے باپ نے اسے خالہ سے واپس لے لیا، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اب دل آویز چولھا چکی سیکھ گئی ہوگی، مگر خالہ نے اسے کوئی گھریلو کام نہ سکھایا تھا، کیوں کہ دل آواز پڑھ رہی تھی۔

اس نے حال ہی میں میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ دل نواز اور دل آویز کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ ان کا ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ طے پاچکا ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ خالہ نے بہت ہاتھ پیر مارے لیکن اس کی ایک نہ چلی۔ دل آویز کو اپنا سگا باپ اور دونوں بھائی اجنبی لگتے۔ اس کا اس گھر
میں بالکل دل نہ لگتا تھا۔ اس کا بڑا بھائی سکندر، سعودی عرب میں نوکری کررہا تھا۔ دل نواز اکثر ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی کھیر حلوا یا پلاؤ لے کر دل آویز سے ملنے کے بہانے آتا، اور کبھی وہ کسی بزرگ ہستی کا نام لے کر کہتا کہ اماں نے نیاز دلوائی ہے۔ گھر کے سب لوگ نیاز شوق سے کھاتے۔

ایک شام سکندر بغیر اطلاع دیئے گھر آگیا، وہ گھر کے ہر فرد کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آیا تھا۔ وہ اپنی خالہ کے لیے جانماز، دل نواز کے لیے موبائل فون اور دل آویز کے لیے عبایہ لایا تھا۔ عبایہ بہت خوب صورت تھی۔ دل آویز نے اوڑھی تو اس کے پیروں سے نیچے زمین تک آرہی تھی۔ دل آویز نے کہا وہ اسے نیچے سے کاٹ دے گی، اس پر سکندر نے اسے منع کیا اور سمجھایا کہ عبایہ زمین تک لٹکی ہوئی ہی پہنی جاتی ہے، تاکہ پیر نظر نہ آئیں۔

دو تین دن ہی گزرے تھے کہ دل نواز اپنے ابا کی برسی کے نذر کی کھیر اور پلاؤ لے کرآگیا۔ سکندر اس سے پہلے کبھی اتنا سخت نہ ہوا تھا، لیکن سعودی عرب میں جانے کن انتہا پسندوں کی صحبتوں میں رہا تھا، کہ اس نے دل نواز کے ہاتھوں سے نیاز لے کر کوڑے دان میں ڈال دی، اور سمجھایا کہ یہ سب بدعت ہے اللہ کو کھانا نہیں انسان کی نیت پہنچتی ہے۔ آیندہ نذر نیاز کرو بھی تو یہاں مت لے کر آنا۔

کچھ دن گزرے تو عصمت خالہ نے دل آویز کے ابا سے کہا کہ سکندر آیا ہوا ہے، دل نواز اور دل آویز کا نکاح ہوجائے تو اچھا ہے، اگلی باری جب وہ آئے گا تو رخصتی ہو جائے گی۔ سکندر نے اپنے باپ سے کہا کہ وہ یہ رشتہ ختم کردے کیوں کو اس کی خالہ بدعتی ہے اور دل نواز بھی مزاروں پر جاتا ہے۔ یہ لوگ شرک کرتے ہیں، ان سے ہماری بہن کا نکاح نہیں ہوسکتا۔

خالہ اپنے بہنوئی اور سکندر کے آگے بڑی روئی، گڑگڑائی لیکن اس نے ان کی ایک نہ سنی، دل آویز نے خود ہمت کر کے بھائی سے بات کی کہ اگر اس کی شادی دل نواز کے سوا کسی سے ہوئی تو وہ زندہ نہیں رہ پائے گی۔ سکندر نے غصہ ضبط کرتے ہوئے بڑی نرمی سے اپنی بہن کو سمجھایا کہ اگر اس نے دل نواز سے شادی کی تو وہ بھی مشرک ہوجائے گی، اور اسلام میں شرک کی بہت بڑی سزا ہے۔ مگر پیار سے بھلا کب کوئی
باز آیا ہے پیار سے تو جانور منہ نہیں موڑتا۔

اس دوران سکندر کے ایک دوست کے گھر سے جو سکندر جیسے ہی خیالات رکھتا تھا، دل آویز کے لیے رشتہ آیا۔ سکندر نے وہ رشتہ قبول کرلیا ، اس کے بھائی اور باپ اس کے فیصلوں سے اختلاف کی جرات نہیں کرسکتے تھے، کیوں کہ اس کی سعودی عرب میں نوکری کی وجہ سے گھر میں خاصی خوش حالی آگئی تھی، اور پھر سکندر نے اپنے باپ اوربھائیوں کو بھی اپنے نظریات اور مزاج کا حامی بنالیا تھا۔

جس شام دل آویز کا سکندر کے دوست سے نکاح تھا، دل آویز گھر سے غائب ہو گئی۔ تینوں بھائیوں کو دل نواز پر شک تھا۔ وہ جب خالہ کے گھر پہنچے تو وہ بھی وہاں نہیں تھا۔ ان کا شک یقین میں بدل گیا۔ سکندرکا دوست الگ اسے دھمکی دے رہا تھا۔ سکندر بائک بھگاتا ہوا سڑک پر جارہا تھا، ایک جگہ اس نے رش دیکھا، ایک لڑکی سڑک کے بیچوں بیچ بیٹھی تھی، اور کوئی مرد اس کی بائک کے پہیے میں پھنسی عبایہ نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس نے مرد کا چہرہ دیکھا، پھر عبایہ کو، وہ دل نواز تھا، اور یہ وہی عبایہ تھی جو اس نے دل آویز کو لا کر دی تھی۔ عبایہ نے اس کی تلاش ختم کردی تھی۔ اس نے جیب سے ریوالور نکالا اور سڑک پر بیٹھے دو دلوں پر گولیاں برسا کر خود تھانے جا پہنچا، اور اعترافی بیان دیا کہ اس نے غیرت کے جوش میں آکر اپنی بہن اور ایک مشرک کو جان سے ماردیا ہے۔

سکندر اب جیل سے رہا ہونے والا ہے، اور اس کے دونوں بھائی اور اس کا وہ دوست، جس کا دل آویز سے رشتہ ہونے سے رہ گیا تھا، روزانہ فجر کی نماز کے بعد دل آویز اور دل نواز کی قبروں پر جا کر پیشاب کرکے محبت کرنے والے مشرکین سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے اس عمل میں وہاں کے اور لڑکے بھی شریک ہو کر اپنے گاؤں کے لوگوں کو پیغام دیتے ہیں، کہ محبت کرنے والے مشرکین اسی ذلت کے حق دار ہیں۔ مگر دو دلوں کی بھٹکی ہوئی روحوں کو اس وقت تک قرار نہیں آئے گا جب تک انھیں اس سوال کا جواب نہ مل جائے کہ قبروں پر کیے گئے نفرت کے اس اظہار کو شرک کہیں گے یا وحداینت کا اقرار۔ یہ انہیں پیشاب پہنچا رہے ہیں یا اپنی نفرت۔

وقت کے ساتھ آسمان پر بھٹکتی روحوں میں اضافہ ہورہا ہے، اور زمین پر پیشاب، قبروں کی مٹی سوکھی نہیں ہونے دیتا۔ جب مردے کو محبت کے اظہار کی نذر نیاز نہیں پہنچ سکتی، تو یہ نفرت بھرا گھناؤنا عمل محبت کو کیسے مار سکتا ہے۔ ہاں مگر محبت کی بربادی کی نیت نے زمین کو ضرور بانجھ کردیا ہے۔ اب یہاں پھول
نہیں ببول اگتے ہیں۔
A


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).