کراچی لٹریچر فیسٹیول میں رقص کی دیوانی میں!


لٹریچر فیسٹیول میں جانے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ سو فیصد ادب دوست ہوں، زیادہ تر ادیبوں کو جانتے ہوں، کتابوں سے عشق کی آخری حد تک محبت کرتے ہوں یا ہر سیشن آپ کے ذوق کے مطابق ہو۔ میں بہت زیادہ کتابیں نہیں پڑھتی، آج کراچی لٹریچر فیسٹیول میں آئے بہت سارے “مشہور” لوگوں کو نہیں جانتی تھی مگر یقین کریں ایک لمحے کے لئے بھی بوریت کا احساس نہیں ہوا (چند تقریروں کے باعث ایسا ہوا بھی تھا مگر وہ ایسی بھی ضروری نہیں تھیں کہ ان کے بغیر گزارہ نہ ہو) اور ایسا نہیں لگا کہ کسی اجنبی جگہ آگئی ہوں۔ جس جشن کا سماں وہاں تھا اس میں کوئی بھی کھو سکتا تھا، مجھے لگا میں بھی اس میں کھو گئی ہوں۔

مبشر زیدی سے ملاقات ہوئی تو مبشر علی زیدی کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، نور الہدی شاہ سے ملی تو اپنی ماں کی یاد ستائی مگر جس شدت سے رامش فاطمہ کی کمی محسوس ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ مجھے یقین ہے وہ آج ساتھ ہوتی تو ہر دوسرے لمحے میں کسی نا کسی ادب دوست کو وہاں دیکھ کر ملنے کے لئے دیوانہ وار اس کی طرف دوڑ لگا دیتی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اس بات کا یقین ہے کہ بہت سے لوگ اس سے مل کر خود کو خوش قسمت سمجھتے کیونکہ بلاشبہ محترمہ ایک مشہور لکھاری ہیں۔

سچ کہوں تو کسی بھی سیشن سے زیادہ مجھے کتھک کا انتظار تھا۔ جس طرح طبلے کی ہر تھاپ کے ساتھ انگلیوں کے زاویئے بدلتے تھے اور ہر لمحے تبدیل ہوتی موسیقی کی دھن کے ساتھ روح تک اسے محسوس کرتے ہوئے جسم کا زاویہ بدلتا تھا۔۔ میرا انگ انگ اس کے سحر میں جکڑا جاتا تھا۔ رقص ختم ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ ابھی تو لطف آنا شروع ہوا تھا، طلب زیادہ تھی مگر پوری نہیں ہوئی۔ کتھک ہر شخص کے لئے نہیں ہے، ہر کوئی اس سے لطف اندوز نہیں ہوتا، سب کے دیکھنے کا نظریہ ایک جیسا نہیں ہوتا مگر یقین کریں میں نے جسم کے ہر تھرکتے حصے کے ساتھ خود کو رقص کرتا پایا۔

اب مجھے انتظار ہے آخری روز کا جب ایک اور کتھک پرفارمنس ہے کیونکہ مجھے ادب سے زیادہ رقص پسند ہے، میرا ایمان ہے کہ رقص ایک اور دنیا کا ادب ہے۔ دانشوروں کا نا سہی ہم جیسے دیوانوں کا سہی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).