مشتاق احمد یوسفی سے ملاقات: قہقہوں بھری چند شریر یادیں


ہم ایک دم گڑبڑا گئے، کہاں یوسفی جیسا نابغۂ روزگار، کہاں ہماری تک بندیاں۔ عرض کی کہ ”یوسفی صاحب! اب آپ کو بھلا ہم کیا سنائیں“
کہنے لگے: ”اچھا! تو آپ ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے“
ہم نے ڈرتے ڈرتے تین شعر پیش کیے۔ پہلے دو پر بھرپور داد دی جو تاعمر ہمارا اثاثہ رہے گی۔ شعر یوں تھے:

خوشبوئے گل نظر پڑے، رقصِ صبا دکھائی دے
دیکھا تو ہے کسی طرف، دیکھیے کیا دکھائی دے

تب مَیں کہوں کہ آنکھ نے دید کا حق ادا کیا
جب وہ جمالِ کم نما دیکھے بِنا دکھائی دے!

تیسرا شعر پڑھا تو یوسفی نے ایک تاریخی جملہ کہا۔ شعر تھا کہ:
دیکھے ہوؤں کو بار بار دیکھ کے تھک گیا ہوں مَیں
اب نہ مجھے کہیں کوئی دیکھا ہوا دکھائی دے!

شعر سن کر مسکرائے اور فرمایا: ” بھئی! مردوں کی بدنیتی کی کیا خوب شاعرانہ تاویل لائے ہیں آپ“
ہم عش عش کر اٹھے حالانکہ غش کھانے کا مقام تھا۔

ڈھائی گھنٹے کی نشست کے بعد بھی یوسفی کے وہی چہچہے تھے، وہی ہمھمے اور وہی ولولے۔ ہم نے یوسفی کے ساتھ ڈھیر ساری تصاویر بنائیں اور رخصت چاھی۔ اٹھتے اٹھتے عنبر نے مشہور جملہ داغنے کی کوشش کی کہ ”ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں زندہ ہیں۔ “
کہنے لگے: ”جو کہتا ہے کہ ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں زندہ ہیں وہ خود کو زلیخا سمجھتا ہے“

ہم قہقہے لگاتے اٹھے اور کمرے سے دالان تک آنے کے لیے مرشد کو اپنے کاندھے کا سہارا پیش کیا۔ ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دوسری طرف کھڑی عنبر سے کہنے لگے: ” بھئی! آپ بھی تو سہارا دیجے“
پھر عنبر کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے: ”ہماری عمر میں لاکھوں میں سے ایک آدھ مرد میں شرارت اور بدمعاشی بچتی ہے۔ ہم وہی ایک آدھ ہیں“

رخصتی قہقہے سے ان کے گھر کا دالان گونج اٹھا۔ ہم بے اختیار یوسفی صاحب کے گلے لگ گئے۔ پاؤں چھوئے۔ عقیدت آنسو بن کر آنکھوں سے جاری تھی۔ مشتاق احمد یوسفی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں مگر ہم ان کے خاص الخاص عاشق ہیں۔ مولائے سخن ان کو عمرِ خضر عطا فرمائے کہ ریاکار لکھاریوں، شاعر نما مداریوں اور شہرت کے پجاریوں کے دور میں یہ شخص سَچّا، سچّا، کھرا اور خالص فنکار ہے!

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، ات ہم نفَسو! وہ خواب ہیں ہم

Feb 12, 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3