مشتاق احمد یوسفی سے ملاقات: قہقہوں بھری چند شریر یادیں


”ادھر کچھ ماہ قبل ایک شوخ چنچل لڑکی ہمیں ملی۔ آدھ پون گھنٹے کی گفتگو کے بعد کہنے لگی کہ یوسفی صاحب! بات چیت میں تو آپ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں مگر تحریر میں بالکل لچّے لگتے ہیں“۔
(مشتاق احمد یوسفی)

صاحبو! یہ جملہ ان درجنوں قہقہہ آور غیر مطبوعہ جملوں میں سے ایک ہے جو ہم نے یوسفی صاحب سے ملاقات کے دوران انہی کی زبانی سنے اور آپ کو سنانے والے ہیں۔ جب برسوں پرانے کسی خواب کی تعبیر مل جائے تو انسان خوشی سے گنگ، حیرت سے گم سم اور بے یقینی سے ہکّا بکّا رہ جاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی سے مل کر ہم پر یہ تینوں شدتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں۔ یہ کہنے میں کیا تکلف اور تامل کریں کہ یوسفی نے ہمارے بچپن کی گھنگھور اداسیوں کو سہلایا، نوجوانی کے گھٹا ٹوپ شب و روز کو گرمایا اور گنجلک آلامِ روزگار کو آسان بنایا ہے! ہم ان سے ملے بغیر ان کے ان گنت احسانوں تلے دبے تھے۔ سو جب ملے تو ہمارا ساکت و ششدر رہ جانا ہی بنتا تھا۔

معروف و بےمثال شاعرہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر کا یہ احسان شاید ہم ساری زندگی نہ چکا پائیں کہ انہوں نے ہمیں یوسفی سے ملوایا۔ حسیب بھائی یعنی عنبر کے شوھرِ نامدار بھی ہمراہ تھے۔ ہم گھر ڈھونڈ ڈھانڈ کر پہنچے تو دروازے پر ایک عدد جیّد کتے کو چشم براہ پایا۔ دیدہ و دل ہی نہیں بلکہ دندان و دم بھی فرشِ راہ کیے بیٹھا تھا۔ یوسفی کا مرحوم کتا (اللہ بخشے) سیزر یاد آگیا۔ یہ موجودہ سگ اس تاریخی سیزر کا سگا پڑپوتا ہے شاید۔ اس کا نام البتہ یوسفی نے ”زار“ رکھ چھوڑا ہے۔ واضح رہے کہ یہ زار و قطار رونے، آہ و زاریاں کرنے یا ”پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں“ والا زار نہیں، روسی شہنشاہوں والا زار ہے۔ نام تو تھا ہی شہنشاہوں والا، عادات بھی ہوبہو ویسی ہی تھیں۔ دم سادھے فرش پر یوں پڑا تھا جیسے تخت پر نشئی بادشاہ۔ ”جو ناخلف دکھائیں سو ناچار دیکھنا“
کتے نے (کہ جس کو کتا کہنا بدتہذیبی ہوگی) انگڑائی لی تو عنبر سہم کر کہنے لگیں کہ ”ارے ارے دیکھیے! ہمیں ہی کاٹنے کی تیاری کر رہے ہیں یہ“۔ خانساماں نے آکر ترنت اس ناہنجار کو طوق در گلو کیا تو ہماری گلوخلاصی ہوئی اور ہم اندر گھسے۔

یوسفی کے گھر کے ڈرائینگ روم سے جمالیات کا ہر پہلو ہویدا تھا۔ روشنی، رنگ، خوشبو، مصوری، موسیقی، مجسمے اور محبت! ہر شے ترتیب سے رکھی ہوئی۔ یوسفی داخل ہوئے تو ہم سمیت سب اسبابِ جمالیات نے تعظیم سے استقبال کیا۔ شلوار قمیص میں لپٹا چھیانوے سالہ انتہائی لاغر و نحیف جسم، ستا ہوا مگر ہنستا مسکراتا مطمئن چہرہ، آواز ایسی موہوم، ملائم اور مدہم کہ کان لگائے بغیر سننا مشکل (ہم تو خیر ان کے حرف حرف کے لیے ہمہ تن گوش تھے)۔ اٹھک بیٹھک اور چلت پھرت میں نقاھت مانع تھی مگر جب بولنے لگے تو چست و چاق و چوبند چٹکلے تھے کہ رنگ برنگ پھلجھڑیوں کے مانند ان کے لبوں سے پھوٹ رہے تھے۔ باتیں ایسی کہ مارے خوشی کے دل دو پھانک ہوجائے۔ آتے ہی وہ صوفے پر بیٹھ گئے تو ہم بھی ہاتھ باندھے دھڑکتے دل لیے بیٹھ گئے۔

کمرے میں ایک دم گھمبیر خاموشی چھا گئی۔ ہم نے سوچا شاید لیجنڈ کی موجودگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ کافی دیر تک یوسفی ٹکٹکی باندھ کر فرش کو اور ہم ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے نگاہ اٹھائی اور عنبر سے کہنے لگے، “بھئی آپ کے جوتے بہت خوبصورت ہیں“۔ عنبر اس غیرمتوقع جملے (حملے) کی تاب نہ لاکر شکریہ ادا کرکے ہنسنے لگیں۔ یوسفی بولے: ”آپ ہی کی عمر کی ہوں گی وہ لڑکی جو ہم سے ملیں۔ ڈاکٹر بن رہی تھیں شاید۔ رخصت ہوتے وقت اٹھلا کر کہنے لگیں کہ یوسفی صاحب! ایک بات تو بتائیے۔ آپ جیسے عمررسیدہ مرد جب مجھ جیسی نوجوان لڑکیوں سے ملتے ہیں تو جاتے جاتے یہ کیوں کہتے ہیں کہ بھئی! ملتی رہا کرو“۔

اب قہقہوں کا دور شروع ہوا۔ ہم نے ازراہ تلطف پوچھا کہ ”سرکار! آج کل طبیعت کیسی ہے؟ “
کہنے لگے، “میاں! اپنے آپ پر پڑا ہوں۔ زندگی میں تو غم سے چھٹکارا نہیں ملنے کا“۔
ہم نے عرض کیا کہ ”جی ہاں! غالب نے بھی یہی کہا تھا کہ قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں“۔
ایک دم سنبھل کر بیٹھ گئے اور بولے کہ ”نہیں! قیدِ حیات و بنتِ عم اصل میں دونوں ایک ہیں“۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3