قول و فعل میں یکسانیت ضروری ہے


ہم سب بحثیت قوم ایک جیسے ہیں۔ خواہ کوئی صاحب ممبر ہے یا ممبر پارلیمان ہے۔ خوانچہ فروش ہے یا سرکاری ملازم۔ سب دیکھنے میں کچھ اور دکھتے ہیں اور عملی طور پر دوہری شخصیت کے مالک نظر آتے ہیں۔ ہم ہر ایک سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ پاکباز ہو اس کے قول و فعل میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہ ہو لیکن اپنے متعلق ایسا نہیں سوچتے۔ بلکہ ان خیالات کے برعکس موقف رکھتے ہیں۔

مسجد اور مدارس کے علماء و خطیب دینی تبلیغ کرتے ہوئے اسلامی قوانین کے عدم نفاذ کو معاشرے میں موجود تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں اور دعوی کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قتل، زنا، زنا بالجبر، اغوا، اغواء برائے تاوان، ڈاکوؤں کو سرعام لٹکایا جائے تو باقی خود بکود اپنا قبلہ درست کرلیں گے۔ ان کے موقف میں بہت وزن ہوتا ہے اگر یہ سزائیں بلا تفریق رنگ و نسل، بلا امتیاز مذہب و ملت و جنس اور پیشے کے ہر جرم کرنے والے کو دی جائیں۔

لیکن جب جرم ہمارے لخت جگروں، آنکھوں کی ٹھنڈک اور نورالعینوں سے سرزد ہوجائے تو ہم بلا کسی جھجک، شرم و حیا ان کی قانون کے شکنجے سے گلو خلاصی کے ہر صاحب ارباب اقتدار کے در پر دستک دیتے ہیں اور اس کے لیے اس بات کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھتے کہ اس سے ان کی عزت، شہرت داغدار ہوجائے گی۔ اس وقت ہمارا مقصد صرف اور صرف اپنے پیاروں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جانے اور سزا سے بچانا ہوتا ہے۔ آئین و قانون اور ہماری دینی تعلیمات کو اپنے ذاتی مفادات کی الماری میں محفوظ رکھ دیتے ہیں۔

قوموں کی برادری میں باعزت قوم وہیں تصور ہوتی ہے جس کے قول و فعل میں یکسانیت ہوتی ہے۔ اور جس قوم کے راہنماؤں میںیہ جوہر ناپید ہوتا ہے وہ قوموں کی برادری میں ناقابل اعتماد اور ناقابل بھروسہ سمجھی جاتی ہے۔ اس صفت کی حامل قوم سے کوئی قوم نہ لین دین کرتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی امداد کی مستحق خیال کیا جاتا ہے۔ قول و فعل میں تضاد رکھنے والے افرادکی گواہی کو ہمارا دین اسلام بھی قبول کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔

ہمارے ہادی برحق پیغمبر معظم نبی مکرم حضور علیہ السلامﷺ کی حیات مبارکہ اللہ تعالی سبحانہ نے اسوہ حسنہ قرار دے کر اسے اپنانے کے احکامات اسی لیے جاری کیے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہری طور پر اعلان نبوت کرنے سے قبل چالیس سال تک اپنا قول و فعل اور کردار و عمل مکہ کے عوام کے سامنے پیش کیا۔ اور مشرکین مکہ کو دعوت اسلام دینے سے قبل ان سے اپنے قول و فعل اور کردار کی ان سے گواہی لی تو سب نے یک زبان ہوکر اقرار کیا کہ ہم نے آپ کو صادق اور امین پایا ہے۔ آپ جو کہیں گے سچ کہتے ہیں۔ لیکن نہ جانے ہم سچے پیغمبر کے پیروکار ہونے کے باوجود ہم اپنے قول و فعل میں تضاد کیوں رکھتے ہیں؟

ہمارا معاشرہ تضادات سے بھرا پڑا ہے۔ ہم جو ظاہر میں نظر آتے ہیں وہ اصل میں ہوتے نہیں ہمارے ارباب سیاست و اقتدار کو ہی لے لیں 2013 کے انتخابات میں وعدے کیے دعوے کیے کہ ہم برسراقتدار آکر ملکی خزانے سے لوٹی گئی قومی دولت ان کے پیٹ پھاڑ کر نکالیں گے۔ انہیں لاہور، کراچی، پشاور اور کوئیٹہ کی سڑکوں پر گھیسٹا جائے گا اور لاہور کے بھاٹی چوک میں الٹا لٹکایا جائے گا۔ اللہ نے یہ دعوے اور وعدے کرنے والے قومی راہنماؤں کو کامیابی سے نوازا ملک میں ان کی حکومتیں قائم ہوئیں مگر پورے پانچ سال کا وقت گزر گیا۔ کسی قومی لٹیرے کا پیٹ نہیں پھاڑا گیا، اور نہ ہی کسی کو لاہور، کراچی، پشاور اور کوئیٹہ کی سڑکوں پر گھیسٹنے کے مناظر پاکستان کے شہریوں کو دیکھنے نصیب ہوئے۔ ایسے قومی راہنما اپنے قل کو پورا کرنے میں ناکامی پر ندامت محسوس کرنے کی بجائے ایکبار پھر پاکستانی عوام سے وعدے کیے جا رہے ہیں کہ اگر انہیں منتخب کیا گیا تو ہم قومی دولت لوٹ کر بیرون ممالک جمع کرنے والوں سے پائی پائی واپس لیں گے۔

انہیں پاکستانی سیاستدانوں نے لاہور اور پنجاب کے عوام سے وعدے کیے کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور ویسا نہ کیا تو میرا نام تبدیل کر دینا۔ نہ لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی اور نہ کسی نے اپنا نام تبدیل کیا۔ پچھلے تیس سالوں میں نہ جانے کتنی بار وعدے اور دعوے کیے گئے کہ پنجاب کے تھانوں کا کلچر تبدیل کردیا جائے گا، پولیس تھانے خوف کی بجائے جائے امن بنا دیے جائیں گے۔ کچہری کا نطام بدل جائے گا عدالتیں عوام کو ان کی دہلیز پر انساف فراہم کریں گی لیکن سب کچھ بڑھکوں سے آگے نہیں جا سکا۔

اب انتخابات دوہزار اٹھارہ کی آمد آمد ہے بلکہ برسراقتدار تمام سیاسی پارٹیوں نے انتخابی مہم شروع کر کھی ہے جلسوں کی بہار لگی ہوئی ہے۔ بڑی بڑی رقوم خرچ کرکے جلسوں کو کامیاب بنایا جا رہا ہے۔ ان جلسوں میں سارا زور مخالفین پر الزام تراشیاں کرنے پر صرف ہو رہا ہے۔ کسی ایک جماعت کی جانب سے ان جلسوں میں اپنی جماعت کے آئندہ کے منشور پر اظہار خیال نہیں کیا۔ عوام کو ان کو روٹی، روزی، روزگار، مکان اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے وعدے نہیں کیے جا رہے۔ عوام کو یہ تسلی نہیں دی جا رہی کہ ان کے برسراقتدار آنے کے بعد کسی باپ کو اپنی بیٹی کی شادی کرنے کی فکر دامن گیر نہیں رہے گی۔ یہ وعدہ نہیں کیا جا رہا کہ بیٹی جانے اور ریاست جانے۔ غریب عوام کی بیٹیوں کی شادیاں ریاست کرے گی۔ جہیز ریاست دے گی۔ اس مقصد کے لیے غریبوں کو ریاست اور صاحب ثروت حضرات کے آگے دست سوال نہیں پھیلانا پڑت گا۔ یہ وعدہ بھی نہیں کیا جا رہا کہ ان کے اقتدار میں آتے ہی کوئی شخص علاج معالجے کی سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث نہیں مرے گا۔ ایسا ہوا تو حکومت ذمہ دار ہوگی۔ یہ وعدہ بھی نہیں کیا جا رہا کہ وہ برسراقتدار آنے کے ایک سال کے اندر اندر تمام بے گھر افراد کو اپنا گھر دیں گے۔

سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایک وعدہ کیا تھا کہ ہر سرکاری ملازم کو ملازمت سے ریٹائرمنٹ پر پنشن کاغذات کے ہمراہ گھروں کی چابیاں دی جائیں گی مگر یہ وعدہ پورا کرنے کی سوچ ہی پیدا نہ ہوئی۔ ایسا خیال بھی سابق وزیر اعظم کے قریب سے نہیں گزرا ہوگا۔ میرا سوال ہے اپنے سیاستدانوں سے کہ وہ ایسے وعدے اور دعوے کرتے ہی کیوں کرتے ہیں جنہیں پورا کرنے کی انہیں اجازت ہی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).