ایک نئے مذہبی فرقے کی اشد ضرورت ہے


اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتنے مذہبی فرقے ہیں اور ایک دوسرے کے نزدیک سبھی کافر ہیں، لیکن جب کبھی کسی روشن خیال اور خدا لگتی کہنے والے شخص کی مخالفت کا موقع ہو تو سبھی فرقے متحد ہوجاتے ہیں ۔ اور جب کسی ایسے فرد کا انتقال ہوتا ہے تو اس کے جنازے کے حوالے سے ایک پریشانی لاحق ہوجاتی ہے۔ موجودہ فرقوں کے پیروکار تو باقاعدہ تحقیق کرتے ہیں کہ مردہ ان کے مسلک سے تھا یا کسی اور سے۔ اس کا جنازہ پڑھنا اور پڑھانا جایز بھی ہے یا نہیں۔ اور اگر جنازہ پڑھانے کا بندوبست ہو جاےٓ تو جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد کے حوالے سے گفتگو کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس سے مرحوم کی اگلی زندگی کے بارے میں قیاس آراییوں کا سلسلہ پھوٹ پڑتا ہے جو مرحوم کے غم میں پہلے سے نڈھال خاندان اور چاہنے والوں کے لئے مزید اذیت کا باعث بنتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی انسان دوست شخصیت کے جنازے کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ مولانا مودودی کے صاحبزادے فاروق حیدر مودوی پڑھاییں گے۔ چونکہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے والد کی جماعت سے اختلاف رکھتے ہیں، اس لیے ان کے پڑھائے جانے والے جنازے کی بارگاہِ الہی میں قبولیت کے حوالے سے راےٓ زنی کا سلسلہ بھی شروع ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ جیسے نصرت فتح علی خان مرحوم کے بارے میں طرح طرح کی من گھڑت کہانیاں سننے کو ملتی رہیں۔ گورنر سلمان تاثیر جو خود ایک جرم کا شکار ہوےؑ تھے، کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے کسی بھی فرقے کا کوئی مولوی ہاتھ نہیں آ رہا تھا جبکہ ان کے قاتل کے جنازے کے لئے سارا ملک امڈ پرا تھا۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو شہید کا جنازہ تو بالکل ہی سرکاری مداخلت سے پراییویٹ رکھا گیا، جبکہ ضیاالحق کا جنازہ بہت بڑے مجمعے نے پڑھا اور اسے دفنایا بھی ایک ایسی جگہ گیا جہاں لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے، لیکن یہ اور بات ہے کہ کبھی کسی کو وہاں حاضری کے لئے جاتے نہیں دیکھا گیا۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے اگرچہ گورنر سلمان تاثیر اور ذوالفقار علی بھٹو کے جنازوں میں عوام نہیں تھے، اور ان کے قاتلوں کے جنازوں میں بہت بڑے مجمعے تھے، تو کیا یہ معیار ٹھہرا کہ کون بخشا گیا اور کون نہیں؟ جبکہ جنازوں کے بعد بھٹو کے نام لیوا تو اب بھی موجود ہیں اور ضیا کا نام لینے والے خود اپنے آپ سے شرمندہ ہیں۔ سلمان تاثیر کو اب تک سوشل میڈیا پر بھی گستاخِ رسول یا مذہب مخالف ثابت نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ اس کے انٹرویوز کے جو کلپس ہیں ان میں اینکرز ان کی زبان سے ایسا کچھ کہلوانے کی کوشش کرتے رہے جس سے ان کی مذہب بیزاری جھلکے، لیکن ان کی زبان سے حضورﷺ کا اسم مبارک احترام سے نکلا۔ ۔ بدقسمتی سے ہماری مساجد میں اسلام کی تعلیم کی بجاےؑ صرف اور صرف مسالک اور فرقہ واریت کو ہی پروان چڑھایا جاتا ہے اور اگر کوئی فرقہ واریت کے خلاف بات کرے تو اس کے خلاف تمام فرقے متحد ہوجاتے ہیں۔ جاوید غامدی کی مثال سامنے ہے، جس کے درپے تمام فرقے ہیں اور وہ ملک سے باہر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اگر موت کے بعد انسان کو باعزت طریقے سے آخری سفر پر روانہ نہ کیا جا سکے، اس سے بڑی انسانیت کی تذلیل اور کیا ہو سکتی ہے۔ حالانکہ تمام مسالک اس بات پر بھی متفق ہیں کہ حضورﷺ نے عبداللہ بن ابی کی نا صرف نمازِ جنازہ پڑھائی بلکہ اپنا کرتا مبارک بھی اسے بطور کفن پہنایا۔ پھر یہ علما ایسی روشن مثالوں کو کسی روشن خیال انسان کی وفات کے موقع پر کیوں نظرانداز کریتے ہیں؟ اب وقت آگیا ہے کہ ہر مسلمان کو نمازِ جنازہ، اور نکاح پڑھانے کے قابل ہونا چاہیےؑ تاکہ اپنے پیاروں کی غمی خوشی کے موقع پر خود ہی یہ مذہبی فریضے ادا کیے جا سکیں۔ ایسا اگر ممکن نہیں تو کم از کم ایک ایسا فرقہ ضرور بننا چاہیےؑ جو فرقہ واریت کے خلاف ہو، جہاں کفریہ فتوے نا دیے جاتے ہوں، جہاں کسی کے ایمان کو زیرِ بحث نہ لایا جاتا ہو، جہاں سے کسی انسان کو باعزت طور پر اس کے سفرِ آخرت پر روانہ کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).