Why I am not an actor


\"arifمیری عمر اس وقت کوئی آٹھ برس کی ہو گی جب میں نے اپنی امی سے ایک حیرت انگیز بات سنی۔ وہ ریڈیو کا زمانہ تھا اور گھروں میں تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ یہی جادو کا ڈبہ تھا۔ امی نے بتایا کہ امریکا اور یورپ میں اب ایک ایسا ریڈیو ایجاد ہو گیا ہے جس پر نہ صرف گانے والے کی آواز سنائی دیتی ہے بلکہ اس کی صورت بھی نظر آتی ہے۔ تھوڑا سا حساب کتاب کروں تو یہ حیرت انگیز لیکن ناقابل یقین واقعہ 1954ء میں پیش آیا تھا …. اور دیکھئے کہ آئندہ دس برس کے اندر اندر وہ محیرالعقول ولایتی ایجاد لاہور بھی پہنچ گئی۔

میں نے جب پہلی مرتبہ ٹیلی ویژن دیکھا تو میں گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ لاہور کے ایک ہوٹل میں شادی کی تقریب تھی اور کھانا میزوں پر لگ چکا تھا لیکن مہمان کھانے کی بجائے لکڑی کے خوبصورت باکس کی طرف متوجہ تھے جس میں نصب سکرین پر نصیر کنول نے ابھی ابھی خبریں پڑھی تھیں اور اب طارق عزیز اگلے پروگرام کا اعلان کر رہے تھے۔

میری پوری دلچسپی بھی اسی آلے پر مرکوز تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ آواز کے ساتھ ساتھ تصویر بھی کس خوبصورتی سے نشر ہو رہی ہے۔ گھر آکر میری بے چینی مزید بڑھی اور اگلے روز میں نے ٹیلی ویژن اسٹیشن دیکھنے کا قصد کیا۔

\"003\"لاہور کے عظیم الشان ریڈیو سٹیشن کے پچھواڑے کنٹین کے برابر میں عارضی طور پر بنا ہوا ایک کیبن تھا جس کے باہر ایک نشریاتی ٹرک کھڑا تھا جس میں سے ایک موٹی اور لمبی کیبل نکل کر عارضی کیبن کے اندر تک جا رہی تھی…. بسی یہی لاہور کا اولین ٹی وی سٹیشن تھا۔

کیبن کے اندر جا کر دیکھا تو وہاں قوی خان، مسعود اخبر، خورشید شاہد اور کئی ایسے چہرے نظر آئے جو سٹیج اور ریڈیو کی دنیا کے جانے پہچانے لوگ تھے۔ کیبن کے ایک کونے میں کسی ڈاکٹر کا انٹرویو ہو رہا تھا جو براہ راست ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا اور دوسرے حصہ میں بڑی احتیاط سے ، یعنی آواز پیدا کیے بغیر ایک سیٹ کی نوک پلک سنواری جا رہی تھی جس پر کچھ دیر بعد احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا کھیل ’گھر سے گھر تک‘ کھیلا جانے والا تھا لیکن مسئلہ یہ آن پڑا تھا کہ گھریلو ملازم کا کردار ادا کرنے والا لڑکا ابھی نہیں آیا تھا جبکہ کھیل نشر ہونے میں صرف دس منٹ باقی رہ گئے تھے۔ میں یہ تماشا دیکھ رہا تھا ۔ معاون پروڈیوسر قدرے غصے سے میری طرف بڑھی  اور  مجھے کیبن سے باہر چلے جانے کا حکم دیا۔ ’ڈرامہ آن ایئر جانے والا ہے، فالتو لوگ باہر پلیز‘۔ میں کیبن سے باہر آگیا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد وہی خاتون میرے پیچھے پیچھے باہر آگئی اور بولی ’تم ایک شرط پہ اندر آسکتے ہو، تمہیں ملازم کا کردار ادا کرنا ہو گا‘۔ نیکی ا ور پوچھ پوچھ ۔ میں فوراً خاتون کے ساتھ اندر چلا گیا۔

\"00\"مجھے ملازم کے کپڑے پہنا دیے گئے اور چائے کی ٹرالی تھما دی گئی۔ خاموش کردار تھا۔ میں نے مہمانوں کے سامنے جا کر چائے رکھنی تھی اور لوٹ جانا تھا۔ کیمرہ ریہرسل کے دوران میں نے دیکھا کہ سکرین پر میری موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بہت دکھ ہوا ۔ لیکن دس منٹ بعد جب ڈرامہ آن ایئر گیا تو میری مایوسی اداکار قوی خان نے دور کر دی۔ جب میں چائے رکھ کر لوٹ رہا تھا تو قوی نے فی البدیہہ ایک لائن کا اضافہ کیا اور کہا ’اے لڑکے، بات سنو‘۔میں نے رک کر ان کی طرف دیکھا تو سامنے والے کیمرے نے میرا کلوز شاٹ لے لیا۔ قوی خان نے دو سیکنڈ کا وقفہ دے کر کہا ’ٹھیک ہے تم جاﺅ‘۔ میں سیٹ سے باہر آگیا لیکن اس دوران میں لاہور میں زیر استعمال ڈیڑھ سو ٹی وی سیٹوں سے چمٹے ہوئے ہزاروں افراد نے میرا چہرہ دیکھ لیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میں ایک معمولی طالب علم سے ایک سٹار بن چکا تھا۔ اب میں نے فارغ اوقات میں ٹیلی ویژن سٹیشن کا طواف شروع کر دیا اور مجھے چھوٹے موٹے کردار بھی ملنے لگے لیکن میں کسی بڑے بریک تھرو کا منتظر تھا۔ کرکٹ کے بارہویں کھلاڑی کی طرح انتظار میں تھا کہ کوئی حادثہ، کوئی آفت ، کوئی ناگہانی

صورت حال ایسی آن پڑے کہ اچھا سا کوئی اہم کردار میری جھولی میں آن گرے …. اور پھر ایک دن بارہویں کھلاڑی کی دعائیں رنگ لائیں۔ میں ڈرامے میں جیل خانے کے چوکیدار کا چھوٹا سا کردار کر رہا تھا۔ کہانی یوں تھی کہ ہیرو ایک غلط فہمی کی بنا پر شدید غیظ و غضب کے عالم میں اپنی بیوی کا گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالتا ہے اور اب پھانسی سے ایک رات پہلے وہ جیل میں بیٹھا پرانے واقعات ذہن میں دہرارہا ہے ۔ صبح کا گجر بجتا ہے تو اسے پھانسی دے دی جاتی ہے اور کھیل ختم ہو جاتا ہے۔

\"001\"ہیرو کا کردار ایک بائیس سالہ خوبرو نوجوان ادا کر رہا تھا جو لائل پور کے علاقے میں کسی بڑے زمیندار کا بیٹا تھا۔ ریہرسل کے لیے ہر روز اسے ڈرائیور لائل پور سے لاہور لاتا اور شام کو واپس گھر لے جاتا۔ یہ نوجوان اس کردار کے لیے ایک اچھا انتخاب تھا اور پروڈیوسر کافی حد تک مطمئن تھا۔ ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ہیرو کے اردو لہجے میں مشرقی پنجاب جھلکتا تھاجو پروڈیوسر کو گوارہ نہیں تھا۔ چنانچہ میری ڈیوٹی لگائی گئی کہ ہیرو کے ساتھ بیٹھ کر ایک ایک لائن کی ریہرسل کراﺅں اور جہاں جہاں تلفظ بگڑتا ہے اسے درست کرا دوں۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور پانچ دن تک ہوشیار پوری لہجے کی سلوٹوں پر معیاری اردو کی استری پھیرتا رہا۔ پانچویں دن فائنل ریہرسل ہوئی تو پروڈیوسر بہت خوش ہوا اور میری محنت کو سراہتے ہوئے اس نے وعدہ کیا کہ اگلے ڈرامے میں بھی میرے لیے کوئی رول نکالے گا۔ چھٹے روز کیمرہ ریہرسل تھی جس کے بعد کھیل کو آن ایئر جانا تھا۔ دوپہر کے بارہ بج گئے لیکن ہیرو ٹی وی سٹیشن نہیں پہنچا۔ ساری کاسٹ صبح دس بجے سے ریہرسل کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ ساڑھے بارہ بجے کے قریب پروڈیوسر نے جنرل منیجر کے کمرے میں جا کر ٹرنک کال بک کرائی اور ایک بجے کے قریب آکر یہ روح فرسا خبر سنائی کہ ہیرو کے والد کو ….جو کہ علاقے کے بہت بڑے زمیندار ہیں …. اپنے بیٹے کے لچھن آج معلوم ہوئے ہیں۔ وہ حیران تھے برخوردار ہر روز ڈرائیور کے ساتھ کہاں غائب ہو جاتا ہے اور رات گئے لوٹتا ہے۔ اب چوہدری صاحب نے لڑکے کو کمرے میں بند کر دیا تھا اور خود کمرے کے باہر پہرہ دے رہے تھے۔

لیجئے ڈرامے کے اندر ایک اور ڈراما شروع ہو گیا۔ کھیل کے آن ایئر جانے میں صرف سات گھنٹے رہ گئے تھے اور ہیرو موجود نہیں تھا۔ پروڈیوسر نے منیجر سے درخواست کی کہ ڈرامے کا نشریہ کینسل کر دیا جائے مگر جواب ملا کہ اشتہار بک ہو چکے ہیں اور کوئی متبادل پروگرام بھی تیار نہیں ہے ۔ اس لیے ڈرامہ ہر صورت میں چلنا چاہیے۔ میں چونکہ ہیرو کو پانچ دن سے مکالمے یاد کروا رہا تھا اس لیے مجھے آدھے سے زیادہ سکرپٹ زبانی یاد ہو چکا تھا چنانچہ پروڈیوسر نے ایک بہت بڑا خطرہ مول لیتے ہوئے مجھے ہیرو کا رول سونپ دیا۔بس یوں سمجھئے کہ بارہویں کھلاڑی کی بن آئی۔ ایک جونیئر آرٹسٹ کو ہیرو کا رول مل گیا۔

ریکارڈنگ کی سہولتیں میسر آنے سے پہلے ہر چیز براہ راست نشر ہوتی تھی۔ جو لوگ ریکارڈ شدہ ڈراموں میں کام کرتے ہیں وہ اندازہ ہی نہیں کر سکتے ’لائیو براڈ کاسٹ‘ کا کیا مزہ تھا۔ بس ایک ننگی تلوار ہر وقت آرٹسٹوں کے سر پہ لٹکتی رہتی اور اس خدشے سے دل دھڑکتا رہتا کہ کوئی غلطی ہو گئی تو ان ہزاروں ناظرین کے کوسنے سہنے پڑیں گے جو اس وقت براہ راست ہماری کارکردگی دیکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا میرا کردار اس قاتل شوہر کا تھا جسے پھانسی کی سزا ہو چکی ہے۔ براہ راست نشر ہونے والے اس ڈرامے میں ہر قدم پھونک پھونک کے رکھ رہا تھااور جوں جوںڈرامہ آگے بڑھ رہا تھا میری خوشی بھی اسی نسبت سے بڑھتی جا رہی تھی۔ بالآخر ڈرامے کا اختتام آن پہنچا اور جیل کے حکام مجھے لے کر تختہ دار کی جانب روانہ ہو گئے ۔لمبی کاریڈور کے اختتام پر ایک موڑ تھا جس کے بعد ایک مفروضہ پھانسی گھاٹ تھا۔ جب ہم وہ موڑ مڑ چکے تو ڈائریکٹر نے کیمرہ خالی کاریڈور پر مرکوز کر دیا اور اسی پر اختتامی ٹائٹل چلنے لگے۔ میں دم سادھے کاریڈور کے اس کونے میں چھپا رہا اور ٹائٹلز ختم ہونے کا انتظار کرتا رہا ۔ کوئی ایک منٹ کے بعد جو کہ مجھے اس وقت ایک گھنٹے سے بھی زیادہ محسوس ہوا، میں اس پناہ گاہ سے باہر نکلا اور سنسان کاریڈور میں چلتا ہوا جیل کے سیٹ تک آگیا تاکہ پروڈیوسر اور اس کی ٹیم سے اپنی شاندار اداکاری پر داد وصول کر سکوں۔ اس لمحے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ٹیلی ویژن کی چھوٹی سکرین اب میرے شایان شان نہیں۔ مجھے بڑی سکرین پر پہنچ کر وحید مراد اور محمد علی کو چیلنج کرنا چاہیے۔ لیکن ہائے ری قسمت ، جب میں سیٹ پر پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اب میری نگاہ مانیٹر پر پڑی تو یہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے کہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا تھا اور اختتامی ٹائٹل مسلسل چل رہے تھے۔ البتہ پھانسی یافتہ شخص پھر سے زندہ ہو کر کاریڈور میں ٹہل رہا تھا۔

دبیز شیشے کے پیچھے کنٹرول روم میں کھیل کا پروڈیوسر سر کے بال نوچ رہا تھا اور منہ سے وہ جو کچھ کہہ رہا تھا وہ شیشے کی موٹی تہہ کے پرے ہی رہ گیا تھا۔اس کی معاون پروڈیوسر مٹھیاں بھینچ کر دانت کچکچا رہی تھی اور غضب ناک آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ ہیرو بننے کا سارا خواب ایک لمحے میں چکنا چور ہو چکا تھا۔ میں نے خیریت اسی میں جانی کہ ان لوگوں کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے یہاں سے نکل بھاگوں۔ چنانچہ میں نے قیدی ہی کے لباس میں ننگے پاﺅں وہاں سے دوڑنا شروع کیا اور شملہ پہاڑی کے عقب میں آکر سانس لی۔ وہاں سے ایک رکشے میں بیٹھ کر گھر پہنچا اور آئندہ کئی برس تک ٹیلی ویژن کا رخ نہ کیا۔ کوئی دس برس بعد میں دوبارہ ٹیلی ویژن گیا ، ایک اداکار کے طور پر نہیں بلکہ ایک ڈائریکٹر ،پروڈیوسر کے روپ میں ….لیکن یہ ایک الگ قصہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments