عاصمہ جہانگیر سے چند ملاقاتیں


عاصمہ جہانگیر ایک بے باک اور نڈر خاتون تھیں۔ وہ قانون کی علمبردار اور نشانی تھیں۔ ان کے اعتقادات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم بطور خاتون ان کی جدو جہد کے سب ہی معترف ہیں۔ ویسے بھی وہ اب اس دار فانی سے کوچ کر گئی ہیں لہذ ا برائیاں بیا ن کرنے اور کوسنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ خواتین کے لئے ایک مضبوط سہارا اور انصاف کی علامت تھیں۔ وہ انصاف کی پجارن اور سماجی اور معاشی بے حسی کی باغی تھیں۔ ان کا مذہب حقوق العباد کی پاسداری تھا۔

ویسے تو عاصمہ جہانگیر کو بار ہادیکھا، سنا اور ہر مرتبہ ان کی انفرادیت کے قائل ہو ئے بغیر نہ رہ سکے۔ لیکن دو ملاقاتیں ایسی ہیں جو بھلائے نہیں بھولتیں۔ گزشتہ سال ایک مقدمے کے سلسلے میں ان کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ سگریٹ سلگا کر ایک خاص موڈ میں تھیں۔ ان کی گفتگو سے لگتا تھا کہ وہ ذہنی طور پر کسی اونچے درجے پر پہنچی ہوئی ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی کیس کے مندرجات کا تہہ در تہہ تجزیہ کرنا شروع کر دیا۔ اپنے ماتحت معاون کو ہدایات دیں اور مقدمے کی بھر پور انداز میں تیاری کا حکم صادر فرمایا۔ اگلے دن جج صاحب کے پاس مقدمہ کی پیشی تھی جس کی وہ پیروی کر رہی تھیں۔ پرُ اثر منطقی طریقے سے کیس لڑا اور عدالت عالیہ سے عبوری حکم نامہ جاری کروانے میں کامیاب ہو گئیں۔

باہر میڈیا کا رش لگا ہوا تھا اور لائیو کوریج کے لیے ملک کے تما م نامور ٹی وی چینل کے نمائندے وہاں موجو د تھے۔ سب ان کی طرف لپک پڑے۔ مائیک عاصمہ جہانگر کے سامنے تھے اور وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح مذکورہ کیس کے مندرجات بیان کر رہی تھیں۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر وہ جس طرح انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں اور گمشدگیوں کے معاملے پر گرج برس رہی تھی وہ انہی کا خاصہ تھا کہ وہ بڑے بڑوں سے اپنی بات کہہ دیتی تھیں۔ وہ بے لحاظ بے لگی لپٹی سب پر وار کر رہی تھیں لیکن ایک حقیقت عیاں تھی کہ جو کچھ کہہ رہی تھیں ملکی اور بین الاقوامی آئین کے مطابق تھا۔

وہ اس وقت مجبوروں اور مظلوموں کے لئے آواز اور ان کی ترجمان بنی ہوئی تھیں۔ یہ عاصمہ جہانگیر ہی کی خوبی تھی کہ وہ منافق نہیں تھیں۔
جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے ان کا قد جسمانی قد سے کہیں بڑا تھاجس کا اظہار ان کے ناقدین بھی کرتے تھے۔ وہ ایک دبنگ خاتون تھیں اور گھٹن زدہ معاشرے میں توانا آواز تھیں۔ جج، جرنیل، جرنلسٹ اور جنرل پبلک سب ہی ان کی خوبیوں کے متعرف تھے۔

عاصمہ جہانگیر جدو جہد، حق گوئی اور بے باکی کی علامت اور استعارہ تھیں۔ اب نہ جانے ایسی ہستی کا خلا ء کون او رکیسے پر کر ے گا اس کا اندازہ لگانا کوئی آسان تو نہیں ہے۔ ہمارے جیسے مصلحت کا شکار معاشرے میں عاصمہ جہانگیر کا وجود کوئی نعمت سے کم تو نہیں تھا۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اسلم بھٹی
Latest posts by اسلم بھٹی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم بھٹی

اسلم بھٹی ایک کہنہ مشق صحافی اور مصنف ہیں۔ آپ کا سفر نامہ ’’دیار ِمحبت میں‘‘ چھپ چکا ہے۔ اس کے علاوہ کالم، مضامین، خاکے اور فیچر تواتر سے قومی اخبارات اور میگزین اور جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ آپ بہت سی تنظیموں کے متحرک رکن اور فلاحی اور سماجی کاموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔

aslam-bhatti has 38 posts and counting.See all posts by aslam-bhatti