بچے، بلیاں، کتے اور مستقبل کے اندیشے


تو بات چلی بچپن کی۔ ہمارا خیال ہے کہ بچھے تھوڑے سے خبیث ہوتے ہیں۔ یہ بات ہم اِتنے وثوق سے اِس لئے کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی کبھی بچے رہے ہیں اور کافی خبیث والے رہے ہیں۔ تو ہمیں بچوں سے خاصا ڈر لگتا ہے۔ خاص کر اپنے بچوں سے جو کہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔ لیکن اگر کبھی خدانخواستہ ہوئے تو ڈی این اے تو ہمارا ہی ہو گا نا۔ اور ہمارا خیال ہے کہ بچوں کے پاس کوئی سپر پاور ہوتی ہے جس سے انہیں فوراً معلوم پڑ جاتا ہے کہ ہمیں ان سے ڈر لگتا ہے۔

آپ نے بلی تو دیکھی ہی ہو گی۔ اسے ہُش بھی کیا ہو گا۔ کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ بلی ڈر جائے گی۔ لیکن یہی آپ کتے کو ہُش کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے کہ کہیں کتے نے کاٹنے کی غرض سے اگر صرف بھونک بھی دیا تو آپ کے جسم پر دل کے دورے والی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ دل کہ دھڑکن تیز، جسم ساکن اور ٹھنڈے پسینے۔ تو بچے ہمارے ساتھ کچھ بلیوں والا سلوک ہی کرتے ہیں۔ اور ہماری حالت ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسی آپ کی کسی ہاتھی کے جسامت والے کتے کے بھونکنے پر ہوتی ہو گی۔ ہم نے آگے سے بھونکنے کی بھی کوشش کی لیکن ہمارا خیال ہے کہ جب بلی بھونکنے کی کوشش کرتی ہو گی تو بہت کیوٹ لگتی ہو گی۔ کیونکہ جب جب ہم نے ایسی کوئی بہادری دکھانے کی کوشش کی، بچے بہت لطف اندوز ہوئے۔

ابھی پچھلے دنوں کی ہی بات ہے کہ ہم ایک سٹور میں کام کر رہے تھے۔ ایک خاتون اپنے دو ڈھائی سالہ بچے کے ساتھ سٹور میں داخل ہوئیں۔ بچے نے اندر آتے ہی سٹور میں ایسے بھاگنا شروع کیا کہ جیسے ابھی جیل سے چھوٹ کر آیا ہو۔ ہر وہ شے جو وہ اُٹھاتا، اُس کی ماں واپس رکھوا دیتی۔ اور وہ اُس چیز کو تقریباً پٹختے ہوئے اگلی شے اُٹھا لیتا۔ آخر میں اُس کی ماں نے مجھ سے درخواست کی کہ ذرا ڈانٹ کر اِسے منع کیجئے۔ ہم نے اُسے ذری بھاری آواز میں ڈانٹا تو وہ خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔ ہم اپنے آپ سے کافی متاثر ہوئے۔ لیکن اگلے ہی لمحے صاحب زادے نے ایک ٹماٹر اٹھایا اور اپنے فولادی ہاتھوں سے مسل ڈالا اور ہماری طرف دیکھ کر ایک فاتحانہ ہنسی ہنسا۔ اس کے بعد بلونگڑے کو ہم سے بغل گیر ہونے کی شدید خواہش ہوئی۔ اچھی خاصی ایکسرسائز کروا دی ہماری۔

ایسے ہی ایک دفعہ ہم ایک محفل میں گئے تو وہاں ہماری ایک عزیزہ نے اپنی ایک سالہ بچی ہمارے ہاتھ میں تھمائی اور کہیں چل دیں۔ جب تک وہ واپس آئیں تب تک شاید بچی کو احساس ہو چکا تھا کہ ہم بلی ہیں۔ وہ تو ہماری گود سے اُترنے کو تیار ہی نہ ہو۔ ہم ہے نے زبردستی اُسے ماں کی گود میں تھمایا تو وہ ایسے رونے لگی جیسے کوئی کتا اُس پر بھونک پڑا ہو۔ ہم نے اُسے چھت سے بھی لٹکایا کہ شاید ڈر جائے لیکن مجال ہے۔ وہ تو محض لطف اندوز ہو رہی تھی۔ تو اگلے دو گھنٹے اُس بچی کو ہم نے سنبھالا۔

اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہمیں اپنے اُن بچوں سے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے، کیوں ڈر لگتا ہے۔ تو میاں ہم بھی بچپن میں کچھ خبیث واقع ہوئے تھے۔ سب سے چھوٹے اور سب سے لاڈلے تھے تو کچھ زیادہ ہی خبیث تھے۔ تو ہوا کچھ یوں کہ بچپن میں ایک دفعہ ہماری انگلی میں پیپ پڑ گئی۔ ڈاکٹر نے چیر کر پیپ نکالی۔ کچھ ٹانکے بھی لگے۔ اور ہم اس کو لے کر کچھ زیادہ ہی محتاط ہو گئے۔ مطلب ہم نے اِسے کام نہ کرنے کا لائیسنس بنا لیا تھا۔ کوئی کام ہمیں کرنے کو کہا جاتا اور ہم نے نہ کرنا ہوتا تو ہم انگلی آگے کر دیتے۔ تو ہمارا ایک کزن ہوا کرتا تھا جو کہ انتہائی گول تھا۔ تو ظاہر ہے کہ حجم میں وہ ہم سے کئی گنا زیادہ تھا۔ تو کھیل کھیل میں موصوف گِر کئے اور اُس وجود کے نیچے ہمارا ہاتھ۔ ہماری تو اِس تصور سے چیخیں نکل گئیں کہ ہماری زخمی اُنگلی اور اُس کا وسیع جسم۔ اور آپس کی بات ہے کہ کچھ زیادہ ہی زور سے چیخے تھے ہم۔ اتنی زور سے کہ امی بھاگتی ہوئی آئیں اور اُس گول کزن کے ساتھ ساتھ ایک اور کزن کو جو کہ صرف صوفے پر بیٹھا ہنس رہا تھا، زناٹے دار تھپڑ رسید کیئے۔ جب پٹی کھلی تو پتا چلا کہ ہوا کچھ بھی نہیں اور اُن بیچاروں کی مفت میں دھلائی ہو گئی۔ بہرحال ہم اپنے چیخنے چلانے کو حلال کرنے کی غرض سے درد کا ڈراما کرتے رہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ امی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم صرف ڈرامے کر رہے ہیں کیونکہ کچھ دیر بعد ہم نے امی کو اُن سے معافی مانگتے دیکھا۔

تو اب سوچئے ہمارے بچے بھی ایسے ہوئے تو ہم کس کس سے معافی مانگتے پھریں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).