بارہ برس پہلے کا ایک ویلنٹائن ڈے


خاموشی اتنی تھی کہ رونے کی آواز سنائی نہیں دی۔

یا پھر شاید وہ رو نہیں رہا ہوگا، بے آواز سسکیاں بھر رہا ہوگا جس وقت میں گھر میں داخل ہو رہا تھا۔

میں نے سُنا ہی نہیں۔ میں اندر آ رہا تھا۔

شام ڈھل رہی تھی۔ اس روز بھی دفتر سے اُٹھتے اُٹھتے دیر ہوگئی تھی۔۔۔ نہیں معلوم کہ یہ خُدا کی مار ہے، کیا ہے کہ لنچ کے بعد سے یوں تو مندا پڑا رہتا ہے، لوگ تو کیا دفتر کے فرنیچر تک پر ایک اونگھتی ہوئی سُستی چھائی ہوئی لگتی ہے لیکن ادبدا کر سارے کام اُسی وقت یاد آتے ہیں جب چھٹّی کا وقت ہونے والا ہو اور پھر ہو کر نکل گیا ہو۔ اسی وقت کسی نہ کسی ضروری ای میل کا جواب دینا ہے، فیکس بھیجنا ہے، چیک پر دستخط کرنے ہیں اور نہیں تو پھر ڈائریکٹر کو یاد آ جاتا ہے کہ میمو کا جواب آج نہیں بھیجا گیا تو جانے کیا ہو جائے گا۔ یہ روز ہوتا آیا ہے اور اس دن بھی یہی ہوا تھا۔

دھوپ درختوں سے رُخصت ہوچکی تھی اور شام کی خُنکی بڑھتی جا رہی تھی جب میں نے گھر کے اسی مانوس راستے پر گاڑی ڈال دی۔ ٹریفک معمول سے زیادہ ہی تھا اور ہارن بجاتی، ایک دوسرے سے کتراتی گاڑیوں والے سبھی لوگوں کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی مگر پانی ساکت اور پُرسکون تھا۔۔۔ مائی کولاچی بائی پاس کے دونوں طرف جہاں سمندر پیچھے ہٹ گیا تھا اور زمین re-claim کرلی گئی تھی۔ اس پر نہ نشانات تھے نہ کوئی اور چیز، سوائے ان جھاڑیوں کے جو مینگروو کے جُھنڈ میں گُم ہوجاتی تھیں۔ مکانوں اور آبادی کی کثرت کی وجہ سے یہ جگہ تھوڑے دنوں میں پہچانی نہیں جائے گی، مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک بار پھر یہی سوچا تھا۔

بالکل اس جگہ کی طرح جہاں میں رہ رہا ہوں۔ گھر کی دہلیز تک آتے آتے مجھے اسی احساس نے آ لیا۔

آس پاس کوئی اور مکان بننا شروع ہوگیا ہے۔۔۔ روز کی طرح میں نے گردن گھما کر، دور تک چٹیل نظر آنے والی زمین کی طرف نہیں دیکھا۔ شاید بجری کا کوئی نیا ڈھیر اور سیمنٹ کی بوریوں کی قطار دکھائی نہ دی ہو۔ سامنے کی سیڑھی پر میں نے پیر رکھا اور صدر دروازے کے تالے میں چابی گُھمانے لگا۔

دروازہ پھر بند تھا۔

کچھ ہو گا، ضرور کچھ ہ وگا۔۔۔ دروازہ کُھلنے سے پہلے کا لمحہ ایک بار پھر فیصلہ کن معلوم ہوا، ہمیشہ کی طرح جب مجھے معلوم ہوجاتا تھا کہ دروازہ کھلنے اور گھر میں داخل ہونے پر سنّاٹا میرا استقبال کرے گا۔

دروازے میں چابی لگی چھوڑ کر میں نے نظر کمرے میں دوڑائی۔ میز اپنی جگہ موجود تھی اور کُرسیاں۔ میز پوش کا کپڑا دن کی تیزہوا چلنے سے کہیں کہیں سے مسک گیا تھا اور اس پر بے ترتیب دھری ہوئی کتابوں میں سے جس کا ڈسٹ کور، سلور گرے تھا، اس پر ریت کی ہلکی سی تہہ جھلملا رہی تھی۔ ہر چیز اسی طرح تھی۔ وہاں کوئی نہ تھا۔

مگر مجھے آواز دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ غسل خانے میں سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔۔۔ رُخسانہ نہا رہی ہوگی۔ خدا معلوم اس کو پہلے سے کیسے پتہ چل جاتا ہے اور یہ عین اسی وقت غُسل خانے میں گھس جاتی ہے۔ جس وقت مجھے دفتر سے گھر آنا ہوتا ہے۔ پھر اتنی دیر غسل خانہ خالی ہونے کا انتظار کرو۔ نکلتی ہے تو سارا فرش گیلا ہوتا ہے۔ کپڑے بدلنے بھی جائوں تو پائوں پھچ پھچ کرنے لگتے ہیں، اور پھر دیر تک ٹھنڈے رہتے ہیں۔

ٹھنڈے اور بے جان۔

رخسانہ تو باتھ روم میں ہے مگر وہ کہاں ہے؟ ٹائی اُتارے اور جوتے کھولے بغیر ہی بستر پر دراز ہوکر مجھے معاً خیال آیا۔ میں نے وہ مانوس، سیٹی کی طرح تیز اور باریک آواز نہیں سُنی جو مجھے چھوٹی سی چڑیا کی طرح چہکتی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور زندگی سے بھری ہوئی۔۔۔ ’’ہیلو ابّو۔۔۔‘‘

’’سلام کرو بیٹے۔۔۔‘‘ میں جواب میں کہتا۔ جواب دینے کے بجائے وہ پھولے ہوئے مُنھ کے ساتھ لپٹنے کے لیے تیار ہوتا۔

مگر یہ صورتِ حال فرضی تھی، یا اس وقت لگ رہی تھی۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔

رونے کی آواز میں نے بعد میں سُنی۔ اس سے پہلے کہ یہ آواز کان میں پڑتی، غُسل خانے سے آنے والی پانی کی شرر شرر رُک گئی۔ دروازہ کھلا اور رخسانہ گیلے بالوں میں کنگھی کرتی ہوئی باہر نکلی۔

جوتوں سمیت بستر کی چادر پر لیٹے رہنے کے بارے میں اس نے کچھ نہیں کہا۔ بلکہ اس نے میرے جوتوں کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ ان کے بجائے اس نے گردن گھما کر بستر کے ساتھ رکھی ہوئی چیسٹ آف ڈرارز کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل خالی تھی۔

’’کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے تعجّب سے پوچھا۔

’’کچھ نہیں۔‘‘ اس نے بالکل سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔

’’کچھ تو۔۔۔‘‘ میں اپنے تعجّب پر قابو نہیں پا رہا تھا۔

’’اونہہ۔۔۔‘‘ اس نے جواب بھی پورا نہیں دیا۔

مجھے براہِ راست سوال کرنا لازمی معلوم ہوا۔ ’’کیا یہ دیکھ رہی ہو کہ میں نے کچھ لا کر رکھا ہے؟ کیا مجھے کچھ لے کر آنا تھا؟ تم نے تو بتایا نہیں۔۔۔‘‘ میرے ایک سوال میں سے تین سوال بن گئے۔

کچھ کہنے سے پہلے اس نے میری طرف دیکھا۔ اسی طرح براہِ راست ۔مگر کہا کچھ نہیں۔ کم از کم لفظوں میں نہیں۔

’’کیا ہوگیا؟‘‘ میں نے اسی تعجّب کے تسلسل میں پوچھا۔

’’آپ نے آفس سے فون بھی نہیں کیا۔۔۔‘‘

’’ہاں، آج میٹنگ لمبی چلی۔ مگر صبح تو تم نے کہہ دیا تھا کہ تم خود شاپنگ ایریا جائو گی، اس لیے مجھے کچھ لانا نہیں ہے بازار سے‘‘ میں نے جواب دیا۔

وہ چپ چاپ بالوں میں کنگھی کرتی رہی۔ اس نے ایک بار پھر میری طرف نگاہ اٹھاکر دیکھا اور پھر کنگھے میں ٹوٹ کر اُلجھنے والے بالوں کی طرف۔

’’کوئی بات تھی کیا؟ تم فون کا انتظار کر رہی تھیں؟‘‘

وہ کنگھے کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کے بالوں سے ٹپکنے والی بوندیں فرش پر جمع ہو رہی تھیں۔ ’’آج چودہ فروری ہے۔۔۔‘‘ اس نے دھیرے سے کہا۔

’’وہ تو ہے، مگر پھر۔۔۔؟‘‘ میں نے قدرے جھلّا کر کہا۔ یہ گفتگو جانے کس سمت چلی جا رہی تھی۔

چودہ فروری؟ مگر یہ کون سا دن ہے۔ شادی کی سالگرہ بھولنے کا سوال نہیں۔ اس لیے کہ وہ ایک مشہور سیاسی لیڈر کی پھانسی کا دن تھا اور اس دن شہر میں یادگاری جلوس نکلتا تھا۔ ’’میری بھی پھانسی کا وہی دن ہے۔۔۔‘‘ ایک بار میں نے مذاق سے کہہ دیا تھا تو رخسانہ کے آنسو نکل پڑے تھے۔

پھر اس دن کے بارے میں، میں کوئی مذاق کیسے کرسکتا تھا؟

اس کی اپنی سالگرہ بھی نہیں ہوگی۔ اس کی تاریخ، اس کا اسٹار اور اس کے اثرات وہ مجھے اچھی طرح باور کرا چکی تھی۔

پھر مجھے کیا کرنا چاہیے تھا جو میں نے نہیں کیا تھا؟ اس کی آنکھوں میں ایک خاموش، بے لفظ سی کیفیت تھی جس کو میں پڑھ نہیں پا رہا تھا۔

’’مُنّا کہاں ہے؟‘‘ میں نے اسی سوال میں عارفیت سمجھی۔

’’بُلاکر دیکھ لیجیے۔۔۔‘‘ پھر وہی اکھڑا ہوا لہجہ۔

’’سرمد! سرمد! میں گھر آگیا ہوں۔ کہاں ہو بچّے؟‘‘ میں نے زور سے آواز دی۔

ایک بار پھر دوسری بار پکارنے پر وہ آ تو گیا مگر اتنی خاموشی کے ساتھ کہ رونے کی آواز سنائی نہ دے اور گالوں پر بہتے ہوئے آنسو اس کمرے کے اندھیرے میں چمکنے لگیں جس میں اب تک کوئی بتّی نہ جلی ہو۔

کیا ہو گیا؟ میں نے کچھ ناراض، کچھ پریشان ہو کر پوچھنا چاہا۔

لیکن وہ بھی چیسٹ آف ڈرارز کے اوپر دیکھ رہا تھا جہاں کوئی چیز نہیں رکھی ہوئی تھی۔

’’خالی آ گئے؟‘‘ اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں جھپکاتے ہوئے پوچھا اور اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، اس نے خود ہی بتا دیا۔’’وہ ہارٹز والا کیک تو لے کر آتے۔ پھر ہم ٹیبل پر رکھتے۔ ممّی کیک کاٹتیں اور میں کلیپ کلیپ کر کے کہتا، ویلنٹائن، ویلنٹائن۔۔۔‘‘

اس کی باتوں میں ایک تصویر مکمّل تھی۔ میں اس کی تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام رہا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں اپنی صفائی میں کوئی لولا لنگڑا بیان دیتا، اس کی سسکی نے مجھے چونکا دیا۔ گالوں پر آنسو پھر چمکنے لگے تھے۔

’’اچھا ہوا آپ کیک نہیں لائے۔ نہیں تو آپ بھی کافر ہوجاتے۔ گندے کافر۔ آپ بچ گئے۔۔۔‘‘ اس نے پھر آنکھیں جھپکاتے ہوئے مجھ سے کہا۔۔۔ ’’نہیں تو آپ بھی میری طرح گندے ہوجاتے۔ آپ کو پہلے سے پتہ تھا ناں؟‘‘

ویلنٹائن ڈے؟ گندے کافر؟ میں اس کی بنائی ہوئی تصویر سے اب بھی باہر تھا۔ اور اس تصویر میں کیک کے سامنے بیٹھے ہوئے بچّے کا چہرہ دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تیزی کے ساتھ بوڑھا ہو رہا تھا، جھرّیوں بھرا اور فکر کا مارا۔

’’مس نے بتایا۔۔۔‘‘ وہ سسکیوں کے درمیان کہہ رہا تھا۔ ’’اسکول میں بریک سے پہلے انہوں نے سب کو بتایا۔ ویلنٹائن ڈے منانے والے کافر ہوتے ہیں۔ یہ گندی بات ہے، بہت گندی بات ہے۔ اچھے لوگ مسلمان ہوتے ہیں۔ ہم اچھے مسلمان ہیں۔ ہم سلام کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔۔۔ صبح عمّار نے اور اُسامہ نے ان سے کہا تھا، ہیپی ویلنٹائن ڈے مس! سارے بچوں نے اسمبلی میں بڑی میڈم سے بھی کہا تھا۔ وہ تو ہنستی رہیں مگر کلاس مس بہت غصّہ ہوگئیں۔ انہوں نے یہ بھی دیا۔۔۔‘‘

میں نے دیکھا اس کی مٹھّی میں ایک پرچہ دبا ہوا ہے۔ اس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔۔۔ ویلنٹائن ڈے کافروں کی رسم ہے۔ اس کو منانے والے کافر ہیں۔

نیچے باریک باریک حروف میں سے پورا صفحہ بھرا ہوا تھا۔ کتابوں کے حوالے تھے، انگریزی کے الفاظ اور عربی کی آیات بھی۔ میں نے وہ کاغذ اس سے لے لیا۔ لیکن میں اتنی جلدی جلدی اس کو پڑھ نہیں سکا۔ میں نے بھی اسے مٹھّی میں بھینچ لیا۔ میں اس کو پڑھ سکتا تھا نہ پھینک سکتا تھا۔

پوری طرح سمجھے بغیر کہ مجھے اس صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے، میں نے جواب دینا چاہا۔ پھر خود ہی رُک گیا۔ میرا جواب یقینا ناکافی ہوتا۔ کوئی بھی جواب جس سے ننھّے منّے سرمد کے آنسو نہ پونچھے جاسکیں۔

’’چلو، تم نے ٹیچر کو وش کر دیا۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ یہ تو بلکہ ایک طرح سے اچھی بات ہے۔۔۔‘‘ اپنا لہجہ خود مجھے ہی کھوکھلا معلوم ہو رہا تھا۔

’’مس نے کہا تھا ویلنٹائن ڈے ہمارا نہیں ہوتا۔ اس کو منانے والے کافر ہوتے ہیں۔ ان کو گناہ ملتا ہے۔ میں نے بھی گندی بات کر دی، صبح ہی صبح۔ مجھے کیا پتہ تھا؟ آئی ایم سوری ابّو، سو سوری!‘‘

اس نے مجھے پھر وہی بتانا شروع کیا جو رخسانہ کو پہلے ہی بتا چکا تھا۔ مگر بتا بتا کر بھی تسلّی نہیں پا رہا تھا۔۔۔ پھر اسکول میں اس پرچے کی فوٹو اسٹیٹ تقسیم ہوئی تھی۔ میرے اندر افسوس کی ایک لہر اُٹھی کہ اتنا سا بچّہ بھی اس کیفیت کو جھیل رہا ہے۔ مگر میں چُپ رہا۔ اور چپ چاپ سُنے گیا جو وہ کہہ رہا تھا۔

’’اسکول جانے سے پہلے میں نے آمنہ کو ایس ایم ایس بھیجا تھا اپنے انگیج والے ٹوائے سے۔۔۔ آمنہ کو میں نے contact لسٹ پر ڈالا ہوا ہے، فری ایس ایم ایس کے لیے۔ میں نے اسکول میں سیکھا تھا۔۔۔‘‘ وہ مجھے بتا رہا تھا۔ آمنہ میرے چھوٹے بھائی کی بچّی ہے۔ میرا بھائی ثاقب بحرین میں رہتاہے۔ ویڈیو گیم اور موبائل فون والا انگیج اسی نے سرمد کو لاکھ دیا تھا۔ آمنہ پانچ سال کی ہونے والی ہے یا شاید ساڑھے چار کی ہو۔ ’’میں نے اس کو وش کیا تھا۔۔۔‘‘ اس نے بٹّن پریس کیا اور موبائل فون کے چھوٹے سے اسکرین پر آئوٹ گوئنگ میسیج روشن ہوگیا۔

“Valentine Mubarak

Sweetie Pie

Aur Sunao

Kaisey Ho Tum

Ab Likh Dalo Sab

Main Ok Hoon

Pooch Pooch___”

میں نے ہجّے کرکے الفاظ قیاس سے پڑھے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ہنسوں یا روئوں، سرمد کی طرح۔ میں نے رخسانہ کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ دھواں دھواں تھا۔ مجھ سے پڑھا نہیں گیا۔

میں بستر سے اُٹھ گیا۔ ٹائی کی ناٹ دُرست کی اور وہی کیا جو میں ایسے وقت میں کرتا ہوں جب میری سمجھ میں اور کچھ نہیں آتا۔ ’’چلو، ڈرائیو پر چلتے ہیں۔۔۔‘‘

گاڑی میں نے یوں ہی سوچے سمجھے بغیر ایک راستہ پر ڈال دی۔ میں نے کن انکھیوں سے سرمد کی طرف دیکھا۔ وہ گاڑی کے بند شیشے سے اپنی ننھّی سی ناک چپکائے باہر جھانک رہا تھا۔ شہر کی نیون لائٹس سے اس کی منّی منّی آنکھیں جگمگا رہی تھیں۔

میں نے گلا کھنکھار کر اسے مخاطب کیا۔ ’’بیٹے، بات یہ ہے کہ تم جیسے بچّے معصوم ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں سے گناہ نہیں ہوتا اور پھر آمنہ بھی تو بے بی ہے۔۔۔‘‘ میں نے کن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھا کہ وہ میری بات سُن بھی رہا ہے کہ نہیں۔

’’لک ابّو، ’لک!‘‘ وہ انگلی سے اشارہ کر رہا تھا۔ جدھر وہ اشارہ کر رہا تھا، میری نظریں بھی اسی رُخ پر تلاش کرنے لگیں۔ خیابان شاہین جہاں ختم ہوتی ہے، دو تلوار والے رائونڈ ابائوٹ پر عین ٹریفک کیوسک کے اوپر بینر رات کے پہلے پہر سمندر کے رُخ سے آنے والی ٹھنڈی ہوا میں پھٹپھٹا رہا تھا۔ چوڑے حروف پر چھڑکی ہوئی گلیٹرافشاں کی طرح چمک رہی تھی، لیکن اس کے بغیر بھی حروف کو پہچان لینا مشکل نہ تھا۔

Be Mine

This Valentine

For All of Eternity

Your Janoo 2005

سرمد زور زور سے پڑھ رہا تھا، رخسانہ زیر لب مسکراہٹ دباتے ہوئے آہستہ آہستہ۔ میں نے گڑبڑا کر گاڑی وہیں سے موڑ دی اور پارک ٹاورز کے بجائے شون چورنگی کی طرف چلنے لگا۔ رخسانہ کو بھی سمت کی غلطی کا احساس ہوگیا ہوگا، مگر اس نے کچھ نہیں کہا۔ کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ یہاں سے آگے ہم مسلسل خاموشی میں چلتے رہے۔

’’یہ بینر کس نے بنوایا ہوگا؟‘‘ اس آواز کو پہچاننے میں مجھے دیر نہ لگی کہ رخسانہ کی تھی۔ مگر وہ پوچھ کس سے رہی تھی۔ ’’کسی کے پاس جا کر یہ بینر بنوایا ہوگا۔ پھر کسی سے پرمیشن بھی لی ہوگی۔ مگر جس کے لیے بنوایا ہے، اسے پتہ کیسے چلے گا؟‘‘

میری خاموشی ٹوٹی اس وقت جب سگنل پر گاڑی رُکی اور سگنل پر مختلف چیزیں بیچنے والے سامنے آنے لگے، بند شیشوں پر دستک دینے لگے۔ جو لڑکے جیبی کنگھیاں، بال پنیں اور چیونگم ٹرے میں لگا کر بیچا کرتے تھے، ان کے ہاتھ میں غبارے تھے۔ سُرخ رنگ کے غبارے جو دل کی شکل کے تھے۔ ہوا بھرے سُرخ، سُرخ دل دھاگوں سے بندھے ہوئے، اس رات کی ہوا میں چمک رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی دھڑک نہیں رہا تھا۔ ایک لڑکے کے ہاتھ میں ٹیڈی بیئر والے کی چین تھے اور ایک بڑا سا سفید رنگ کا بیئر جس کے دونوں ہاتھ کُھلے ہوئے تھے۔ ’’میں ہوں ناں‘‘ اس کے اوپر ٹیڑھے میڑھے حروف میں لکھا ہوا تھا۔ایک چھوٹا سا وشنگ کارڈ اس کی موٹی سی ٹانگ کے ساتھ لٹک رہا تھا۔

میں نے غور سے دیکھا بھی نہیں تھا کہ چوکنا ہوگیا۔ سگنل کُھلنے سے پہلے موٹرسائیکل زن سے گزر گیا۔ پہلے ایک، پھر دو، پھر ایک کے بعد کتنے ہی۔ شور مچاتے ہوئے لڑکے سگنل کی مخالفت سمت میں جا رہے تھے۔ موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نہیں تھے آوازوں کا شور ہوا میں گونج رہا تھا۔

’’سمندر کی طرف جا رہے ہیں۔۔۔‘‘ گاری کے سنّاٹے میں رخسانہ کی آواز اُبھری تو میں چونک گیا۔ ’’سی ویو کی طرف اُدھم مچائیں گے، ویلنٹائن نائٹ منائیں گے۔۔۔‘‘ اس کی آواز آئی۔

یہ کہہ رہی ہے یا پوچھ رہی ہے؟ میں فیصلہ نہیں کر پایا۔ میں نے اس کی طرف مُڑ کر دیکھا، پھر سرمد کی طرف۔ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا ہماری طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔

’’نیکسٹ ہالیڈے کب ہے، ابّو؟‘‘ اس کی آواز آئی۔ ’’اچھا ،تو پھر محّرم پر مینی ہیپی رٹرنز آف سیلی بریشن کا میسیج بھیجوں گا۔ آمنہ کو پھر تو کوئی کافر نہیں کہے گا، ہیں ناں ابّو؟‘‘

وہ میری طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے سوال کا جواب نہ پا کر حیران ہو رہا ہو۔

میں نے کچھ کہنا چاہا مگر کچھ کہا نہیں گیا۔

پیچھے والی گاری کا ہارن بجا تو جیسے تار ٹوٹا۔ میں نے گاڑی گھر کی طرف موڑنے لگا۔

میرے لیے اس دن کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

لال، سفید ہارٹز والے غبارے میرے پیچھے پیچھے اُڑتے چلے آرہے تھے۔ اور کچھ دور تک نظر آتے رہے۔ گاڑی نے موڑ کاٹا تو وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).