کیا ایک نااہل شخص کا بنیادی آئینی حق چھینا جا سکتا ہے؟


اول تو یہ کہ اگر ہم کچھ دیر کے لیے پانامہ کیس کے فیصلے کو ایک غیر متنازعہ فیصلہ مان بھی لیں تب بھی ڈسکوالیفیکیشن اور کنویکشن میں فرق موجود رہتا ہے۔ کوئی بھی شخص کسی ذہنی یا جسمانی بیماری کی وجہ سے، کم یا زیادہ عمری کی وجہ سے، دوہری شہریت کی وجہ سے، مطلوبہ تعلیم یا قد کاٹھ پورا نہ ہونے کی وجہ سے، بد عملی کی بنیاد پر ملازمت سے بر طرفی کی وجہ سے، بنک ڈیفالٹر ہونے کی وجہ سے یا مجوزہ انداز میں اثاثے ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے کئی سرکاری و آئینی عہدوں کے لیے نا اہل تو قرار پا سکتا ہے لیکن اسے کسی طور بھی ایک سزا یافتہ شخص نہیں کہا جا سکتا۔ سزا یافتہ تصور کیے جانے کے لیے تعزیرات پاکستان میں درج سزاؤں (مثلا قید، جرمانہ وغیرہ) میں سے کسی سزا کا مجاز عدالت کی جانب سے سنایا جانا ضروری ہے۔

دوم یہ کہ اگر ہم کچھ دوستوں کی ناراضگی سے بچنے کے لیے مذکورہ نا اہلی کو سزا یافتگی تصور کر بھی لیں تب بھی ایسے نا اہل قرار پانے والے شخص کی پاکستان کی شہریت منسوخ نہیں ہوتی۔ اور ریاست بدستور اس کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی اتنی ہی ذمہ دار رہتی ہے جتنی کے باقی شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی۔ وہ اس کی زندگی کا حق ہو یا جائداد کی ملکیت کا، ووٹ کا حق ہو یا اظہار رائے کی آزادی کا، وہ برابری کا حق ہو یا فری ٹرائل کا، وہ مذہب کی آزادی کا حق ہو یا تنظیم سازی کا، اس کی نا اہلی یا سزا اس کے کسی بنیادی حق کو متاثر نہیں کرتی۔

یاد رہے کہ متذکرہ بالا دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ تنظیم سازی کا حق مطلب کسی بھی سیاسی، ثقافتی، معاشی یا سماجی تنظیم بنانے یا اس کا رکن یا عہدیدار بننے کا حق کسی عام قانون میں درج کوئی عام حق نہیں کہ جسے آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہو بلکہ آئین میں درج ایک بنیادی حق ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان بنیادی حقوق کو کئی دیگر ممالک کی عدالتوں کی طرح ہماری اپنی سپریم کورٹ نے بھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ قرار دیا ہوا ہے یعنی ان حقوق کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے دیگر اجزا مثلاً جمہوریت، پارلیمانی نظام اور عدلیہ کی آزادی وغیرہ کی طرح پارلیمنٹ کی جانب سے آئین میں ترمیم کر کے بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن ہمارے دوست ہیں کہ صرف ایک شخص کی وجہ سے قانون کیا اور آئین کیا اس بنیادی ڈھانچہ تک کو اکھاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).