سب سے پہلے پاکستان


\"amir

ہمارے ہاں خارجہ پالیسی کے حوالے سے دو حلقہ فکر موجود ہیں۔ ایک کی سوچ نہایت حقیقت پسندانہ بلکہ بے رحم ریئل ازم پر مبنی ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کو اپنے مفادات سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ امت مسلمہ، برادر اسلامی ممالک اور اس جیسی دوسری اصطلاحات رومانوی ہیں۔ حقیقی دنیا میں کوئی مسلم اُمّہ ہے نہ ہی برادر مسلم ملک، صرف مفادات اہم ہیں اور انہی کے تحت ہر ملک اپنی پالیسیاں بناتا ہے۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ ہمارے اکثر پیشہ ور سفارتکار، بعض سابق بیوروکریٹ اور بیشتر لبرل دانشور اور تجزیہ کار اسی سوچ کے حامل ہیں۔ خاص کر ’مسلم اُمّہ‘ کی اصطلاح ہمارے لبرل، سیکولر لکھاریوں کو بری طرح کَھلتی ہے، اس کا وہ اکثر مذاق اڑاتے ہیں۔ اسی حلقہ فکر کے بعض لوگ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’پاکستان نے خواہ مخواہ اسرائیل دشمنی میں بہت زیادہ آگے جا کر اسرائیل اور دنیا بھر میں یہودی لابی کو اپنا مخالف بنا لیا؛ حالانکہ ہمارا اسرائیل کے ساتھ براہ راست کوئی جھگڑا نہیں‘‘۔

اس حلقہ فکر کے برعکس ہمارے ہاں دوسرا نمایاں حلقہ خارجہ پالیسی کو نظریے کی عینک سے دیکھنے کا حامی ہے۔ ان کی فکر رومانویت آمیز ہے۔ یہ لوگ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ جیسے نعرے کو شدید بیزاری اور نفرت سے دیکھتے ہیں۔ یہ مسلمہ امہ کے تصور پر یقین رکھتے ہیں، برادر مسلم ممالک کا خیال انہیں ازحد مرغوب ہے اور ان کے خیال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پالیسیاں ایک مسلم ملک کے شایان شان ہونی چاہئیں۔ اسی حلقے میں ’پان اسلام ازم‘ کے حامی بھی موجود ہیں۔

ہمارے خیال میں بہترین حکمت عملی عملیت پسندی اور رومانویت کے امتزاج سے تشکیل پانی چاہیے۔ مجموعی طور پر ان کی درمیانی شکل ہی بہتر آپشن ہے۔ ظاہر ہے، یہ کوئی حتمی اصول نہیں کہ ہر جگہ ہی ان کا امتزاج بنایا جائے۔ ریاستوں کو کہیں بے رحم عملیت پسندی کو اپنانا پڑتا ہے تو کہیں رومان پسندی ہی واحد آپشن رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر چین کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ عملیت پسندی کے تابع رہی۔ ایوب خان اور بھٹو صاحب سے جنرل ضیا اوربے نظیر بھٹو سے نواز شریف، پرویز مشرف اور آصف زرداری تک، پچھلی نصف صدی میں آنے والے ہر حکمران نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں گہرائی پیدا کی اور چین کے اندرونی ایشوز جیسے ایغور مسلمانوں کے معاملات کو بالکل نظر اندازکیا۔

دوسری طرف رومانویت یا ’رومانٹسزم‘ بسا اوقات اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ جیسے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت بالکل بجا اور درست ہے۔ ان کے ساتھ بہت ظلم ہوا اور بدستور ہو رہا ہے۔ پاکستان کو فلسطینی کاز کو ہمیشہ سپورٹ کرنا چاہیے، خواہ اس کے لئے اسرائیلی مخالفت ہی کیوں نہ مول لینی پڑے۔ برما میں مظلوم روہنگیا مسلمانوں پر قیامت ٹوٹے تو اس پر صدائے احتجاج بلندکرنا بنتا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ مسلم امہ سیاسی اعتبار سے ایک حقیقت نہیں، مگر بہرحال ایک تصور تو ہے، اسے یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل اخلاقی اصولوں پر مبنی رومانویت اور مسلم امہ کے تصور یا اس بنیاد پر کوئی پالیسی بنانے کا نظریہ ہمارے معروضی حالات کے پیش نظر اہم اور متعلق (Relevant) ہے۔ ہمارے جیسے خطرات اور دشمنوں میں گھرے ملکوں کے لئے اعلیٰ اخلاقی اصولوں اور مسلم امہ کی بات کرناضرورت بھی بن جاتی ہے۔

بعض اوقات ہمیں اسی بنیاد پر حمایت درکار ہوتی ہے یا مل سکتی ہے۔ بات سادہ ہے، بھارت پاکستان سے چھ گنا بڑا ملک، بہت بڑی منڈی اور نمایاں معاشی طاقت ہے۔ پاکستان کے نسبت بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھنا ہر مسلم ملک کی ترجیح ہوگی کیونکہ اسے بھارت جو دے سکتا ہے، پاکستان نہیں دے سکے گا۔ ہم اپنے برادر مسلم ممالک سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ صرف عملیت پسندی پر پالیسی نہ بنائیں اور پاکستان کو ایک برادر مسلم ملک کی رعایت دیں، اس کے لئے زیادہ گنجائش نکالیں، بھارتی دباؤکے باوجود مظلوم کشمیریوں کے لئے بات کریں۔ اگر پاکستان خود اپنی پالیسیوں میں مسلم عنصر یا اخلاقی بنیادوں پر سپورٹ کرنے کی سوچ شامل نہیں کرے گا تو پھر مسلم دنیا یا عالمی دنیا سے کس بنیاد پر اپیل کرے گا؟

’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ والی بات جنرل پرویز مشرف نے کہی تھی اور اس کا خاص تناظر تھا، اس لئے اس پر شدید تنقید ہوئی۔ یہ بات مگر اپنی اصل میں بالکل درست ہے۔ سب سے پہلے پاکستان ہی کو دیکھنا چاہیے، اس کو درپیش خطرات، چیلنجز اور اس کے مفادات …… یہ سب ہمیں ہر دوسری عصبیت سے زیادہ عزیز ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں پچھلے دو عشروں کے دوران کئی ممالک اپنا اپنا کھیل کھیلنے کی کوشش کرتے رہے۔ ہمارے دوستوں میں سے بعض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی پراکسی وار کے لئے پاکستان کا میدان چنا اور اپنے اپنے گروپوں کومبینہ طور پر فنانس کرتے رہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ کون سا الزام درست ہے، کون سا غلط، کس ملک کا حصہ زیادہ تھا، کس کا کم …… اب ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ کسی کا آلہ کار نہیں بنیں گے۔ اپنے ملک میں دوسرے ممالک کے ایجنٹوں کو پھلنے پھولنے نہیں دیا جائے گا۔

بلوچستان سے ’را‘ ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری ایک گیم چینجر ہے۔ پہلی بار پاکستان سے اس قدر ہائی پروفائل بھارتی جاسوس پکڑا گیا ہے۔ پاکستانی اداروں نے کل بھوشن والے معاملے کو اٹھا کر بالکل درست فیصلہ کیا۔ اس پر جو کچھ کیا گیا، درست اور جائز ہے۔ کل بھوشن کے حوالے سے دو باتیں کہی جارہی ہیں۔ ایک یہ کہ اسے تین مارچ کو پکڑا گیا تھا، مگر تین ہفتے تک یہ معاملہ پوشیدہ رکھا گیا اورایرانی صدر کے دورے کے موقع پر یہ معاملہ دانستہ اٹھایا گیا۔ ایسا بچگانہ اعتراض کرنے والوں پر ہنسی آتی ہے۔گویا ان کے خیال میں انٹیلی جنس ایجنسی کو جاسوس پکڑتے ہی اگلی صبح پریس کانفرنس کرنی چاہیے تھی؟ جاسوسوں سے تفتیش ہوتی ہے، اس میں کئی دن بلکہ ہفتے لگ جاتے ہیں۔ کیا پختہ کار سیکرٹ ایجنٹس کو توڑنا آسان کام ہوتا ہے؟ امریکہ نے شیخ خالد محمد کو پکڑا اور کئی مہینوں کے بعد جا کر اس نے راز اگلے، وہ بھی واٹر بورڈنگ کے وحشیانہ طریقہ کے استعمال کے بعد۔ جاسوس کی گرفتاری اس لئے بھی راز میں رکھی جاتی ہے تاکہ اس کے ساتھیوں کو پکڑا جا سکے، نیٹ ورک کا علم ہو، اس توڑا جائے، مختلف کڑیوں کا ملانے کے بعد ہی کوئی تصویر بن پاتی ہے۔ اس کے لئے تین ہفتے بھی کم ہیں۔ پاکستانی اداروں کو اتنا جلد یہ کام کرنے پر شاباش دینا بنتا ہے۔

ایرانی صدر کے سامنے یہ ایشو اٹھانے میں بھی کوئی حرج نہیں تھا۔کیا برائی ہے اس میں؟ ایک بھارتی ایجنٹ ایرانی سرزمین استعمال کر کے بلوچستان سے مقامی دہشت گرد بھرتی کرتا، انہیں کھلے سمندر میں لے جا کر کشتی کے ذریعے گوادر پورٹ پر حملہ کی تربیت دیتا ہے۔ وہ خود بتا رہا ہے کہ میرا سارا نیٹ ورک ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں قائم ہے، وہیں میرا نائب بھی مقیم ہے۔ یہ کم اہم معلومات نہیں تھیں۔ گوادر پر حملے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو ڈرا دیا جائے، وہ آنے سے انکار کر دیں اور یوں یہ پورا پراجیکٹ ، سی پیک کا منصوبہ ہی ختم ہوجائے یا پھرخوفناک تعطل کا شکار ہو جائے ۔ ایران ہمارا دوست ملک ہے۔ اس کے بارے میں حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔ پاکستانی سمجھتے اور مانتے ہیں کہ بھارتی ایجنٹ ایرانی اداروں کی آنکھ بچا کر یہ سب کر رہے تھے، مگر معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ اسے باقاعدہ طور پر اٹھانا ہی بنتا تھا۔ ایران کے حوالے سے البتہ ہم سب کو مزید احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ایسا کچھ نہ کیا جائے، جس سے ایرانی بھائیوں کے جذبات متاثر ہوں۔ ایرانی قیادت کو البتہ پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لینا اور انہیں دور کرنا ہوگا۔

پاکستانی معیشت اور پاکستانی عوام کے لئے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اسے آکسیجن پائپ ہی سمجھ لیں۔ اس کے خلاف سرگرم تمام نیٹ ورک توڑنے چاہئیں۔ اس کے لئے مگر پاکستانی اداروں کو بھرپور عوامی حمایت اور سپورٹ درکار ہوگی۔ مذہبی، مسلکی، نظریاتی ، فکری اعتبار سے کسی ملک کو پسند کرنا، اس کے لئے ہمدردی یا نرم گوشہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ پاکستان میں دینی جماعتیں دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لئے ہمدردی رکھتی ہیں۔ ایک زمانے میں دنیا بھر کے کمیونسٹ سوویت یونین کے ساتھ اپنا فکری تعلق رکھتے تھے۔ تاہم بات جب اپنے ملکی مفادات کی آجائے تو پھرکوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا۔ یہ بات سب کو جاننا اور سمجھنا ہوگا کہ ہمارا اپنا ملک ہی ہم سب کی واحد پناہ گاہ، سر کا سایہ اور آنے والی نسلوں کا محافظ ہے۔ لہٰذا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی سوچ ہی اپنانا ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments