جلال کاکڑ کے نام خط ایک ہزارہ دوست کا خط


جلال کاکڑ!

اسلام علیکم کے ساتھ اس لئے خط نہیں لکھ رہا کہ زوئی کہیں تم کو ایسا نہ لگے کہ خدا نخواستہ ہمارے ہانڈی والی (دانت کاٹی دوستی) میں کوئی کمی بیشی آیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کالج کے دنوں میں ہمارا دوستی نیا نیا پکا ہوا تھا تو تم نے ہم کو سلام ولام کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ تمارا مطابق ہانڈی والی جب ٹیٹ ہوجائے تو سلام ولام کا محتاج نہیں ہوتا۔

خیر تم چورت میں پڑ گیا ہوگا کہ ہم نے اتنے دنوں بعد تم کو کیسے یاد کیا، تو زوئی بات یہ ہے کہ کچھ ہفتوں پہلے عثمان قاضی کا اپنے کلی وال کے نام خط پڑا، سچ پوچھو تو خط پڑھ کر آنکھیں پرانے کوئٹہ کا یاد میں نمدیدہ ہوگیا۔

تم کو تو پتہ ہے کہ کیسا ہم سارا لوگ موسیٰ کالج کے پاس اکٹھے کرکٹ کھیلا کرتا تھا، کلاسس چھوڑ کر گلستان ٹاؤن کے ساتھ درختوں کے سائے میں بیٹھ کر سارا یار دوست گھنٹوں تک باتیں کرتا تھا۔ نہ کسی ہزارہ نے دہشت گرد سمجھ کر روکا نہ ہی کسی پختون نے اپنا آپ کو غیر محفوظ سمجھا، خیر اب تو علمدار روڈ پر ایف سی والا محلے میں داخل ہونے سے پہلے ہر غیر ہزارہ سے اس کا اور جس کے پاس وہ جارہا ہے اس کا شناختی کارڈ مانگتا ہے اور کبھی کبھار ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ ہم آپ کا اپنا بھلائی کیلئے کر رہا ہے کیونکہ ہزارہ اپنے محلے میں ہر ناشناس آدمی سے سوال جواب کرتا ہے اور مار کھٹائی کرتا ہے جو کہ کسی حد تک درست بھی ہے۔

بس زوئی تم کو کیا بتائے علمدار روڈ دھماکے کے بعد محلے میں ہر بندہ کسی غیر ہزارہ کو شک کا نگاہ سے دیکھتا ہے اس لئے کہ تمام فورسز اور حکومت سے اعتبار بالکل اٹھ گیا ہے۔ اور زوئی تم کو بھی پتہ ہے کہ یہ سارا معاملہ یک دم نہیں ہوا یہاں تک پہنچنے میں ہمارا تو قبرستان میں زمین کم پڑگیا ہے۔ کچھ دن پہلے محلے کا ایک بزرگ تشویش کررہا تھا کہ پتہ نہیں اس کا باری میں اسے قبرستان میں جگہ ملے بھی یا نہیں۔

سچ پوچھو تو زوئی ہمارا لوگوں کو تمارا لوگوں سے تھوڑا گلہ بھی ہے۔ تم کو یاد ہوگا کہ جب منظور ہزارہ سے تمارا علمدار روڈ پر لڑائی ہوا تھا تو راہ چلتے ہزارہ ماما نے تم دونوں کو روکا تھا اور پہلے معاملہ دریافت کیا تھا۔ قصوار وار جب منظور نکلا تھا تو ماما نے کیسا منظور کو ملامت کیا تھا اور اسے تھپڑ بھی مارا تھا۔ اسی طرح بازار میں بھی کوئی ہزارہ پشتون لڑائی ہوتا تو بزرگ قومیت دیکھتے بغیر فیصلہ کرتا اور جوان لڑکے آگے سے کوئی لفظ بھی نہیں بولتا اور فیصلے پر راضی ہوتا۔

اسی طرح زوئی ہم کو پوری طرح یاد ہے کہ جب منان چوک پر ہمارا سائیکل کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو کیسے سارا پشتون دکاندار ہمارا مدد کو آیا تھا اور ہم کو ہسپتال لے کر گیا تھا۔ کہاں وہ دن اور کہاں یہ دن کہ ہمارا کلی وال ٹیکسی پر دو خاتون اور ایک بچے کے ساتھ بروری سے آرہا تھا، نا معلوم لوگوں نے اسی منان چوک پر ان کی گاڑی پر فائرنگ کیا، خواتین تو موقع پر ہی دم توڑ گیا لیکن نامعلوم کے فرار ہونے کے بعد زخمی ڈرائیور نے گاڑی کو خود چلایا اور اسپتال تک لے گیا۔ شاید خوف کا پلڑا، روایات کے پلڑے سے بھی بھاری ہوگیا ہو۔ تم تو دوست ہے زوئی تم سے تو درد دل بنتا بھی ہے، کسی اور سے کرے گا تو بات کا برا مانے گا۔

اور تو اور زوئی سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کے بس کو جب نشانہ بنایا تو خواتین بھی ہزارہ خواتین کے ساتھ سفر سے ڈرنے لگا۔ اور کچھ نے تو گزارش بھی کیا کہ ان کا یا تو بس الگ کردو یا پھر ان سے کہو کہ رکشے میں سفر کیا کرے۔ اور والد کو بھی بازار میں لوگ مزاک مزاک میں کہتا ہے کہ زیادہ ہمار دکان پے مت آیا کرو تمار وجہ سے ہمار جان بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

خیر زوئی کچھ دنوں پہلے شیر علی بلوچ ہمارا کلاس فیلو سے اسلام آباد کے کوئٹہ کیفے میں غیر متوقع طور پر ملاقات ہوا، اس سے کافی لمبا گپ ہوا۔ اس کا خاندان میں بھی بہت سے لوگ لاپتہ ہیں اور اسی سے پتہ چلا کہ اسے خود بھی ایک مہینے کیلئے غائب کیا گیا تھا۔ اس کے قصے سنتا ہوں تو اپنا سارا تکلیف بھی کم دکھائی دینے لگتا ہے۔

اور پشتون وکیلوں پر جو دھماکہ ہوا اس کے بعد تو کسی سے بھی گلہ گزاری کا دل نہیں کرتا۔ بس ایسا لگتا ہے کہ ہم سارا لوگ اب ایک ہی کشتی پر سوار ہیں۔ بعض اوقات سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں کوئٹہ شہر کو کس کا نظر لگ گیا، بعض سیاستدان کہتا ہے کہ نالے سے اس پار والے نے نظر لگایا ہے۔ ہم کہتا ہے زوئی ہم نے بھی تو نظر لگنے دیا ہے جو اس نے نظر لگایا ہے۔ چک چک ایک ہاتھ سے تو نہیں لگتا، کچھ ہمارا اپنوں نے بھی کسر پورا کیا ہے۔

یاسین نادر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).