ایک ہندو کراچی کا – وحشتوں کا شہر


کلپنا
آج دوبارہ رام باغ گیا، پرشوتم ساتھ تھا۔ اتوار کا دن ہے تو ساری دوکانیں بند تھیں۔ صبح 9 بجے بھی چھوٹی سڑکیں اور بڑے روڈوں پر گندگی تھی، سمجھ میں نہیں آتا کہ کراچی کے لوگ اتنے گندے کیوں ہیں۔ میں رام باغ کے چاروں طرف آہستہ آہستہ گھوم کر پیچھے سے بڑی روڈ پر آگیا۔ اسی روڈ پر آگے لیڈی ڈفرن میٹرنٹی ہوم تھا جو میں نے سنا ہے کہ ابھی بھی اپنی پرانی بلڈنگ میں ہے۔ کوئی پارسی ڈاکٹر اس کو چلاتا ہے۔ ، پارسی چلاتا ہے تو اچھا ہی چلاتا ہوگا کراچی کا درد پارسیوں سے زیادہ کسی کو نہیں ہوسکتا۔ اس شہر کو بہت دیا ہے ان لوگوں نے پِتا جی کے دوست تھے چیتومل سوبھراج شکارپور کے رہنے والے، کراچی میں بڑا کاروبار تھا۔ ان لوگوں نے بھی کشن دیوی چیتومل سوبھراج میٹرنٹی ہوم، برنس روڈ کے پیچھے عوام کے لیے بنایا تھا۔ جوزف نے بتایا کہ وہ اچھا چلتا ہے، پر اس کی پتھر کی بلڈنگ کو بھی کوئی ٹھیکیدار، سول انجینئر، آرکیٹیکٹ کھاگیا ہے، روپیہ کیا کیا کراتا ہے۔ نئے کراچی کے نئے آرکیٹکٹ، سول انجینئر، ٹھیکیدار اور بلڈر تو شاید بہت کرپٹ ہیں، وہ یہ سمجھتے ہی نہیں ہیں یا شاید انہیں پڑھایا ہی نہیں گیا کہ اچھا خوبصورت، صاف ستھری ہوادار عمارت شہر کا حسن اور شہر کی آتما ہوتی ہے، یہ آرکیٹکٹ نہیں ہیں، آتما کے بیوپاری ہیں۔ دھرتی کے سوداگر جو اپنی ماؤں کو بھی بیچ دیں۔

سولجربازار کے سامنے تایا کے سسر نے ایک میٹرنٹی ہوم بنایا تھا۔ سیٹھ سیومل مول چند کھل نانی میٹرنٹی ہوم، اس سے پہلے اسماعیلیوں نے کھارادر میں جان بائی میٹرنٹی ہوم بنایا تھا۔ بڑی اچھی بلڈنگ تھی اس کی، سامنے سے بڑی خوبصورت، جب کھارادر جاؤں گا تو ضرور دیکھوں گا اسے۔ پرانے کراچی میں میٹرنٹی ہوم کی بلڈنگ بنانے میں مقابلہ شروع ہوگیا تھا کہ کون اچھی اور خوبصورت بلڈنگ بنائے گا۔ لیڈی ڈفرن ہسپتال، جان بائی میٹرنٹی ہوم، کشن دیوی چیتومل، سوبھراج میٹرنٹی ہوم، پارسی میٹرنٹی ہوم، سیٹھ سیومل مول چند کھل نانی میٹرنٹی ہوم، لیاری میں میراں ناکہ میٹرنٹی ہوم اور بندر روڈ پر اسماعیل امی جی ناتھانی میٹرنٹی ہوم، یہ ساری بلڈنگیں ابھی بھی ہیں۔ کراچی کی چھوٹی سی آبادی میں تھوڑی سی عورتوں کے لیے یہ اچھے سے ہسپتال تھے، ابھی تو اخباروں کے مطابق کراچی میں عورتیں مرجاتی ہیں حمل کے دوران، لیڈی ڈفرن کے نام سے حیدرآباد میں بھی کاؤنٹس ڈفرن کے نام سے عورتوں کے لیے ہسپتال کھلا تھا اسی سمے پر۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں آنے والے نئے لوگوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ ہر چیز کو برباد کردیں گے۔ ہر بلڈنگ کو تباہ اور ہر کھلی جگہ پر کچھ بنا کر پیسے بٹوریں گی۔ کبھی مسجد کے نام پر اور کبھی نئی بلڈنگ کے نام پر۔ میں اگر آرکیٹیکٹ نہیں ہوتا تو شاید اس بری طرح سے اس بربادی کو محسوس بھی نہیں کرتا۔

رام باغ کے روڈ سے ملی ہوئی دوسری روڈ سے ہوتا ہوا میں مندر جارہا تھا تو دیکھا کہ دیوان جی بلڈنگ کے نیچے ایک مسجد بنادی گئی ہے۔ اس مسجد نے فٹ پاتھ کو ختم کردیا ہے بلکہ روڈ تک چلی آئی ہے۔ آنے جانے والوں کو بڑی مشکل ہوتی ہوگی۔ جب میں بولٹن مارکیٹ گیا تھا تو بولٹن مارکیٹ کی گلیوں میں بھی اسی طرح کی مسجد یں بن گئی ہیں۔ مجھے وشواس ہے پورا وشواس کہ مسلمانوں کا اللہ لوگوں کی جگہوں پر ناجائز قبضہ تو نہیں سکھاتا ہوگا۔ انہیں تکلیف تو نہیں دینا چاہتا ہوگا۔ یہ عجیب لوگ ہیں جنہوں نے نہ جانے کیوں رہنے کی جگہ پر، چلنے کی جگہ پر، پارک کی جگہ پر اور ہسپتال کی جگہ پر مسجدیں بنا ڈالی ہیں اور مسجد کی جگہ پر دوکانیں اور کاروبار کی جگہیں بنادی ہیں۔

کے ایم سی کی بلڈنگ سلامت ہے مجھے اچھا بھی لگا اور حیرت بھی ہوئی۔ اچھا اس لیے کہ عمارت کی جیسے دیکھ بھال ہوتی ہے اور حیرت یوں ہوئی کہ بلڈنگ کے چاروں طرف ابھی تک دوکانیں نہیں ہیں۔ جیسے بولٹن مارکیٹ تباہ ہوگئی ہے، سولجر بازار خراب ہوگیا ہے، لی مارکیٹ اُجڑ گئی ہے اور ایمپریس مارکیٹ کے بارے میں تو میں بتا ہی چکا ہوں۔
مجھے پرشوتم کے دوست نے بتایا کہ دوکانداروں کی ملی بھگت سے پہلے بولٹن مارکیٹ کی پرانی بلڈنگ میں آگ لگوادی گئی پھر جب آگ بجھ گئی تو پھر پرانی بلڈنگ تو گرانی ہی تھی۔ میرے بچپن کا بولٹن مارکیٹ بڑا شاندار تھا اور اب کیا ہوگیا ہے، صرف آنسو ہی نکل سکتے ہیں۔

آج میں نرائن داس جگن ناتھ ودیالا (این جے وی اسکول) بھی گیا۔ یہاں تو میں نے پڑھا تھا، سامنے سے بلڈنگ اچھی تھی، اندر تیزی سے تباہ ہورہی ہے۔ میرا اسکول میرا اسکول نہیں رہا۔ این جے وی اسکول کے سامنے رچمنڈ کرافورڈ جانوروں کا ہسپتال ابھی تک موجود ہے۔ کافی تھا دو چار لاکھ کی آبادی کے لیے۔ جوزف نے بتایا کہ اب بارہ ملین کی آبادی کے لیے بھی یہی ایک جانوروں کا ہسپتال ہے۔ گاندھی جی نے صحیح کہا تھا ’’جو لوگ اپنے جانوروں پر رحم نہیں کرسکتے وہ کسی پر بھی رحم نہیں کرتے۔ ‘‘

این جے وی سے نکل کر اسکول اور وائی ڈبلیو سی اے کے درمیان مارسٹن روڈ کے ساتھ برنس اسٹریٹ سے ہوکر میں جوبلی کی طرف گیا جو گھاس بندر اور بھیم پورہ کی طرف جاتی تھی، جوبلی چوک شام لی روڈ پر مہاراشٹرا منڈل کی عمارت ٹوٹ رہی ہے۔ اس سے آگے سینی گاگ کی طرف حسن علی ہوتی مارکیٹ کی خوبصورت بلڈنگ ابھی بھی ہے۔ پرسامنے سے کوئی دیکھ بھال نہیں ہے۔ اس سے آگے جہاں یہودیوں کا سینی گاگ تھا وہ اب نہیں رہا ہے۔ اس کی جگہ پر ایک بھدی سی گندی سی بلڈنگ بن گئی ہے، ساری گلیاں تنگ ہوگئی ہیں، نالے چوُک ہوگئے ہیں۔

یہ علاقہ تو کراچی کا پیرس تھا، صاف ستھرا، چمکیلا، شاندار، خوبصورت بلڈنگیں اور بہت سارے پارک تھے یہاں پر۔ اب وہاں نئی خراب بلڈنگیں ایسی بنی ہوئی ہیں کہ گلیاں تک بند ہوگئی ہیں۔ سینی گاگ کے ساتھ ماسٹر بنجمن کا گھر تھا جو این جے وی میں الجبرا پڑھاتے تھے، نہ ان کی بلڈنگ تھی نہ گھر تھا، نہ سینی گاگ، نہ مندر اور نہ ہی ماسٹر بنجمن۔ اس وقت بھی ادھر مسلمان رہتے تھے اب بھی رہتے ہیں، پر وہ کوئی اور تھے اور یہ کوئی اور ہیں۔

میں نے سوچا ہوا تھا کہ سول ہسپتال بھی دیکھوں گا جہاں کے سرجری کے وارڈ میں ڈاکٹر کرنل ایمرسن جو سول سرجن بھی تھا اُس نے میرا آپریشن کیا تھا۔ وہ صاف ستھرا ہسپتال تھا، جہاں صاف ستھرا وارڈ تھا۔ جس بستر پر میں داخل تھا، اس بستر پرایک پھٹا ہوا گدا پڑا تھا۔ وارڈ گندہ تھا اور ہسپتال جیسے جانوروں کا اصطبل۔ پِتا جی زندہ ہوتے اور دیکھتے تو شاید بے ہوش ہوجاتے۔ بھگوان نے کیا کردیا اس شہر کو۔ کس کا گناہ کس کو سزا۔ شاید کبھی بھی پتہ نہیں چل سکے گا۔

سول ہسپتال کے پیچھے بری بائی پراگیا ہائی اسکول کی بلڈنگ تو جیسے کھنڈر بن کر رہ گئی ہے۔ کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی، پلاسٹر اُدھڑا ہوا۔ پر ابھی بھی عمارت کا حسن برقرار ہے۔ ہم لوگ جب ہندوستان پہنچے تھے تو پتہ لگا تھا کہ اس جگہ پر ہی کراچی یونیورسٹی بن گئی ہے، اس کو دیکھ کر تو جیسے دل ڈوب گیا۔ برابر کا کالج، کے ایم سی کا میدان اور کے ایم سی کا ورکشاپ سب کچھ تباہ کردیا ہے کراچی کے نئے باسیوں نے۔ رنچھوڑ لائن کا نرائن پورہ بدل گیا ہے، پر ابھی بھی ادھر ہندو ہی رہتے ہیں۔ ہری کرشنا، دوگ مایا اور راما پیر مندر ابھی بھی موجود ہیں۔ ان کے آمنے سامنے کی کھلی جگہ ختم ہوگئی ہے۔ اِدھر رہنے والے ہندو بھی نئے کراچی والوں کی طرح گندے ہوگئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ پرانے اور نئے باسیوں نے شہر کوکیوں برباد کیا ہے، اس کی آبیاری کیوں نہیں کی؟ اس کو سنوارا کیوں نہیں؟ ابھی بھی کراچی کے صدر کو صاف کردیا جائے، پارسیوں کے آتش کدہ، عبادت گاہ والی روڈ کے دونوں جانب بنی ہوئی شاندار بلڈنگیں دھودی جائیں، بڑے بڑے بدنما بھدّے بورڈ اُتار دیے جائیں، چوڑی سڑک کوجہانگیر پارک، گرامر اسکول، ڈپو لائن تک صاف کردیا جائے، تو ایسا ہی جگمگا اُٹھے گا جیسے لندن کا لسٹر اسکوائر ہو یا پیکاڈلی سرکس، وہاں تو پتلی پتلی سڑکیں ہیں، کراچی کی پرانی سڑکیں توبہت چوڑی چوڑی بنائی گئی تھیں۔ پر کراچی والوں کو کون بتائے، کون سمجھائے؟ کون کرے گا شہر کی سیوا، شہر کا کوئی مالک تو ہو۔

تم لوگوں کا ٹکٹ پاسپورٹ تیار ہے۔ تمام تر تباہی کے باوجود تم لوگوں کو کراچی پسند آئے گا۔ جوزف تم لوگوں کو اچھی شاپنگ کرا دے گا۔ کل مہیش کا لندن سے فون آیا تھا۔ میری وجہ سے پریشان تھا، میں نے تسلی کردی ہے اس کی۔
میرے کبوتر تو ٹھیک ہیں۔ ان کا دانا پانی مت بھولنا۔
تمہارا پاپا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کلپنا،
آج جوزف مجھے اپنے گھر لے گیا۔ اس کے بوڑھے باپ سے ملاقات ہوئی اور دونوں سے بڑی بات ہوئی۔ کراچی کے عیسائی تو سمجھ لو بالکل ہی تباہ و برباد ہوگئے ہیں۔ جوزف، سینٹ جوزف کالج کے علاقے میں رہتا ہے۔ گون ہال مینسفیلڈ اسٹریٹ پر ہے۔ خستہ حال اُس کے آگے اُلٹے ہاتھ پر ڈوسالانی ٹیرس کی بلڈنگ اُدھڑ گئی ہے اس میں کسی میمن ایجوکیشن بورڈ کا آفس ہے شاید ان لوگوں کی ایجوکیشن بھی ڈوسالانی ٹیرس کی طرح اُجڑی ہوئی ہوتی ہوگی۔ وہاں سے میں فریئر اسٹریٹ پر آگیا اینتھونی وِلا کے آگے۔ ڈیورٹ مینشن خالی پڑا ہے، بلڈنگ ٹوٹ رہی ہے، مگر اس کی شان برقرار ہے۔ ہمارے کراچی میں ڈیورٹ مینشن اور برگنزہ ہاؤس آمنے سامنے خوبصورت عمارتیں تھیں۔ برگنزہ ہاؤس تو کچھ بہتر ہے پر ڈیورٹ مینشن پر ضرور کسی کی نظر ہوگی۔

جوزف کے باپ نے بتایا کہ کراچی کا حسن تیزی سے نہیں آہستہ آہستہ برباد ہوا ہے۔ شرنارتھیوں کو یہاں مہاجر کہتے ہیں، یہ مہاجر ہندوستان سے آکر پاکستان کے مختلف علاقوں میں آکر آباد ہوئے۔ کراچی ایک بڑا گڑھ بن گیا ان لوگوں کا۔ صدر ایوب خان کے زمانے میں مہاجر اور پٹھانوں کا جھگڑا ہوا۔ بھٹو نے جب گدی سنبھالی تو مہاجر اور سندھیوں کا جھگڑا ہوا۔ پھر ضیاء الحق کے زمانے میں مہاجر پنجابی، مہاجر سندھی اورمہاجر پٹھان کے بڑے جھگڑے ہوئے۔ جوزف نے بتایا کہ کراچی جو محبتوں کا شہر تھا، ختم ہوگیا۔ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔ ایک ایک دن میں نہ جانے کتنی لاشیں گریں۔ کوئی گجرات کا عبدالستار ایدھی ہے میمن۔ اس کی ایمبولینس چلتی ہے پاکستان میں۔ جوزف نے بتایا کہ اس کی ایمبولینس پر لاشیں بھر بھر کر ہسپتالوں میں لائی گئی تھیں۔ محلوں میں، گھروں میں آگ لگی۔ شہر تو جیسے جہنم بنا رہا تھا، نہ جانے کتنے سال تک۔

مجھے بھی یاد ہے کہ کراچی میں سینما ہال تھے۔ چھوٹے چھوٹے درجن بھر سے زیادہ شراب خانے۔ دو تین جگہیں تھیں جہاں جاز کی دھن پر ناچ بھی ہوتا تھا، تھیٹر تھے جہاں گجراتی ڈرامے ہوتے تھے اور جادوگر اپنے کرتب دکھاتے تھے۔ سندھ کلب اور کراچی جمخانہ میں گوروں اور شہر کے امیر لوگوں کی پارٹیاں ہوتی تھیں۔ نئے سال کے بال ڈانس کا بہت شور رہتا تھا۔ ہم جوان تھے تو جا کر تھوڑا بہت ڈانس وانس کرلیتے تھے۔ YMCA میں اور سینٹ پیٹرکس اسکول میں کرکٹ کا میچ کھیلتے اور خوش رہتے تھے۔ جب کراچی میونسپل کارپوریشن بنی تو مسئلہ اٹھا کہ کون ہوگا کے ایم سی کا چیئرمین، شہر کا میئر کچھ لوگوں نے کہا کہ الیکشن کرالیتے ہیں مگر پھر ایک میٹنگ ہوئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ یہ چھوٹا شہر ہے جہاں سب پیار سے رہتے ہیں۔ ہندو، مسلمان، پارسی اور عیسائی ہر دو سال پر میئر بدلے گا باری باری ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی۔ جب پاکستان بنا تھا تو مسلمان ہی کی باری تھی، تمہیں تو یاد ہی ہوگا۔ جوزف کے بوڑھے باپ والٹر نے مجھے یاد دلایا، میں تو جوان تھا اس وقت، مجھے سب یاد تھا۔ چار مذہب کے لوگ تھے نہ کوئی جھگڑا نہ کوئی فساد نہ کوئی قتل نہ کوئی اغوا۔ کتنی Harmony تھی کراچی میں۔ سب کچھ بد ل گیا، سب کچھ۔ دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان۔

والٹر نے بتایا ابھی سارے کے سارے مسلمان ہیں آٹھ ہزار پارسی ہوں گے، ایک دو لاکھ ہندو ہوں گے دو تین لاکھ عیسائی اور سارے مسلمان، پھر مسلمانوں نے ایک دوسرے کو خوب قتل کیا ہے کبھی مسجدوں میں قتل، کبھی شیعوں کا قتل، کبھی ڈاکٹروں کا قتل، کبھی پٹھان کا قتل، کبھی سندھی کا قتل، کبھی پنجابی کا قتل، کبھی مہاجر کا قتل، یہ تمہارا کراچی نہیں ہے یہ پرانا کراچی نہیں ہے جہاں روز شہر دھلتا تھا۔ جہاں برسوں کوئی جرم نہیں ہوتا تھا۔ کراچی کے سینی گاگ میں ایک قتل ہوگیا تھا تو برسوں لوگ اس کی بات کرتے تھکتے نہیں تھے کہ انسان بھی ایسا کرسکتا ہے اور اب تو بغیر قتل کے شہر چلتا ہی نہیں ہے۔ اس شہر میں امن تھا، محبت تھی، سب کچھ تھا۔ مسلمانوں نے شراب خانے بند کردیے ہیں، بیئر نہیں پیتے، خون پیتے ہیں خون۔ اس کے لہجے میں شکایت تھی، غصہ تھا، بیچارگی تھی۔ انہوں نے ڈانس کلب بند کردیئے ہیں۔ اب یہ ڈانس نہیں کرتے ہیں، موت کا ناچ ناچتے ہیں، پستولوں، ٹی ٹی اور کلاشنکوف سے گولیاں چلاتے ہیں، کبھی مسجد میں، کبھی مندر پر، یہی ناچ ہے آج کا۔ میگا فون کی گونج نہیں پستول کی گونج ہے، طبلے کی تھاپ نہیں خنجر کے وار ہیں، یہ ہے آج کا کراچی۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا تھا۔

میں اسے کیا بتاتا؟ میں سوچ رہا تھا کہ کیوں جگن ناتھ چاچا نے اس شہر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ شہر نہیں ہے جنگل ہے یہاں تو جنگل کا قانون ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کسی کو کوئی جوابدہ نہیں، کسی کو کوئی شرم نہیں، کسی کا کوئی خدا نہیں ہے۔

والٹر نے بتایا کہ اس کا سارا خاندان کینیڈا اور آسٹریلیا چلا گیا ہے جوزف میری وجہ سے نہیں جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابھی بڈھا ہوگیا ہوں۔ کراچی میں ہی مرجاؤں تو اچھا ہے۔ پر ایک بات ہے، میرا باپ جب کراچی میں مرا تھا تو بے فکری سے مرا تھا، میں مروں گا تو فکر کرکرکے مروں گا کیا زندگی ہے میری، کیا کھویا کیا پایا۔ صرف کھویا ہی کھویا ہے کراچی میں۔

میری بڑی خاطر کی ان لوگوں نے۔ مری بیئر بھی پی میں نے، یہ پاکستانی بیئر تو بڑی اچھی ہے، مہیش کو پسند آتی اگر وہ یہاں ہوتا۔ جوزف کے ہی گھر پر کھانا کھایا تھا اور دوپہر کو ہوٹل آکر سوگیا تھا۔ شام کو پرشوتم آئے گا تو پتہ چلے گا کچھ جگن ناتھ کے بارے میں۔
سچی بات یہ ہے کہ آج میں کافی پریشان سا ہوگیا ہوں۔ انکل تو ٹھیک ہیں ناں۔
تمہارا پاپا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)
اس سیریز کے دیگر حصےایک ہندو کراچی کا – جناح زندہ رہتا تو کراچی زندہ رہتاایک ہندو کراچی کا – بیٹی تم کراچی مت آؤ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).