بتیس روپے آٹھ آنے والے ڈی این اے کو نہیں مانتے


آج کل ہر طرف سے ایک ہی بات کوئی درجن دفعہ سن رہے ہیں کہ “تو کیا غلط ہے۔ نکاح سنت ہے۔” جناب بالکل ہے۔ اور کسی کا کوئی حق ہی نہیں کہ دوسرے کی ذاتی زندگی میں دخل دے مگر ہماری قوم کو فرصت بڑی میسر ہے۔ ایک ہفتہ جنازے کی لڑائی لڑی کہ ایسا ہوتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا۔ اب ایک ہفتہ نکاح کا پھڈا نمٹائیں گے کہ اس وقت ہوا تھا اور اس وقت پڑھایا تھا۔ مجھ سے رائے مانگی گئی کہ لوگ کیوں اتنی تنقید کر رہے ہیں جبکہ ذہنی طور پر تو سب تیار ہو ہی چکے تھے تو میری ناقص رائے یہ تھی کہ آج کل تو جب خاندان میں شادی کے کارڈ بانٹے جاتے ہیں تو سگے رشتہ داروں کی ناراضی کا انکشاف ہوتا ہے۔ ان کے اعتراضات پتہ چلتے ہیں۔ تقریب میں دولہا دلہن کو اسٹیج پہ ساتھ بیٹھا دیکھ کر خلوص سے دعائیں دینے والے کم اور “بڑی لگ رہی ہے، کالا ہے لڑکا، موٹی کتنی ہو گئی خوشی میں، جوڑا ذرا اچھا نہیں، یہ بیوٹیشن نے کیا بدلہ لیا ہے؟” طرح کے تبصروں میں لپیٹ کر اپنے دل کا بغض نکالنے والے اکثریت میں ہوتے ہیں۔

اکثر شادی کے مرحلے کے دوران جب راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا ہے اور لوٹ سیل اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہوتی ہے تب ایک مرحلے پر سنت کا ذکر بہت کیا جاتا ہے اور وہ ہے حق مہر۔ اکثر لوگ دینا تو دور لکھنے میں ہی بحث بازی شروع کر دیتے ہیں۔ آپ میں سے اکثر نے سنا ہو گا کہ شرعی حق مہر بتیس روپے آٹھ آنے ہے جو کہ سراسر غلط بات ہے۔ حق مہر دونوں فریقین کی باہمی اجازت سے اتنا لکھوایا جائے جتنے کی ادائیگی ممکن ہو سکے اس میں کسی قیمت یا کرنسی کی کوئی قید نہیں۔ نہ ایسا ہے کہ آئے لینڈ کروزر میں اور لکھ دیئے بتیس آنے اور نہ ہی ایسا کہ ادائیگی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اور لکھ دیئے بٹ کوائنز۔ تعلیم سے بے بہرہ افراد میں یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ صرف علیحدگی کے وقت ہی خاتون مہر کا مطالبہ کر سکتی ہے جو کہ قطعا غلط ہے۔ شریعت کو بزنس اور سنت کو ڈھال بنانے والے کبھی یہ بھی سوچ لیں کہ جہیز ایک لعنت ہے اور مرد و عورت دونوں پر علم کی طلب فرض ہے تو بیشتر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

ایک خبر ہے کہ قصور کی ننھی زینب کا قاتل اپنے بیان سے مکرنا شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کے قوانین میں ڈی این اے کی کیا حیثیت ہے اور ایک ایسا مجرم جس کا ڈی این اے صرف ایک متاثرہ نہیں بلکہ کئی اور متاثرین سے بھی میچ کر چکا ہو وہ سزا سے کیسے بچ سکے گا؟ آج سے کچھ سال قبل اسلامی نظریاتی کاونسل نے فرمان جاری کیا تھا کہ صرف ڈی این اے کو ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔ اس وقت بھی میرا تحریری اعتراض تھا کہ اس کاونسل میں کتنے سائنسدان ہیں جو تحقیق کے بعد اس نتیجے تک بات کو لائے ہیں؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ جہاں ہمارے فائدے کی بات ہو وہاں ہمیں سنت، واجب، فرض سب اچھا لگتا ہے اور جہاں بات محنت، دریافت، تحقیق اور خرچ مانگتی ہو وہاں ہم کنی کتراتے ہیں۔ اپنی طرف سے بتیس روپے آٹھ آنے رائج کر دیئے، اپنی طرف سے ڈی این اے کو دھتکار دیا کہ آخر تحقیق کا روگ کون پالے۔ قانون کیا کہتا ہے؟ دنیا کہاں کو چل پڑی ہے اس سے کسی کو غرض نہیں کیونکہ یہاں لوگ قانون کی نہیں پیر صاحب کی سنتے ہیں اور ان کا فرمان مبارک کسی سے قتل کروا سکتا ہے اور کسی سے دولت بخشوا سکتا ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ نہیں مانیں گے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی زنا کے کیس میں غلطی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ بتیس روپے آٹھ آنے پر ٹکے رہیں گے کیونکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔

ایک ویڈیو دیکھی کہ خادم رضوی فرماتے ہیں کرکٹ **** کا کھیل ہے۔ اور آگے کرکٹرز کومغلظات بکی گئیں۔ چلیں کرکٹ یہودیوں کی ایجاد ہے تو پھرآپکے پروانے فیس بک سے آپ کی لائیو اسٹریمنگ کیوں کرتے تھے جب آپ طوفان بد تمیزی دھرنے کے نام پہ دیئے بیٹھے تھے۔ یہودی و نصاری بلکہ ملحدین کی ہی ایجادات سے سب کے کھاتے چل رہے ہیں۔ خدارا آپ بھی اے سی والی گاڑی کو چھوڑ کر اونٹ پہ سفر کریں ورنہ ہم بھی آپ کو وہی گالی دیں گے جو آپ نے کرکٹ کھیلنے والوں کو دی۔

گند کیچڑ کے اوپر کتنا ہی حسین قالین لا کر بچھا دیں بد بو پھر بھی اٹھے گی کیونکہ یہ بو پتہ دیتی ہے کہ گندگی ہے اسے دور کریں۔ اسے ڈھک دینے سے صرف نظر سے اوجھل ہو گی وجود وہیں باقی رہےگا۔ انتہا پسندی، عدم برداشت اور جہالت ہمارے معاشرے کا کیچڑ ہیں جن پر مذہبی ظواہر پرستی کا قالین ڈال دیا گیا ہے۔ اس کا علاج آج بھی نہ کیا تو ہماری آنے والی نسلیں ان مائینز پرچلیں گی اور یہ بارود گاہے بہ گاہے ان کے پرخچے اڑاتا رہے گا۔ ہم اپنا تباہ و برباد حال دیکھ رہے ہیں مگر اپنی آنے والی نسل کیلئے کچھ بہتری کے بیج ڈال دیں تاکہ کل کو وہ ایک بہتر پھل پا سکیں اور شاید آج سے بہتر فضا میں بغیر کسی دباو اور بوجھ کے ایک آزاد سانس کھینچ پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).