الحمدللہ، ہم ایٹمی طاقت ہیں!


ہمارے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کی وطن عزیز سے محبت اور شبانہ روز محنت کی وجہ سے قیام پاکستان کے 51 سال بعد، ایٹمی دھماکے کرکے ساتویں ایٹمی قوت والی مملکت کہلائے۔ وطن عزیز کے حکمرانوں اور مقتدر اداروں نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک وطن عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی اندرون و بیرون ملک ہر محاذ پر لڑ کر، جس طرح دل و جان سے ہی حفاظت کی ہے، اس کا معترف ایک زمانہ ہے۔ اس وقت اقوام عالم میں پاکستان اور پاکستانی قوم کا ڈنکا جس زور و شور بج رہا ہے، اس کے پشت پر وہ محیر العقول حکمت عملی اور فیصلے ہیں، جس کو اپنانے کی جرات کوئی ریاست اور قوم نہیں کرسکتی۔ الحمد للہ، قیام پاکستان کے بعد ہر شہری اپنی شناخت رکھتا ہے، کوئی پنجابی ہے اور کوئی سندھی، بلوچی، پختون اور کو ئی اردو سمیت دیگر زبان بولنے والا، کوئی سنی ہے تو کوئی شیعہ، کوئی بم بارود والا تو کوئی دم درود والا، الحمدللہ، سب اس نئی شناخت پر خوش اور مطمئن ہیں، اور اس شناخت کے تحفظ کے لیے لڑنے مرنے کو بھی تیار، ایسی ریاستوں اور قوموں کی نظیر فی زمانہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔

ایٹمی قوت بننے کی دھن میں مگن ہمارے حکمران اور ریاستی ادارے، اگر کچھ بنیادی ضروریارت اور حقوق، جو ہر ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا فراہم کرے، اب تک نہیں کرسکی ہے تو اس پر واویلا مچانا درست نہیں ہے۔ چند ناہنجار اور سر پھرے اہل قلم و دانش اور نام نہاد انسانی حقوق کے دعوے دار، ان بنیادی ضروریات اور حقوق کی آڑ میں ہرزہ سرائی اور وطن دشمنی میں ہمیشہ سے سرگرداں رہے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر آج پینے کا صاف پانی ہر شہری کو ملنے لگے اور گیسٹرو کی وجہ سے معصوم بچوں کی ہلاکت کا سلسلہ رک جائے، تو وطن عزیز کی آبادی کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی، سائنس پڑھی ہو تو کچھ پلے بھی پڑے کہ سائنسی طریقے سے آبادی کو محدود کرنے کا، اس سے کامیاب و مجرب نسخہ کسی بھی ریاست نے ا ب تک نہیں اپنایا ہوگا۔ اسی طرح تعلیمی نظام و نصاب کے حوالے سے روز نت نئے سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ حکومت کی آئینی ذمے داری ہے کہ سولہ برس تک ہر بچے کو مفت و لازمی اور یکساں تعلیمی نظام و نصاب کے تحت تعلیمی سہولیات فراہم کرے۔ یہ ناہنجار سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر یکساں تعلیمی نظام و نصاب نافذ ہوجائے اور ہر بچہ تعلیم جیسی فضول دولت سے ہمکنار ہوجائے، تو ہر شہری میں شعور پیدا ہوجائے گا اور آج جو ہر شہری اپنی علیحدہ شناخت پر نازاں ہے، اس سے ہاتھ دھونا پڑجائے گا۔

یہی حال عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی نام نہاد تنظیموں کا ہے، جو ہر وقت عورتوں اور کم عمر لڑکیوں کے لیے، ہمارے پرکھوں کی صدیوں پرانی رائج رسموں اور رواج ونی، ڈنڈ، باڈہ، سوارہ اور دیگر رسموں و رواج کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی ہوئی ہیں، ان کو یہ نہیں پتا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر ان رسم و رواج کی بیخ کنی کردیں، تو ہماری صدیوں پرانی ثقافت پر کیسی کاری ضرب لگے گی۔ ترقی و تہزیب یافتہ اور ایٹمی قوتیں اپنی ثقافت اور ریتی رواج کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے مر مٹتی ہیں۔ سوشل میڈیا بھی معمولی معمولی سی باتوں کو لے کر قوم کو گمراہ کرنے کے مشن میں لگا ہوا ہے، کبھی قصور ویڈیو اسکینڈل، کبھی زینب زیادتی و قتل کیس، کبھی مردان کی اسماء زیادتی و قتل کیس کو لے کر ڈھنڈورا پیٹنے لگتا ہے۔ اسی لیے وزیر اعلی خیبر پختون خواہ نے معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے، تاریخی بیان دیا کہ اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں یعنی سوشل و الیکٹرونک میڈیا زیادہ شور و غل سے پرہیز کرے۔ اسی طرح نقیب اللہ قتل کیس کو بھی لے کر سوشل میڈیا اتاولا ہوا ہوا ہے، اس معاملے میں بھی سابق صدر نے قوم کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹھنڈے دل سے ماورائے عدالت قتل کیس پر غور کریں، ایس ایس پی راؤ انوار ایک بہادر بچہ ہے۔ سابق صدر کے اس بیان پر تو قوم کو فخر کرنا چاہیے کہ کیا پتے کی بات کی ہے، کیا کسی بھی ملک کا سابق صدر ایسا معرکتہ الآراء بیان دے سکتا ہے؟

صحت اور طبی سہولیات کی فراہمی سے متعلق بھی میڈیا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے، اگر طبی سہولیا ت اورصحت کی مد میں مختص رقم میٹرو، اورنج ٹرین اور سڑکیں بنانے میں لگائی گئی ہے، تو حکومت کہ پاس یقینا اس کی کوئی ٹھوس وجہ رہی ہوگی، بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ نئی سڑکوں، میٹرو اور اورنج ٹرین کی تعمیر سے مریض جلد از جلد منزل مقصود پر پہنچ جائے گا۔ ایسے ہی عدالتوں میں پڑے زیر التواء اور جعلی کیسز کا رونا بھی رویا جاتا ہے، اگر کیسز جلد نمٹادیے گئے، تو عدالتوں کی رونق ماند پڑجائے گی اور قوم کو بلاقیمت جو تفریح میسر ہے، اس سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ قوم کو چاہیے کہ نام نہاد اہل قلم و دانش، میڈیا اور نام نہاد انسانی حقوق کے علم برداروں کی باتوں پر بالکل بھی کان نہ دھریں، اگر کوئی زیادہ شور مچائے یا بہکانے کی کوشش کرے تو ترنت جواب دے دیں کہ ان چھوٹے موٹے مسائل کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ الحمدللہ، ہم ایٹمی طاقت ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).